بریکنگ نیوز وزیراعلیٰ الٰہی نے پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی۔ 

 کپتان نے کیسے سرپرائز دیا؟

 اسٹیبلشمنٹ بھی حیران

 کراچی میں وہی کھیل دوبارہ شروع



 تفصیلات کے لیے

  سینئر صحافی عمران ریاض خان کا تجزیہ 

  دو بڑی خبریں ہیں ایک تو یہ کہ عمران خان صاحب نے کیسے شکست دی پی ڈی ایم کے اتحاد کو پنجاب میں اس کے بارے میں پوری تفصیل ہے اب میرے پاس میں آپ کو بتاؤں گا ایکچولی ہوا کیا ہے اور کتنا بڑا گیم  ہوا ہے جس عمران خان کو یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کو سیاست نہیں آتی اس نے کیسے ان سب کو اپنے گھر بیٹھ کے گھوما دیا اور کیسے گھمایا میں آپ کو بتاؤں گا ابھی دوسری خبر یہ ہے کہ سندھ کے اندر خاص طور پہ شہری سندھ میں ایم کیو ایم کے تمام دھڑے اکٹھے کر دیے گئے یہ تصویر آپ دیکھ سکتے ہیں اس میں آپ کو سارے نظر آ رہے ہیں انیس قائم خانی مصطفی کمال خالد مقبول صدیقی اس کے ساتھ آپ کو فاروق ستار اور باقی سارے لوگ یہ اکٹھے کر دیے گئے ہیں اور ان کو اکٹھا کیا گیا ہے کہ عمران خان کی طاقت کو کراچی میں توڑا جا سکے ویسے تو نارملی یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کبھی اکٹھا کیا جاتا ہے پولیٹیکل پارٹیز کو یا مختلف دھڑوں کو تو وہ الیکشن لڑنے کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے لیکن یہ سارے اکٹھے ہوئے ہیں الیکشن سے بھاگنے کے لیے الیکشن سے فرار کے لیے کیونکہ عمران خان کا مقابلہ یہ کر نہیں پا رہے۔ اس وقت کراچی میں پندرہ جنوری کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں ایم کیو ایم کے سارے دھڑے اکٹھے کیے گئے اور اکٹھے ہوتے ہی انہوں نے دھمکانا شروع کر دیا یعنی مصطفی کمال نے ڈائیلاگ مارا ہم شریف کیا ہوئے سارے بدمعاش ہو گئے یہ ویسے شاہ رخ خان کا ایک ڈائیلاگ تھا مصطفی کمال فلمیں مجھے لگتا ہے زیادہ دیکھتے ہیں تو وہاں سے انہوں نے ڈائیلاگ جو ہے وہ ایک ڈیلیور کیا ہے تو ڈائیلاگ تو انہوں نے مارا ہے لیکن اس سے یاد آگئی پرانے کراچی کی جب بوری کے اندر لاشیں ملتی تھیں جب سیکٹر کمانڈرز جو ہیں وہ لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کیا کرتے تھے جب ایک ٹیلی فون کے اوپر پورا کا پورا کراچی بند ہو جایا کرتا تھا جب بھتے کی پرچیاں وصول ہوتی تھیں جب قربانی کے جانوروں کی کھالیں زبردستی لے جایا کرتے تھے جس جانور کی کھال دینے سے انکار کریں اس جانور کو گولیاں مار کر چلے جایا کرتے تھے جب سرعام بھتہ نہ دینے والوں کو سڑکوں کے اوپر بھون دیا جاتا تھا اور جب ایک گینگ وار کراچی میں چل رہی تھی مصطفی کمال کی اور باقی لوگوں کی جو باڈی لینگویج اور جس طرح کی زبان انہوں نے استعمال کی اس سے پرانے کراچی کی یاد تازہ ہو گئی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے اداروں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کچھ نہیں سیکھا وہ دوبارہ ان تمام دھڑوں کو اکٹھا کر رہا ہے ان ساروں کو لاکر اکٹھا کر کے بٹھا رہے ہیں جنہوں نے کراچی والوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا ان سب کو ان کے آفیسز دیے گئے ان سب کو اکٹھا کیا گیا اب صرف الطاف حسین رہ گئے ہیں یعنی نیچے کا سارا کا سارا سٹرکچر دوبارہ قائم ہو چکا ہے اوپر صرف ایک الطاف حسین باقی ہے تو الطاف حسین کو بھی واپس آنے دیں اور ان کو بھی اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالنے دے کیونکہ الطاف حسین کے آنے کے بعد بھی مجھے نہیں لگتا کہ یہ اب کراچی میں عمران خان کا مقابلہ کر پائیں گے بہت ہی پتلی حالت ہے اگر ان کو یقین ہوتا کہ یہ عمران خان کا مقابلہ کر پائیں گے تو یہ سارے اکٹھے ہو کر الیکشن لڑتے عمران خان کے خلاف پندرہ جنوری کو لیکن یہ تو الیکشن سے بھاگ رہے ہیں یہ تو آگے لگ کے بھاگ رہے ہیں جو جہاں سے بھاگتا ہے اس کا سامنا عمران خان سے ہوتا ہے حالانکہ عمران خان صاحب کی ٹانگ زخمی ہے ابھی وہ اپنے گھر سے نہیں نکلے لیکن کیسے انہوں نے سب کو گھمایا ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے میں نے کراچی میں بہت سارے لوگوں سے پوچھا جو صحافی ہیں ان سے بھی پوچھا کہ یہ سارے قدرتی طور پہ اکٹھے ہو رہے ہیں یا ان کی سیاسی ضرورت ہے اس کے تحت اکٹھے ہو رہے ہیں یا ان کو اکٹھا کیا جا رہا ہے تو مجھے ناینٹی پرسنٹ لوگوں نے یہی کہا کہ جی یہ اکٹھا ہی کیا جا رہا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ ایسے اکٹھے ہو جائیں یعنی یہ جو بیچ میں خالد مقبول صدیقی بیٹھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں جو باقی آس پاس بیٹھے ہوئے ہیں وہ بیانات دے چکے ہیں کہ یہ را کا ایجنٹ ہے اور یہ باقاعدہ انڈیا جاتا تھا اور یہ وہاں سے را کا ایجنٹ ہے اور یہ انڈین پاسپورٹ کے اوپر ٹریول کرتا رہا ہے اس طرح کی باتیں یہ خود ہی کہتے رہے مصطفی کمال وغیرہ تو آج اسی کے آس پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور اسی کی قیادت میں ایم کیو ایم کو اکٹھا کرنے پر متفق ہو گئے ہیں اور خالد مقبول صدیقی کو کیسے ایم کیو ایم پاکستان والے چیپٹر کی سربراہی ملی تھی یہ تو سب جانتے ہیں کہ وہ جادو کس نے چلایا تھا اور کس طریقے سے چلا تھا تو وہیں سے ایسا لگتا ہے کہ ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں اور تمام مہرے ایک میز کے اوپر اکٹھے کر دیے گئے ہیں کراچی کے اندر اب ان کی وہ ورتھ نہیں رہی وہ طاقت نہیں رہی ایک خوف کے ساتھ یہ کراچی کے اوپر رول کرتے تھے جیسے ایک دور میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑا خوف تھا پاکستان میں وہ جیسے چاہتے تھے میڈیا کو موڑتے تھے جیسے جاتے تھے پولیٹیکل پارٹیز کو موڑتے تھے جس کو چاہتے تھے جس مرضی پارٹی میں شامل کرا دیتے تھے جس کو چاہتے تھے اس کی چھٹی کروا دیتے تھے جس کو چاہتے تھے اس کو یہ بنا دیا اس کو وہ بنا دیا وزارتیں تک بانٹتے تھے مخصوص نشستیں تک بانٹتے تھے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یہ سارے گندے کام کرتی تھی لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا خوف ختم ہوتا چلا گیا  بڑی اچھی بات ہے اسی طرح ایم کیو ایم کا خوف بھی ختم ہو گیا ہے. ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنی مقبولیت کی بنا پر کبھی بھی رول  نہیں کیا جیسا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے وہ پاکستان میں کبھی مقبول نہیں رہی لیکن وہ پاکستان میں ان کا ایک خوف لوگوں کے اوپر طاری رہا ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں پہ تقریبا حکومت ہی کرتے رہے ہیں اسی طرح اس مرتبہ جو ہے جیسے ڈکٹیٹرز ہیں چار وہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے انہوں نے خوف کے بل بوتے کے اوپر حکومت کی ہے لوگ ان سے پیار نہیں کرتے تھے اتنا لوگ پولیٹیکل نظام کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں جہاں پہ لوگ ووٹ ڈال کر کسی کو لے کر آتے ہیں کوئی زبردستی آ کر تو نہیں بیٹھا ہوا ہوتا نا اس میں تو اسی طرح جو ایم کیو ایم ہے یہ خوف کی بنیاد کے اوپر کراچی کے اوپر حیدرآباد کے اوپر رول کرتے تھے لیکن اب ان کا خوف ٹوٹ گیا جب خوف کے بت ٹوٹ گئے ہیں تو کراچی ان کو ووٹ نہیں ڈالے گا ہاں ایک طریقہ ہے کہ دوبارہ سے بندوقیں اٹھاہی جاہیں دوبارہ سے بم چلائے جائیں دوبارہ سے بارود کا ڈھیر کراچی کو بنایا جائے دوبارہ سے کراچی میں قتل و غارت گری کی جائے دوبارہ سے کراچی کے اندر جو ہے وہ بوری بند لاشیں ملیں دوبارہ سے کراچی کے اندر بھتے کی پرچیاں موصول ہوں دوبارہ سے کراچی کے اندر جو ہے وہ دھمکیاں دی جائیں خوفزدہ کیا جائے ہراساں کیا جائے تو پھر ہو سکتا ہے کہ دوبارہ ایم کیو ایم کے لیے جگہ بن جائے ادر وایز ویسے تو جگہ بنتی دکھائی نہیں دے رہی  ایک نارمل علاقائی پولیٹیکل پارٹی کے طور پہ تو ایم کیو ایم ہو سکتی ہے لیکن نیشنل لیول کی ایسی پارٹی جو بہت بڑا کوئی ڈینٹ ڈالے یا بہت بڑی کوئی کامیابی حاصل کرے وہ دکھائی نہیں دے رہا اور اگر وہ دکھائی دے رہا ہوتا کہ یہ تگڑی اور بڑی پارٹی ہے تو یہ سارے دھڑے اکٹھے ہو کر پندرہ تاریخ کو الیکشن لڑتے لیکن یہ تو الیکشن سے بھاگ رہے ہیں یہ تو کہہ رہے ہیں کہ ہم شاہراہ فیصل کے اوپر کوئی دھرنا ورنا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کراچی کی ایک سڑک کے اوپر دھرنا دینے سے ایم کیو ایم کچھ نہیں کر سکتی ایک دور تھا ایم کیو ایم ایک ٹیلی فون کال سے پورا کا پورا کراچی بند کر دیا کرتی تھی اور کراچی کے انتخابات ان کی مرضی اور منشا کے بغیر نہیں ہو سکتے تھے لیکن اب وہ دور نہیں ہے اب یہ صرف ایک سڑک بند کرنا چاہیں گے اس لیے کہ ہر جگہ سے تھوڑے تھوڑے تھوڑے تھوڑے کارکن لے کر آئیں گے کوئی مصطفی کمال لائے گا کوئی انیس قائم خانی لے کر آئیں گے کوئی جو ہے وہ کارکن اکٹھے کریں گے فاروق ستار کچھ کارکن خالد مقبول صدیقی یا کوئی اور تو اس طرح تھوڑے تھوڑے کارکن اکٹھے کریں گے اور کر کے وہاں پہ دس بارہ ہزار بندہ اکٹھا کر کے یہ بیٹھا دیں گے یہ بھی میں آپ کو زیادہ بتا رہا ہوں تو ایم کیو ایم کی اب وہ ورتھ نہیں ہے وہ بات نہیں ہے ادھر علی زیدی جو ہے وہ دندنا رہے ہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کراؤ الیکشن میں ان کو بتاتا ہوں جماعت اسلامی نے بازو چڑھائے ہوئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کراؤ کراچی میں الیکشن ہم ان کو بتاتے ہیں ہاں پیپلز پارٹی الیکشن کے اندر اتری ہے کیونکہ پیپلز پارٹی نے بندوبست بڑا زبردست کیا ہے اور بہت ساری نشستوں کے اوپر وہ کوشش کریں گے کہ دھاندلی کے ساتھ الیکشن جیت جائیں انہوں نے نظام کو بڑا کیپچر کیا ہوا ہے کراچی کے جو سندھ کے جو ممبر ہیں الیکشن کمیشن کے وہ باقاعدہ ایک سرکاری نوکری بھی الگ سے کرتے رہے ہیں ڈبل تنخواہ لیتے رہے ہیں اور ان کے بارے میں بہت ساری مبینہ طور پہ باتیں بڑی مقبول ہیں عمران خان صاحب ان کے بارے میں کہہ بھی چکے ہیں تو وہ اس نمبر کے ہوتے ہوئے زرداری صاحب کو زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن کیا وہ اتنا بڑا دھاندلا کر سکیں گے اتنا بڑا جھڑلو پھیر سکیں گے پندرہ تاریخ کو کہ کراچی میں پیپلز پارٹی اپنا مییہر بنا لے یہ تو فی الحال دکھائی نہیں دیتا ہاں ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی یا تو اپنا مییہر بنا لے گی یا پھر جماعت اسلامی کسی اور کے ساتھ مل کر ایک دو تین جماعتوں کے ساتھ مل کر اپنا مییہر بنا سکتی ہے یا پھر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا اتحاد بھی ہو سکتا ہے کراچی میں اس سارے مافیا کے خلاف جو بنتا  چلا جا رہا  ہے بہر حال اب آپ کو بتاتے ہے کہ ہوا کیا تھا یہ جو گزشتہ رات جس طریقے سے اعتماد کا ووٹ پرویز الہی صاحب نے لیا اس کے اندر کی کہانی کیا ہے میں آپ کو بتاتا ہوں اور بڑی انٹرسٹنگ ہے یہ کہانی یعنی میں تو آج ایک دو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان صاحب کے بھائی پاؤں میں گولی لگی ہے دماغ میں نہیں لگی اور دماغ ان کا اتنا ہی تیز کام کر رہا ہے تو کسی کو یہ لگتا تھا کہ ان کو زخمی کرنے کے بعد گھر بٹھا کے وہ اپنی من مانی کرے گا تو عمران خان صاحب گھر بیٹھ کے ان کو زیادہ سوچنے کا اور پلان کرنے کا ایسا لگتا ہے کہ موقع مل رہا ہے اور انہوں نے موقع دیکھ کر چوکا مارا ہے کیسے پہلے ذرا خبر لے لیں کہ گورنر پنجاب نے وزیر اعلی کو ڈی نوٹیفاہی کرنے کا حکم اپنا واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کی تصدیق بھی کر دی رانا ثناء اللہ روتے رہے باقی سارے عطا تارڑ وغیرہ سارے روتے پیرتے رہے ان کی خواتین بھی باقی سب عظمی بخاری وغیرہ کہ جی غلط ہو گیا گنتی غلط ہو گئی حمزہ شہباز نے بھی کھپ ڈالی ہوئی تھی ادھر گورنر نے کہا نہیں جی ہو گیا جی اعتماد کا ووٹ بھی ہو گیا تصدیق کر دیتے ہیں اور جناب ہم ڈی نوٹیفاہی کرنے کا حکم بھی ہم  واپس لے لیتے ہیں تو پھر عدالت نے یہ معاملہ جو ہے وہ نمٹا دیا آج صبح عدالت کے بارے میں بڑے دعوے کر رہے تھے میں یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا عدالت صبح ایسے کرے گی وہ کرے گی کچھ بھی نہیں ہوا کچھ بھی نہیں ہوا رانا ثناءاللہ صاحب نے کہا تھا کہ میں پنجاب کی حکومت واپس لیے بغیر اسلام آباد نہیں جاؤں گا لیکن اب وہ پنجاب کی حکومت واپس لیے بغیر عطا تارڑ کو لے کر واپس اسلام آباد چلے گئے ہیں عطا تارڑ نے کہا تھا کہ میں سیاست چھوڑ دوں گا ہمیشہ کے لیے ہمیشہ کے لیے نہیں تو دو مہینے کی چھٹی لے لیں میرے خیال میں تھوڑا ریسٹ کرنا بھی بہتر ہوتا ہے بہت زیادہ اعصابی دباؤ لے لیا انہوں نے اور اپنے اعصاب پہ سوار کر دیا کہ میں نے پنجاب کا وزیراعلی اپنی مرضی کا بنانا ہے تو ایسا تو نہیں ہو سکتا نا پبلک کی مرضی سے بنے گا اب ہوا کیا ان کے ساتھ میں ذرا آپ کو یہ تھوڑا سا بتا دیتا ہوں۔ ہوا یہ کہ پاکستان کے کچھ بڑے طاقتور لوگوں نے ٹیلی فون گھمائے تھے اور وہ ٹیلی فون کیے گئے تھے پاکستان تحریک انصاف کے چند لوگوں کو اور ان لوگوں کو باقاعدہ سختی کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ آپ نے ووٹ نہیں ڈالنا پرویز الہی کو اچھا اب وہ کیونکہ لوگ آپ کو پتہ ہے سیاستدان نارملی کمزور لوگ ہوتے ہیں انہوں نے جا کر عمران خان صاحب کو بتایا تو عمران خان صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ کو کال آ گئی ہے آپ دیکھیے اور عمران خان صاحب نے جنہوں نے کال کی تھی ان کو یہ یقین ہونے دیا کہ یہ لوگ عمران خان کے حق میں ووٹ نہیں ڈالیں گے پرویز الہی کو ذرا اس کو پھر ٹیکینیکلی سمجھ لیں کہ عمران خان صاحب نے جو لوگ ٹیلی فون کر رہے تھے ان کے لوگوں کو ان کو اپنے لوگوں کے ذریعے سے یہ یقین دلوا دیا تھا کہ یہ لوگ ووٹ نہیں ڈالیں گے پرویز الہی کو اعتماد کا تو انہیں بڑا کانفیڈینس آیا کیونکہ ہمیشہ ان کی بات مانی جاتی ہے بڑے طاقتور لوگ ہیں تو انہوں نے آگاہ کر دیا اسلام آباد میں وہاں سے بات پتہ چلی رانا ثناء اللہ صاحب کو انہوں نے گزشتہ مہینے ایک بریفینگ دی شہباز شریف کو کہ جنوری میں پنجاب کی حکومت بدل جائے گی اور وہاں پہ پی ایم ایل این کی حکومت آ جائے گی وزیراعلی اب چوز کر لیں کس کو بنانا ہے حمزہ شہباز کو واپس بلانے کی جو ہے وہ فوری طور پہ تجویز دی گئی کہ اب وزیر اعلی پنجاب جو ہے وہ مسلم لیگ نون کا بن جائے گا آنے والے وقت میں یہ بریفینگ دی گئی شہباز شریف صاحب کو اور یہ بتایا گیا کہ بہت زبردست ٹیلی فون چلے گئے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے چند لوگ جو ہیں وہ پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ نہیں ڈالیں گے دوسری جانب مسلم لیگ ق کے کچھ لوگوں نے یقین دلا دیا ایک جگہ پہ کہ اگر پی ٹی آئی کے لوگ نہ آئے اور پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ نہ ملا تو ہم پی ٹی آئی کی مخالفت میں اپنا پارلیمانی لیڈر بدل لیں گے یعنی ہم اس طرح کا کریں گے کہ ہم ایک مخالفت پیدا کر دیں گے جی ہم نے پی ٹی آئی کے ساتھ اب نہیں چلنا پی ٹی آئی نے ہمیں دھوکا دیا ہے ہم نے پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں چلنا پی ٹی آئی نے ہمیں دھوکہ دیا ہے چوہدری شجاعت حسین ٹھیک کہہ رہے تھے یہ واقعی دھوکہ دیں گے ہم ان کے ساتھ نہیں چل سکتے اس طرح کی فضا ہم بنا دیں گے اس سے تھوڑا سا آسرا ہو گیا پی ایم ایل این کو کہ ق لیگ کے دس بندے بھی اسی طرح ہم اپنی طرف موڑ سکتے ہیں اگر وہاں پہ پارلیمانی لیڈر کسی طرح ہم تبدیل کروا دیں تو اس سے انہوں نے ایک اسیسمینٹ کی کچھ بندوں کو انہوں نے اعتماد میں لیا اور انہیں لگا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے بندے اعتماد کا ووٹ پرویز الہی کو دلانے میں ناکام ہو گئے تو اس صورت میں ہوگا یہ کہ ق لیگ کے جو بندے ہیں وہ بھی ہمیں مل جائیں گے اور پھر ہم حمزہ شہباز کو وزیر اعلی پنجاب بنا دیں گے یہ تھا جی ٹوٹل گیم اور یہ عمران خان صاحب کو پتہ تھا کہ ان کے  بندے ان کے ساتھ ہیں لیکن انہوں نے مخالفین کو اس بات کا یقین ہونے دیا کہ میرے بندے میرے ساتھ نہیں ہیں آپ کے ساتھ ہیں اور پھر بڑے خفیہ طریقے سے چند بندوں کی موجودگی میں عمران خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ بندے  سارے اکھٹے کرو اسمبلی کے اندر جب آپ کی تعداد پوری ہو جائے تو اس وقت اعتماد کا ووٹ لے لو بندے اکٹھے ہونا شروع ہوئے لیکن ایک سو چھیاسیواں نمبر بہت مشکل تھا ہوا یہ کہ پانچ بندے ایسے ہیں جنہوں نے دھوکہ دیا خرم لغاری میں نے آپ کو پہلے بتایا تھا مومنہ وحید یہ بھی آپ کو پہلے بتایا تھا دوست مزاری کا بھی آپ کو پتہ تھا اور مسعود چوہدری مسعود یہ بھی آپ کو میں نے بتایا تھا چار بندے پانچواں بندہ جو ہے وہ ایک نکلا فیصل چیمہ یہ جو پانچویں کا مجھے اڈیا نہیں تھا پہلی جگہ یہ پانچ بندے جو ہیں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو دھوکہ دیا پانچ بندے جب تحریک انصاف کے نکلتے ہیں تو ان کے پاس رہ جاتے ہیں ون سیونٹی فائیو دس ق لیگ کے ساتھ ملتے ہیں تو ہو جاتے ہیں ون ایٹی فائیو ایک بندہ کم تھا میاں اسلم اقبال صاحب نے اور کچھ اور لوگوں نے بڑی محنت کی اور وہ توڑ کر لے آئے بلال وڑائچ کو جو ایک سو چھیاسیواں ووٹ بنا پاکستان تحریک انصاف کا تو اس طریقے سے تحریک انصاف نے اپنے ایک سو چھیاسی پورے کر دیے اور ایک سو چھیاسی جب پورے ہو گئے جب وہاں پہ ایک سو اسی سے زیادہ ممبر آئے تو رانا ثناء اللہ وغیرہ کی سٹی گم ہو گئی کل اسمبلی کے اندر عطا تارڑ پریشان ہو گئے کہ یہ بندے ان کے زیادہ کیسے ہو گئے ہیں اور ان کو فکر لاحق ہوئی کہ جن بندوں کے ہمیں نام بتائے گئے تھے اور وہ نام ہمیں بڑے تگڑے طریقے سے بتائے گئے تھے کہ بھئی یہ بندے جو ہیں یہ اب ووٹ نہیں ڈالیں گے اعتماد کا پرویز الہی کو وہ بندے تو ادھر پھر رہے ہیں اسمبلی کے اندر تو ان شکلوں کو دیکھ کر ان کے منہ پہ بارہ بج گئے انہوں نے فوری طور پہ رابطے شروع کیے کہ جناب وہ تو بندے اتھے پہنچ گئے نیں اب کیا کیا جا سکتا ہے آپ کمیٹمینٹ لے لیں سپیکر سے کہ آج کے دن میں وہ اعتماد کے ووٹ کے اوپر ووٹنگ نہیں کروائیں گے تو آج رات کو گیم پڑ جائے گی بندے جو ہیں وہ مینیج ہو جائیں گے بندے پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ پرویز الہی کو نہیں دیں گے تو ان کو مینیج کر لیا جائے گا۔ تو یہاں پہ سبطین خان کا میں نے تھوڑے دن پہلے آپ کو کہا تھا کہ اس آدمی کو بالکل انڈر اسٹیمیٹ نہیں کرنا میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ ٹکر کا آدمی ہے اور یہ بتائے گا کہ یہ کیا کر سکتا ہے؟ سب اس کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہے تھے تو سبطین خان صاحب نے کہا جی ٹھیک ہے میں آپ سے پراامیس کرتا ہوں کہ آج کی تاریخ میں میں اعتماد کا ووٹ نہیں لینے دوں گا پرویز الہی کو اور نہیں ہوگا آج ووٹنگ نہیں ہوگی اور پھر انہوں نے اجلاس ملتوی کیا اور بارہ بج کے پانچ منٹ پہ اگلا دن شروع ہو گیا اور دوبارہ انہوں نے اجلاس بلوا لیا اس اجلاس میں اسپیکر صاحب نے ووٹنگ کروا دی اور ایک سو چھیاسی ممبر پورے ہو گئے تو یہ جو پاکستان کے مستقبل کا پاکستان کے بڑے فیصلے کرنے والے جو لوگ ہیں جو طاقتور لوگ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں یہ لوگ ہمیشہ سے اپنی مرضی سے حکومتیں بناتے اور گراتے رہے ہیں یہ پہلی مرتبہ رات کو پیسے کی چمک کو بھی شکست ہوئی اور پہلی مرتبہ رات کو جو طاقتور حلقے ہیں جو بہت طاقتور ہیں پاکستان کی وہ اسٹیبلشمنٹ ہے یا اسٹیبلشمنٹ کا وہ حصہ ہے جو چیزوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے ان کو بھی ایک عبرت ناک شکست کل رات کو ہوئی ہے اور یہ شکست ایک ٹانگ سے زخمی عمران خان نے اپنے گھر بیٹھ کر دیے تو یہ تبدیلی کا اشارہ ہے کہ پاکستان کے لوگ بدل رہے ہیں لوگوں کا خوف ٹوٹ رہا ہے لوگ اب لالچ عزت کی کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ جناب عزت ہی چلی جائے گی کیونکہ لوگوں نے لوٹوں کی حالت دیکھی ہے وہ بیچارے اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے اپنے ڈھیروں پہ نہیں جا سکتے. لوگوں نے آوازیں کستے ہیں جہاں سے گزرتے ہیں لوگ ان کو لوٹا لوٹا کہتے ہیں تو ایسی صورت حال میں پارلیمنٹرینز ڈر گئے پھر انہوں نے شریف خاندان کی حالت لندن میں دیکھی ہوئی ہے کبھی لندن جیسے ملک میں بھی اگر آپ بھاگ جائیں اور وہاں جا کر آپ چھپ کر رہنا چاہیں تو لوگ وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہ بھی آپ کو چور چور کے لوٹے لوٹے کے نعرے لگاتے ہیں تو ایسی صورتحال میں لوٹا بننے سے لوگ ڈر گئے اور عمران خان صاحب نے اس صورت حال کو بڑے اچھے طریقے سے ہینڈل کیا اور پنجاب میں پرویزالہی کو اعتماد کا ووٹ دلوا دیا ناظرین جس وقت میں یہ ویڈیو ریکارڈ کر رہا ہوں اس وقت سات بجے ہیں شام کے اور ایک میٹنگ ہو رہی ہے پرویز الہی صاحب کی اور عمران خان صاحب کی میری اطلاع کے مطابق اسمبلیاں توڑنے کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے اور بہت جلد آپ یہ خبر سننے جا رہے ہیں اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا اپنے اس چینل کا بھی۔ اللہ حافظ۔