سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر اپ ڈیٹ، پنجاب کا نگراں
وزیراعلیٰ کون ہوگا؟
سینئر صحافی عمران ریاض خان کا تازہ ترین تجزیہ پڑھیں
سب
سے پہلے جو سندھ کے بلدیاتی انتخابات ہیں ان کے حوالے سے خبر یہ ہے کہ انٹیریئر
سندھ کے اندر جھڑلو پھیر دیا ہے پیپلز پارٹی نے اور جتنے ریزلٹ وہاں سے آ رہے ہیں
وہاں پیپلز پارٹی کامیاب ہوتی چلی جا رہی ہے اور دادو میں انہوں نے اٹھارہ سیٹیں
جیتی ہیں جو میرے پاس ریزلٹ ہیں ان کے مطابق تئیس میں سے اور دادو میں حالانکہ
ابھی تک پانی کھڑا ہے حالات بہت مشکل ہیں لوگ پیپلز پارٹی کو ڈھونڈ رہے تھے لیکن
پیپلز پارٹی نے وہاں سے بھی ووٹ لے لیے ہیں اب آپ اچھی طرح جانتے ہیں کیسے ووٹ
لیتے ہیں وہ اس کے علاوہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں حیدرآباد حیدرآباد میں ایک
سو ساٹھ میں سے اڑتیس ریزلٹ آئے تھے جب میں یہ وی لاگ ریکارڈ کر رہا ہوں تو اڑتیس
کی اڑتیس پیپلز پارٹی نے جیتی ہوئی تھی اس وقت تک اور دیگر بہت ساری سیٹیں ہیں
وہاں پہ پاکستان پیپلز پارٹی کامیاب ہو رہی ہے سیہون میں پندرہ سیٹیں پندرہ کی
پندرہ جو دنیا نیوز کے مطابق وہ پاکستان پیپلز پارٹیاں جیت لی ہیں اور جو نتائج
کراچی سے آ رہے ہیں وہاں پہ جماعت اسلامی سب سے بہتر پرفارم کر رہی ہے اس کے بعد
پیپلز پارٹی پرفارم کر رہی ہے اور آخر میں یعنی تیسرے نمبر پہ پاکستان تحریک انصاف
پرفارم کر رہی ہے وجہ کیا ہے نمبر ایک تو یہ ہے کہ خالی مقبولیت کے اوپر آپ
بلدیاتی الیکشن نہیں جیت سکتے اور ویسے بھی الیکشن جیتنے کے لیے آپ کو پوری تگڑے
طریقے سے محنت کرنی پڑتی ہے گراؤنڈ کے اوپر پراپر آپ کو نیٹ ورک چلانا پڑتا ہے
دھاندلی بہت بڑے پیمانے پر ہوئی ہے جو میرے پاس اطلاعات ہیں جھڑلو پھیرا گیا ہے
پہلے سے تیار ووٹ لا کر ڈالے گئے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے جو دیہی علاقے ہیں
کراچی سے ملحقہ آس پاس کے ایریاز ہیں کیماڑی کا کورنگی کا جو سائڈ ایریاز ہیں ذرا
وہاں پہ بہت تیزی سے اپنے امیدواروں کو جتوایا ہے بندوبست جو ہے وہ صرف جماعت
اسلامی کا بہتر تھا اگر آپ کمپیریزن کریں تو جماعت اسلامی کراچی میں آپ یہ کہہ
سکتے ہیں کہ بے شک وہ پاکستان تحریک انصاف جتنی مقبول نہ ہو لیکن جماعت اسلامی کا
امیدوار موجود تھا حافظ نعیم الرحمان جو ہیں وہ باقاعدہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میئر
کے کنڈیڈیٹ بھی ہیں اور وہ میئر بنے ہوئے بھی ہیں اور بننے والے بھی ہیں ایسا ہی
لگتا تھا اور بڑی کمانڈ کے ساتھ بڑے لمبے عرصے سے وہ اس کے اوپر چل رہے تھے تو
کراچی میں جماعت اسلامی نے اپنا ایک بہتر کنڈیڈیٹ بھی دیا ایک بہتر کمپین کی ان کے
لوگوں نے بڑی سنجیدگی سے گراؤنڈ کے اوپر کام کیا اور انہوں نے دھاندلی سے بچنے کی
بھی تمام تدابیر کی ہیں ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کر دیا تھا ایم کیو ایم کے بائیکاٹ
کی وجہ سے کچھ جو ایم کیو ایم کے ووٹر تھے وہ نہیں آئے اور کچھ لوگ جو ایم کیو ایم
کے ری ایکشن میں ووٹ ڈالنے آتے ہیں وہ بھی نہیں آئے یعنی اگر آپ یہ کہیں کہ دس
فیصد لوگ ایسے ہیں جو ایم کیو ایم کو ووٹ ڈال رہے تھے وہ نہیں آئے تو پھر آپ یہ
کہیں کہ دس سے پندرہ فیصد لوگ ایسے ہیں جو ایم کیو ایم کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے
نکلتے ہیں وہ بھی نہیں آئے تو ماحول جو ہے وہ الیکشن کا ایک بڑی پولیٹیکل پارٹی کے
بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے بھی خراب ہوا ہے اب جب جنرل الیکشن میں ایم کیو ایم لڑے گی
تو ان کو لگ پتا جائے گا کہ پبلک کتنے غصے میں ہے لیکن پیپلز پارٹی نے دھاندلا کیا
انٹیریئر سندھ کے اندر بھی اور کراچی کے اندر بھی اور پاکستان تحریک انصاف یا جماعت
اسلامی نے کچھ حد تک اس کو روکا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف اس کے لیے ایسا لگتا
ہے کہ تیار نہیں تھی آپ ان کے کیمپس میں دیکھ لیں اور ان کی ممبر شپ میں دیکھ لیں
ان کے جلسوں میں دیکھ لیں اور ایون ان کو جو کراچی میں سیٹیں ملی ان کے مطابق دیکھ
لیں تو یہ ایک مقبول ترین پارٹی ہے کراچی کی پاکستان تحریک انصاف لیکن اگر آپ ان
کے لیڈرز کو دیکھیں کہ وہ کس طریقے سے عوام کے اندر اپنا بیانیہ لے کر جاتے ہیں تو
اس میں تو وہ ٹھیک ہیں لیکن عوام کو موٹیویٹ کرنے میں گراؤنڈ کے اوپر اپنے کارکنوں
کو تیار کرنے میں دھاندلی کو روکنے میں ان چیزوں میں ان کا تجربہ وہ نہیں ہے آپ کو
یاد ہوگا پنجاب میں جب الیکشن ہوئے تھے تو پاکستان تحریک انصاف نے کوئی ستر اسی
فیصد الیکشن جیت لیا تھا پچہتر سے اسی فیصد تو وہ کیسے جیتا تھا؟ ایک ایک حلقے کے
اوپر تیاری کی تھی ایک ایک یونین کونسل کے اوپر تیاری کی تھی گراؤنڈ پہ کارکنوں کو
تیار کیا تھا نہ صرف ووٹ حاصل کیے تھے بلکہ ووٹوں کے اوپر پہرا بھی دیا تھا اور
گنتی تک اٹھے نہیں تھے ہر قسم کی مشکل کا انہوں نے سامنا کیا اور پھر وہ الیکشن
جیت گئے تو الیکشن جیتنے کے لیے صرف الیکشن لڑنا ضروری نہیں ہوتا اور یہ جھٹکا پاکستان
تحریک انصاف کو بھی یہ بتائے گا کہ اگر آپ نے الیکشن جیتنا ہے تو پھر آپ کو الیکشن
کی بھرپور تیاری کرنی پڑے گی تحریک انصاف نے اپنا کوئی کنڈیڈیٹ بھی نہیں دیا تھا
یعنی کوئی کنڈیڈیٹ ہی اپنا دے دیتے کہ جناب یہ امیدوار ہے ہمارا جو میئر کا
امیدوار ہے یعنی پیپلز پارٹی نے سعید غنی صاحب دیے ہوئے تھے جماعت اسلامی نے بھی
اپنا کنڈیڈیٹ دیا ہوا تھا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ اس لیے کیا کہ ایم کیو ایم کو
پتا تھا کہ وہ اپنا مئیر نہیں بنوا پائیں گے اور اگر میئر کے الیکشن میں ایم کیو
ایم اپنا مئیر نہ بنوا پائے تو پھر الیکشن لڑنے سے بہتر ہے کہ الیکشن نہ لڑیں جب
کامیابی نہیں مل رہی تو تو ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا ہے اس کا اور اس کے بعد
انہوں نے پریس کانفرنس بھی کی انہوں نے میڈیا پہ بہت شور بھی مچایا رانا ثناء اللہ
صاحب نے بھی ان کی کچھ باتوں کو انڈوز کیا وہ اس لیے اس وقت کر رہے ہیں کہ پیپلز
پارٹی کی بھی تعریف کر رہے ہیں اور ایم کیو ایم بھی کر رہے ہیں رانا ثناء اللہ
صاحب اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں پولیٹیکل پارٹیز کا ووٹ ان کو چاہیے شہباز شریف
کو وزیراعظم پاکستان برقرار رکھنے کے لیے اب جو خبریں ہیں میں آپ کے ساتھ مزید
شیئر کر دیتا ہوں کہ کچھ لڑائی جھگڑے کے واقعات پیش آئے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا
گیا کچھ کیمپس جو ہیں ان کو آگ لگا دی گئی پولنگ سے شروع ہونے سے پہلے سارا دن
ایسی ویڈیوز آتی رہیں جن کے اندر ٹھپے پہ ٹھپہ لگ رہا تھا اور تیر کے اوپر لگائے
جا رہے تھے پیپلزپارٹی نے بیشتر ووٹ زور زبردستی کے تحت لیا ہے چاہے وہ انٹیریئر
میں لیا ہے چاہے وہ کراچی کے اندر لیا ہے لگاتار وہ اسی طریقے سے ووٹ لیتے ہیں اور
ایسے ہی ووٹ لے کر وہ جیتے ہیں آپ کراچی میں جائیں کسی بھی شہر میں جائیں سندھ کے
آپ لوگوں سے پوچھیں تو لوگ شکوہ کرتے ہیں پیپلز پارٹی سے لیکن جب الیکشن ہوتا ہے
تو اس کے اندر وہ ٹھپے لگواتے ہیں وہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو جب تک وہاں پہ
صحیح الیکشن نہیں ہو گا سندھ کے اندر تب تک پھر آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ
یا جب تک لوگ نکل کر خود اپنے ووٹوں کا دھیان نہیں رکھیں گے مقابلہ نہیں کریں گے
تب تک آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی کو برداشت کرنا پڑے گا سندھ کے اندر جماعت اسلامی
اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں جھگڑے ہوئے ہیں کچھ جگہوں پہ اور وہ جھگڑے اس لیے
ہوئے کہ جماعت اسلامی اگزیسٹ کر رہی تھی اور ان کی تیاری بہتر تھی تو اب تک جو
اطلاعات آ رہی ہیں ان میں جماعت اسلامی نمبر ون پہ جا رہی ہے پیپلز پارٹی فی الحال
جس وقت میں یہ ریکارڈنگ کر رہا ہوں اس کے پیچھے آ رہی ہے اور اس کے پیچھے پاکستان
تحریک انصاف آ رہی ہے حالانکہ تحریک انصاف اگر جو اس وقت situation ہے ان کی حکومت
ان کی گرنے کے بعد رجیم چینج ہونے کے بعد عمران خان صاحب کو گولیاں تک لگ گئیں اس
کے بعد تو ان کے کنڈیڈیٹس زیادہ سیٹیں جیتنے چاہیے تھے لیکن وہ اس الیکشن کو مینیج
نہیں کر پائے اور الیکشن ڈے کو تو بہت بری طرح وہ اس میں ناکام ہوئے ہیں نگران
وزیر اعلی پنجاب کے لیے نون لیگ نے تین ناموں پر غور شروع کر دیا ہے اور پاکستان
تحریک انصاف کے بھی تین نام سامنے آ رہے ہیں نون لیگ کی طرف سے مبینہ طور پہ جو
نام سامنے آ رہے ہیں ان میں خلیل الرحمٰن رمدے صاحب جسٹس ریٹائر ہیں اور سابق
بیوروکریٹ ہیں ناصر مسعود کھوسہ صاحب یہ چیف سیکرٹری بھی رہے ہیں اور جواد ایس خواجہ
صاحب ان کے بھی نام آئے ہیں تو یہ تو تین نام جو ہیں وہ پی ایم ایل این کی جانب سے
آ رہے اسی طرح سلمان شاہ صاحب کا نام ہے اور دو اور لوگوں کا نام ہے پاکستان تحریک
انصاف کی جانب سے وہ بھی میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور دوسرا کچھ اور نام بھی سامنے
آ رہے ہیں جن میں ایک نام جو ہے ڈاکٹر پرویز حسن صاحب کا ہے ایک شعیب سڈل صاحب کا
ہے اور ایک نام جو ہے وہ اس کے اندر سلمان شاہ صاحب کا ہے جو اکنامسٹ ہیں اور بڑے
شاندار آدمی ہیں وہ اس سے پہلے بھی میرے خیال میں نگران میں کام کر چکے ہیں لیکن
بطور وزیر اعلی نہیں کر چکے وہ بطور وزیر کام کر چکے ہیں نگران سیٹ اپ کے اندر تو
یہ وہ نام ہیں جو سامنے آ رہے ہیں پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی کی جانب سے اور
پنجاب کا وزیر اعلی جو ہے اس کا انتخاب اگر خود یہ پولیٹیکل پارٹیز مل کر کر لیں
تو یہ جمہوریت کی ایک کامیابی ہو گی ادر وائز یہ معاملہ جو ہے وہ دوسرے ہاتھوں میں
چلا جائے گا اور اسٹیبلشمنٹ پھر فیصلہ کر رہی ہو گی کہ کون ہو گا پنجاب کا
وزیراعلی تو یہ ایک نئی صورتحال پیدا ہو جائے گی زرداری صاحب ویسے لاہور میں آئے
تھے اور انہوں نے آ کر یہاں پہ ان چیزوں پہ کام کرنے کا جو ہے وہ شروعات انہوں نے
کر دی تھی اور میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ وہ کوشش کرتے ہیں ہمیشہ کہ سٹ
اپ جتنا زیادہ ہو سکے ان کے ہاتھ میں رہے اور وہ اس کے ذریعے سے الیکشن کو اپنے
کنٹرول میں کریں جیسا کہ انہوں نے ابھی سندھ کا الیکشن اپنے کنٹرول میں کیا جیسا
کہ انہوں نے کراچی کا الیکشن اپنے کنٹرول میں کیا تو یہ جب تک کہ مافیا سے ٹکر
لینے کے لیے باقاعدہ ٹیمز تیار نہیں ہوں گی میں کوئی لڑائی جھگڑے کی بات نہیں کر
رہا میں بات کر رہا ہوں جمہوری انداز میں اپنا حق چھیننے کی بات کر رہا ہوں تو تب
تک کوئی بھی پولیٹیکل پارٹی ہو وہ سندھ کے عوام کو کوئی تبدیلی لا کر نہیں دے سکتی
تب تک سندھ کے لوگ جو ہیں وہ سندھ کے لوگوں کو خود کرنا پڑے گا جب تک سندھ کے لوگ
خود کھڑے نہیں ہوں گے کراچی کے لوگ خود کھڑے نہیں ہوں گے تب تک ان کے حالات نہیں
بدلیں گے اور جو وہاں پہ حالات ہیں ان کو جب جا کے ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں دکھ ہوتا
ہے کہ یہ روشنیوں کا شہر ہے اس کی کیا حالت ہو گئی ہے بہرحال اگر جماعت اسلامی کے
مئیر بن جاتے ہیں اور میرے خیال میں سب سے بہتر امیدوار جو ہے وہ جماعت اسلامی کا
میئر ہو سکتا ہے حافظ نعیم الرحمن صاحب بڑے شاندار آدمی ہیں میں پہلے بھی کہہ چکا
ہوں اور اگر ان کو موقع ملتا ہے اور وہ آ جاتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس سے
پہلے بھی نعمت اللہ صاحب تھے غالبا کراچی کے مئیر ایم کیو ایم سے پہلے اور انہوں
نے بڑا شاندار کام کیا تھا بہت سارے منصوبے شروع کیے تھے ایک نیا کراچی بنا کر رکھ
دیا تھا اور اگر حافظ صاحب آ جاتے ہیں اور وہ کراچی کا پیسہ صحیح طریقے سے کراچی
کے شہریوں پہ خرچ کرتے ہیں تو یہ دوبارہ سے جماعت اسلامی اس شہر کی رونقیں اور اس
شہر کی روشنیاں وہ بحال کر سکتی ہیں بہت سارے پاکستان تحریک انصاف کے بھی ایسے لوگ
ہیں آج مجھے پتہ چلا کہ جو یہ سوچ رہے تھے کہ حافظ نعیم الرحمن صاحب کو ایک اپشن
کے طور پر لیا جائے کیونکہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف یہاں
سے جیت جاتی ہے تو پھر کون ہوگا کراچی کا میئر اس کا ان کو ایڈیانہیں تھا اور کوئی
ایسا ایڈیا بھی نہیں تھا ویژن بھی نہیں تھا کہ کون جو ہے وہ یہاں پہ ہوگا اس کی
شخصیت کو دیکھ کر ایڈیا ہو جاتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہونے کیا والا ہے قاسم علی شاہ
صاحب کا ایک واقعہ ہوا اور بہت ٹرولنگ ہوئی ان کے خلاف تو میں تھوڑا سا اس کے بارے
میں آپ کو بتا دیتا ہوں میں نے اس انٹرویو کا تھوڑا سا حصہ دیکھا جو وہ عمران خان
صاحب سے ملے عمران خان صاحب سے انہوں نے ملاقات کی ملاقات کر کے عمران خان صاحب سے
بڑی اچھی ان کی بات چیت رہی اور نارملی وہ انٹرویوز کرتے نہیں ہیں اس طرح سے میں
نے ان کو سرفراز شاہ صاحب کے ساتھ دیکھا ہے وہ مذہبی شخصیت ہیں ان کے پاس بہت علم
ہے ان کے ساتھ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ بات چیت کرتے ہوئے کچھ وی لاگز وغیرہ اور
میں نے زیادہ تر ان کو دیکھا وہ موٹیویشنل سپیکر کے طور پہ بات چیت کرتے ہیں تو
میں نے عمران خان صاحب کے ساتھ ان کے کچھ کلپس دیکھے پورا اس کو سنا نہیں تھا پہلے
اور وہ دیکھ کر مجھے لگا کہ ٹھیک ہے نارمل ہے جیسے وہ بات چیت ہمارے ساتھ نجی
زندگی میں بیٹھ کر کرتے ہیں ویسے ہی وہ بات چیت عمران خان صاحب کے ساتھ بھی کر رہے
تھے اور ان سے کچھ باتیں پوچھ بھی رہے تھے ان کو کچھ باتیں بتانے کی بھی کوشش کر
رہے تھے اس کے بعد جو ہے وہ ان کی ایک تصویر آتی ہے کہ وہ ان کی ملاقات ہوئی شہباز
شریف صاحب سے پھر ایک ان کی ویڈیو آتی ہے کہ وہ پرویز الہی صاحب سے ملے وہاں پہ
انہوں نے سوال جواب کیے اور پھر ان کا ایک انٹرویو چلتا ہے ٹی وی چینل پہ ناینٹی
ٹو پہ اور اس کے اندر وہ کچھ جملے بول دیتے ہیں عمران خان صاحب کے خلاف یعنی دو
چیزیں ایسی ہوئیں اس میں دو جملے ہیں جن کے بارے میں آپ اعتراض کر سکتے ہیں کہ
مجھے حیرت ہوئی وہ دو چیزیں سن کر کیونکہ میں قاسم علی شاہ صاحب کو جانتا ہوں بڑے
اچھے دوست ہیں میرے دو چیزیں سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی ایک انہوں نے پرویز الہی
صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے جملہ بولا کہ جو اپنا گھر نہیں سنبھال سکتا وہ ملک کیسے
سنبھالے گا یہ بڑا ان فورچونیٹ اور ایک نجی نوعیت کا حملہ تھا یہ اور یعنی اگر
کوئی شخص اپنی نجی زندگی کے معاملے میں کسی دکت سے گزرا ہے یا کسی مشکل سے گزرا ہے
تو اس کو ٹانٹ نہیں کرنا چاہیے آپ کو لیڈر کو آپ نے تولنا ہے یا دیکھنا ہے تو یہ
تو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بھی جو ہے وہ نجی زندگی کے اندر لوگ مسائل نکالتے
تھے اور بہت سارے لوگوں کی نجی زندگی کے اوپر لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں تو نجی
معاملات کو رہنے دینا چاہیے تھا اس طرح تو بہت ساروں کی بہت ساری شادیاں ہیں تو اگر
اس لیڈر کے اندر ویسے ہی کوئی کمی ہے یا اس کی گورننس کا اشو ہے یا کوئی ایمانداری
کا معاملہ ہے یا وہ بے ایمان ہے یا اس نے کوئی فراڈ کیا ہے یا وہ جھوٹ بول رہا ہے
کوئی ایسی چیز ہے تو وہ ضرور بتانا چاہیے تھا لیکن کہ جو بندہ اپنا گھر نہیں
سنبھال سکتا وہ ملک کیسے سنبھالے گا? یہ تھوڑا سا مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ اوور
تھا زیادہ تھا دوسرا ایک اور چیز جو انہوں نے کہی کہ عمران خان صاحب لگتا ہے کہ
قیامت والے فیصلے بھی یہی کرنا چاہتے ہیں یہ ایک پاکستان میں آپ کو پتہ ہے لوگ ذرا
مذہبی طور پہ جنونی ہیں تو اس کو ایک مذہبی رنگ کے طور پہ بھی لیا جا سکتا ہے اس
جملے کو اور ایسے ہی جملے ہیں جس میں عمران خان صاحب کے اوپر پہلے بھی بڑی تنقید
ہوتی رہی ہے کہ وہ فتنہ پھیلا دیتے ہیں وہ جو ہے وہ بہت زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں
خدانخواستہ لوگوں نے بہت عجیب عجیب باتیں اور ویڈیوز بنا کر ان کے بارے میں کی تھی
اور توہین مذہب کے الزامات لگائے تھے تو روز قیامت کے جو فیصلے ہیں یہ بھی مجھے
لگتا ہے کہ تھوڑا سا ایک ایسی لائن تھی جو نامناسب تھی کہ عمران خان صاحب قیامت
والے فیصلے یہاں کیوں کریں گے دیکھیں ایک ہوتے ہیں حقوق العباد اور ایک ہوتے ہیں
حقوق اللہ اور حقوق اللہ کے اوپر جو پکڑ ہے وہ قیامت والے دن ہیں حقوق العباد کے
اوپر پکڑ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی ہے دونوں جگہ کے اوپر ہے اور اللہ
تعالی نے جو شریعت مسلمانوں کو دی ہے اس میں بھی سزا اور جزا کا نظام ہے دنیا میں
جتنے مذاہب آئے ان تمام کے اندر سزا اور جزا کا نظام ہے اور جتنی آسمانی کتابیں
ہیں ان کے اندر بھی سزا اور جزا کا نظام موجود ہے اگر یہ سارے فیصلے قیامت والے دن
ہی ہونے ہوتے تو پھر اللہ رب العزت ہمیں منع کر دیتے کہ کوئی کسی کو کچھ نہ کہے
میں قیامت والے دن کوئی تمہارے درمیان فیصلے کر دوں گا وہ فیصلے ضرور کرے گا ہم سب
کے لیکن اس نے زمین کے لیے بھی کچھ قاعدے اور قانون بنا کر انسانوں کو دیے ہیں
پوری اکثریت موجود ہے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انسانوں نے صدیوں
تک اس زمین پر رہنے کے بعد بہت سارے قاعدے اور قوانین سیکھے ہیں اور ان کی موجودگی
میں وہ رہتے ہیں یعنی جس ملک کے اندر یا معاشرے کے اندر رول آف لا ہوتا ہے اور پکڑ
ہوتی ہے سختی ہوتی ہے وہاں پہ آپ دیکھیں وہ ترقی کرتے ہیں اور وہاں پہ مسائل اتنے
زیادہ نہیں ہوتے حالات وہاں کے بہتر ہوتے ہیں اور جہاں پے رول آف لا نہیں ہوتا سزا
اور جزا کا نظام نہیں ہوتا جہاں سختی نہیں ہوتی وہاں پے کوئی آپ کے سامنے ترقی بھی
نہیں ہوتی طاقتور کی حکمرانی ہوتی ہے لوگ مرضی کے مالک ہوتے ہیں جس کی لاٹھی اس کی
بھینس جنگل کا قانون تو وہ اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں میرے خیال میں یہ دو چیزیں
قاسم علی شاہ صاحب نے تھوڑی سی اوور بول دی اور اس کے بعد ایک بڑا خوفناک ری ایکشن
آیا پاکستان تحریک انصاف کے کراؤڈ کی جانب سے پاکستان کی یوتھ کی جانب سے اور
انہوں نے بھی بہت ساری چیزیں بول دیں ان میں بہت ساری نامناسب بھی تھی اب اس کے
بعد قاسم علی شاہ صاحب نے پھر انٹرویوز دیے دو تین اور ان میں انہوں نے یہ کہا کہ
نہیں میں عمران خان صاحب کا ووٹر ہوں پہلے بھی تھا آئندہ بھی ان کا ووٹر رہوں گا
میری فیملی بھی ان کی ووٹر ہے اور اتنا دلیر آدمی پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ کے
اندر کوئی نہیں آیا اور ایسا لیڈر پیدا نہیں ہوا جو پاکستان میں اب پیدا ہو گیا ہے
تو یہ تھی جی ساری ایپیسوڈ اب قاسم علی شاہ صاحب کے ساتھ ہوا کیا کیوں انہوں نے اس
طرح کے جملے بول دیے یا وہ بیلنس کرنا چاہ رہے تھے یا خدانخواستہ کوئی دباؤ تھا یا
کوئی چیز تھی وہ خود بتا سکتے ہیں وہ زیادہ بہتر مینیج کر لیں گے ان چیزوں کو لیکن
میں جتنا ان کو سنتا رہا ہوں میں بہت ساری چیزوں سے ان کی متاثر ہوا ہوں کچھ عرصہ
پہلے ایک جگہ پہ ہم نے ایک اکٹھے ایک تقریب کو اٹینڈ کیا تھا وہاں میں نے بھی
تقریر کی تھی انہوں نے بھی کی تھی اور میں نے ان کی تقریر پوری سنی تھی وہ آڈینس
کے ساتھ بڑے اچھے طریقے سے انٹریکٹ کرتے ہیں اور میں امید کروں گا اگر کوئی غلط
فہمی ہے کوئی ایسی چیز ہے تو قاسم علی شاہ صاحب اس کو ٹھیک کریں گے اور وہ تمام
پولیٹیکل پارٹیز کے لیے اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں کے لیے ایک اکسیپٹیبل پرسنلٹی
ہیں اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ وہ سیاست میں آئیں انہوں نے یہ سوال بھی پتہ نہیں اب
ان کا اکاؤنٹ ہے یا کسی اور کا پوچھا ہے تو میری نظر میں ان کو ضرور سیاست میں آنا
چاہیے اور کھل کر بات کرنی چاہیے اور کھل کر سیاست کرنی چاہیے جو غلط ہے اس کو غلط
کہنا چاہیے اور کھل کر کہنا چاہیے جو صحیح ہے اس کو صحیح کہنا چاہیے اور کھل کر کہنا
چاہیے اور ایک نقطہ نظر اپنا بڑا ٹھوس قسم کا رکھنا چاہیے کہ یہ ٹھیک ہے یہ غلط ہے
تو یہ ایک ایپیسوڈ ہوئی ہے میں نے کہا آپ کے ساتھ میں جو حقائق ہیں وہ شیئر کر دوں
آپ کے سامنے ہی ہے اب سارا کچھ اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا اپنے اس
چینل کا بھی ۔
اللہ حافظ ۔
0 Comments