بڑی خبر - وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا 


کپتان نے بڑا سرپرائز دے دیا، پی ڈی ایم فرار

اپریل کا بدلہ، اعتماد کا ووٹ اور اسمبلیوں کی تحلیل

بڑے بول گلے پڑگئے: سچ کی فتح


سینئر صحافی عمران ریاض خان کا تجزیہ


 میں عمران خان ہوں  یہ ویڈیو میں رات کے آدھی رات کے بعد ریکارڈ کر رہا ہوں جیسے ایک ویڈیو میں نے اپریل میں آدھی رات کے بعد ریکارڈ کی تھی کیونکہ اس دن بھی اسمبلی کے اندر جو کارروائی ہے قومی اسمبلی میں وہ بہت لیٹ نائٹ ہوئی تھی اس دن عمران خان صاحب کو نکالا گیا تھا اور اس دن عدالتیں آدھی رات کو کھولی گئی تھی قیدیوں والی وینز پہنچائی گئی تھی اسلام آباد کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا اور بہت ساری جھوٹی اور غلط خبریں چلائی گئی تھی نو ماہ پرانی بات ہے یہ اور نو ماہ کے بعد دوبارہ رات کے اس پہر میں دوبارہ اسی طرح ایک ویڈیو ریکارڈ کر رہا ہوں  اور اب اس سے ملتی جلتی ایک اور چیز ہوئی ہے. صوبائی اسمبلی ہے جس شخص کو ہرانے کی کوشش کی گئی  اس شخص نے جیت کر دکھایا ہے اور اس بیچ میں بار بار جیت کر دکھایا ہے پہلے آپ خبر دیکھ لیں خبر یہ ہے کہ پرویز الہی صاحب کو اعتماد کا ووٹ لینا تھا عدالت نے کل یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ چوبیس گھنٹے ان کے پاس ایک سو چھیاسی ارکان کی حمایت موجود ہونی چاہیے اور اس کے علاوہ پرویز الہی صاحب کو اعتماد کا ووٹ تو لینا ہی تھا کیونکہ گورنر صاحب نے کہا ہوا تھا اس معاملے کو چیلنج بھی کیا ہوا تھا پرویز الہی صاحب نے عدالت میں تو اس کو ایک پینترے کے طور پہ استعمال کیا ہے عمران خان صاحب نے اور پرویز الہی صاحب نے اور یہی سمجھتی رہی پی ڈی ایم کی جماعتیں کہ شاید یہ اعتماد کا ووٹ لینا ہی نہیں چاہتے اور انہوں نے جن لوگوں سے رابطہ کیا وہ لوگ ایک خاص وجہ سے ان کے ساتھ رابطے میں تھے یعنی پی ڈی ایم کو لگ رہا تھا کہ وہ لوگوں کو توڑ رہے ہیں دوسری جانب پی ٹی آئی اپنے بندوں کو محفوظ کر رہی تھی اور وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ ایک سو چھیاسی نمبر پورے ہونے چاہییں. پی ڈی ایم نے کچھ لوگوں کو توڑا ہے اور سہولت کاروں نے مدد کی ہے لیکن اس کے باوجود رات گئے سپیکر نے پہلے ایک اجلاس ختم کیا اور دوسرا اجلاس بارہ بج کر پانچ منٹ پر بلوا لیا. وہ جو ایک آئینی اور قانونی معاملہ تھا وہ بھی حل ہو گیا اور اس کے ایجنڈے کے اندر اعتماد کا ووٹ رکھ دیا تحریک جو ہے اس کو پڑھ کے سنایا میاں اسلم اقبال صاحب نے اور اس کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی کو لینا تھا اعتماد کا ووٹ وہاں پہ اپوزیشن نے جھگڑا شروع کر دیا جب انہوں نے دیکھا ان کے بندے پورے ہو گئے ہیں آخری جو ایک بندہ کم تھا حافظ عمار یاسر چکوال سے ایم پی اے ہیں جب وہ پہنچے تو ان کو اڈیا ہو گیا کہ ان کے تو بندے پورے ہو گئے ہیں اور بندے پورے ہوتے ہی رولا ڈال دیا شور مچا دیا کہ ووٹنگ نہیں ہونے دیں گے کرسیاں تک اٹھا اٹھا کے پھینکیں لیکن جب انہیں نظر آیا کہ پاکستان تحریک انصاف پرویز الہی اور سپیکر اس بات پہ تل گئے ہیں کہ اب وہ اعتماد کا ووٹ لے کر رہیں گے کیونکہ اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے سپیکر کو کہا ہے گورنر پنجاب نے  وزیراعلی پنجاب کو کہا ہے اور سپیکر نے اس کو لینا ہے اب معاملہ یہ ہے کہ چند منٹوں پہلے تک جو پوری کی پوری اپوزیشن یا پی ڈی ایم کی جماعتیں یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ پرویز الہی اعتماد کا ووٹ لو ایک سو چھیاسی بندے پورے کر کے دکھاؤ ان کے ٹویٹر کے اسکرین شارٹ پڑے ہوئے ہیں. ان کے ایم پی ایز کے خواتین کے حضرات کے یہ سارے بار بار مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ جو بھی ہو جائے اعتماد کا ووٹ لو اور اعتماد کا ووٹ لے کر دکھاؤ. رانا ثناء اللہ نے دعوے کیے تھے دو اسی لیے کہتے ہیں بڑے بول زیادہ نہیں بولنے چاہیے رانا ثناء اللہ نے دو دعوے کیے تھے ایک دعوے میں انہوں نے کہا تھا کہ میں حکومت پنجاب سے واپس لیے بغیر اسلام آباد نہیں جاؤں گا اب رانا صاحب کو کل اسلام آباد جانا پڑے گا واپس یہی منہ لے کر کیونکہ حکومت تو وہ نہیں لے سکے پنجاب کی چھین نہیں سکے فی الحال تو ایسے ہی دکھائی دے رہا ہے اس وقت جب میں یہ وی لاگ کر رہا ہوں. دوسرا رانا ثناء اللہ صاحب نے کہا تھا کہ ایک سو پچہتر بندے بھی پرویز الہی کے پورے نہیں ہو سکتے اور رانا ثناءاللہ صاحب کو یہ یقین دلایا گیا تھا آپ باقی آپ لوگ سمجھدار ہیں کہ کیسے رانا صاحب کو یہ یقین دلایا گیا تھا تو ایک سو پچہتر بندے بھی پورے نہیں ہونے تھے ادھر جب انہوں نے آنکھوں آنکھوں میں گن لی ہے کہ یہ تو ایک سو پچاسی کے قریب بندے ہیں اور ایک بندہ ان کا رہ گیا ہے اور وہ بھی راستے میں ہے  پہنچ جائے گا تو یہ تو اپنے ووٹ پورے کر لیں گے اور اعتماد کا ووٹ لے لیں گے تو عطا اللہ تارڑ صاحب نے کہا تھا کہ اگر چوہدری پرویز الہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا اب ایک نے اسلام آباد نہیں جانا اور دوسرے نے سیاست چھوڑ دینی ہے دیکھتے ہیں یہ دونوں کیا کرتے ہیں یہ کل پتہ چل جائے گا بہرحال جب اپوزیشن نہیں روک پائی تو پھر اپوزیشن نے باہیکاٹ کیا اور دروازے توڑ کے نکلے ہیں وہاں سے پنجاب اسمبلی سے اور جب باہر نکلیں تو باہر عوام کھڑی تھی انہوں نے نعرے لگائے ان کو دیکھ کر اور وہاں سے چپ کر کے یہ نکل گئے لیکن ایک بات ہے کہ پی ایم ایل این نے اپنی روایت نہیں چھوڑی نواز شریف صاحب کی ان کے خاندان کی ایک پرانی روایت ہے جس کو وہ ہمیشہ برقرار رکھتے ہیں کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے. نواز شریف صاحب نے ہمیشہ میدان چھوڑنے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے مثال کے طور پہ میاں نواز شریف صاحب جب پرویز مشرف صاحب کے ساتھ مقابلہ کرنے کا وقت تھا سب سے پہلے میدان چھوڑ کر بھاگے اور پاکستان سے باہر پہنچ گئے اور کہا کہ میں تو یہاں پہ اللہ تعالی کے گھر پہنچ گیا ہوں اور پھر کہا کہ ہم نے کوئی ڈیل نہیں کی بعد میں ان کی ڈیل کا کاغذ لے کر عربی شہزادے نے خود دکھا دیا کہ جناب یہ ڈیل کی تھی ہم اس کے گرنٹر ہیں یہ دس سال تک واپس نہیں آ سکتے پاکستان میں تو میدان چھوڑنے کا ماسٹر ہے یہ پورا خاندان ابھی جب جنرل باجوہ کے ساتھ لڑائی ہوئی نواز شریف صاحب کی تو میدان میں ڈٹے رہنے کا جب وقت تھا بیماری کا بہانہ بنایا جیل سے نکلے اور میدان چھوڑ کے پوری پارٹی کو اور اپنی بیٹی کو بھی یہاں پہ چھوڑا اور بھائی کو بھی یہاں چھوڑا اور نکل کے پاکستان سے باہر چلے گئے  تو میدان چھوڑنے میں میاں نواز شریف صاحب کا پاکستان میں کوئی دوسرا سیاستدان مقابلہ نہیں کر سکتا تو میاں نواز شریف صاحب کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے پی ایم ایل این نے میدان چھوڑا اور پنجاب اسمبلی سے باہر نکل گئے اس کے بعد وہاں پہ ووٹنگ ہوئی ایک سو چھیاسی ممبرز پورے کئے اور پرویز الہی صاحب جو ہیں وہ وزیراعلی پنجاب اب برقرار رہیں گے آئینی اور قانونی طور پہ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آج کے دن میں عدالت اس کے اوپر کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ معاملہ تو عدالت کے پاس جائے گا عدالت میں ہے صبح نو بجے اس کی پیشی ہے پتہ چل جائے گا صبح کے وقت کہ اس میں ہوتا کیا ہے اس اجلاس میں باقاعدہ آفر کیا گیا سپیکر کی جانب سے اور پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اور وزراء کی جانب سے کہ ملک احمد خان اور رانا مشہود یہ دو بندے آپ اپواینٹ کر دیں جو ہمارے ایک سو چھیاسی اراکین کو گن لیں ان کو پہچان لیں اور ان کو گن لیں تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ ہمارے بندے پورے ہیں لیکن اس سے بھی وہ فرار ہو گئے مجھے اچھی طرح وہ تصویر یاد آ رہی تھی علی محمد خان اکیلا بیٹھا تھا قومی اسمبلی میں اور بڑے حوصلے کے ساتھ اس نے وہ پوری کاروائی دیکھی تھی اور بعد میں اپنی بات کی تھی پی ڈی ایم کی جماعتوں کے پاس ایک بھی ایسا ایم پی اے نہیں نکلا جو وہاں پہ بیٹھتا بیٹھ کے حوصلے کے ساتھ ساری کاروائی کو سنتا اور وہاں پہ اپنا موقف دیتا کوئی نہیں تھا سارے وہاں سے نکل کر بھاگ گئے کیونکہ میاں نواز شریف صاحب کی جو روایت ہے اس کو زندہ رکھنے کے لیے بھاگ جانا بہت ضروری ہے اب یہ ہوا کیوں کہ پرویز الہی صاحب اعتماد کا ووٹ لینے پر بھی راضی ہو گئے اور ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں وہ جلدی الیکشن کی طرف جانے پہ بھی راضی ہو جائیں اس کے پیچھے چند وجوہات ہیں وجوہات یہ ہیں کہ چوہدری خاندان کے مسئلے تو ہیں عدالتوں کے اندر بھی ہیں کرپشن کے معاملات بھی ان کے اوپر کیسز بنے ہوئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے کیسز نہ چلیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہی اتنی طاقتور ہے جو ان چیزوں کو کنٹرول کرتی ہے گزشتہ چند دنوں سے چوہدری پرویز الہی اور مونس الہی کا بازو مروڑا جا رہا ہے اداروں کے ذریعے سے کیسز کے ذریعے سے اور جن طاقتور حلقوں سے یہ رابطے کرتے ہیں انہوں نے وہاں پہ رابطے کیے. اور انہیں کہا جی آپ کے ہوتے ہوئے ہم آپ کی بات مانتے ہیں دیکھیں ہم نے پنجاب اسمبلی بھی ابھی تک تحلیل نہیں کی جب ہم آپ کی ہر بات مانتے ہیں تو پھر ہمارے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہو رہی ہے ہمارے کیسز کیوں کھولے جا رہے ہیں ہمارا بازو کیوں مروڑا جا رہا ہے تو وہاں سے کوئی مدد آئی نہیں مدد نہ آنے کے بعد لگاتار ان کو نوٹسز آ رہے تھے ان کو بلوایا جا رہا تھا پھر جب مونس الہی کے ایک بہت قریبی دوست کو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مبینہ طور پہ وہ مونس الہی کا فرنٹ مین بھی ہے. فرحان جب اس کو اغوا کر لیا گیا اور ایف آئی اے میں جب انہوں نے چیک کروایا تو پتہ چلا کہ ایف آئی اے نے نہیں اٹھایا اور کسی ایجنسی نے اٹھایا ہے تو جب انہوں نے یہ سارا کچھ چیک کیا تو ان کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور ایک بھروسہ جو اسٹیبلشمنٹ کے اوپر تھا چودھری فیملی کو وہ کمزور ہو گیا ہے کافی مایوسی ہوئی انہیں کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے کے اوپر بہت ساری چیزیں کی ہیں اور وہ یہ اس لیے کرتے تھے کہ ان کو ووٹ چاہیے پاکستان تحریک انصاف کا اور سپورٹ چاہیے اسٹیبلشمنٹ کی لیکن جب اسٹیبلشمنٹ نے مایوس کیا تو پرویز الہی صاحب نے عمران خان صاحب والی سوچ کو اپنانے کا فیصلہ کیا کچھ حد تک پھر وہ عمران خان صاحب کے قریب آئے تو عمران خان صاحب نے کہا دیکھا میں تو آپ کو کہہ رہا تھا کہ یہ استعمال کرتے ہیں میں تو آپ کو کہہ رہا تھا کہ یہ دھوکہ دیتے ہیں میں تو آپ کو کہہ رہا تھا کہ یہ آپ کو پھنسائیں گے جب آپ ان کی بات مانیں گے تب یہ آپ کے ساتھ ٹھیک چلیں گے لیکن جس وقت آپ ان کی بات نہیں مانیں گے یہ اپنا کوئی اور مطالبہ سامنے رکھیں گے یہ آپ کا بازو پکڑ کے مروڑ دیں گے تو یہ آپ کے ساتھ یہی کریں گے ہمیشہ تو آپ ڈٹ جائیں تو پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اعتماد کا ووٹ لیا جائے عمران خان صاحب نے کنوینس کیا اور اس بیچ میں عمران خان صاحب لگاتار اپنے ایم پی ایز کو ملتے رہے اپنے ایم پی ایز سے ملاقاتیں کر کر کے عمران خان صاحب نے ان کے اندر کا ڈر بھی دور کیا ان کو سمجھایا کہ مقابلہ کرنا پڑے گا اگلے الیکشن میں فتح ہمیں ہو گی اور یہ جو سیاستدان ہوتے ہیں نا یہ بڑے سمجھدار ہوتے ہیں پبلک کی نبض کو یہ سمجھتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو نہیں سمجھ آتی پبلک کی پلس کی اسٹیبلشمنٹ ہو کوئی ادارہ ہو ان کو سمجھ نہیں آتی کہ پبلک کے دماغ میں کیا چل رہا ہے لیکن سیاست دان کو فورا پتہ چل جاتا ہے پبلک کی نبض کو وہ بڑی اچھی طرح سمجھتا ہے تو انہیں اڈیا تھا کہ عمران خان صاحب کے رہنے میں فتح ملے گی تو ان کو اس طرح چھوڑ دینے میں تو کوئی تیار ہو نہیں رہا تھا اب مومنہ وحید نے اپنا پولیٹیکل کیریئر ختم کر دیا ہے اگر کوئی چار پیسے ملے بھی ہیں تو کوئی فائدہ نہیں یا اگر کسی سفارش کے اوپر انہوں نے ووٹ نہیں ڈالا پرویز الہی کو تو کوئی فائدہ نہیں خرم لغاری اس نے اپنے ساتھ بڑا غلط کر لیا ہے جو دوست مزاری ہے آپ رجحان سے غالبا ان کو الیکشن لڑنا ہے لیکن ان کے بھی حالات اب کوئی اچھے نہیں ہوں گے رجحان مزاری سے تو اس طرح جن لوگوں نے دھوکا دیا ہے رحیم یار خان سے ایک ایم پی اے ان لوگوں کا اپنا اب اتنا اچھا مستقبل سیاست میں نظر نہیں آرہا لیکن ان لوگوں نے غلطی کی ہے لیکن ان سب کو اڈیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے ایک سو چھیاسی بندے پورے نہیں کروا سکے گی اب پورے ہونے کی صورت میں اب پچھتائے کیا جب چڑیاں چک گئی کھیت  لیکن ایک چیز ثابت ہو گئی ہے اس سارے ایپیسوڈ کے بیچ میں کہ عمران خان نے ٹکر بڑی خوب دی ہے یعنی وہ اکیلا نظام سے لڑا ہے مافیا سے لڑا ہے میڈیا سے لڑا ہے بدترین پروپیگنڈا کا اس نے مقابلہ کیا ہے ستر سال سے ملک پر قابض اسٹیبلشمنٹ سے وہ بھڑ گیا ہے اس پر بدترین حملے ہوئے کردار پر خاندان پر اس کی نجی زندگی پر حملے کیے گئے حتی  کہ اس کے اوپر جان لیوا حملہ تک کیا گیا. کسی بھی وزیراعظم پر اتنے مقدمے درج نہیں ہوئے جتنے مقدمے عمران خان پر چند مہینوں کے اندر درج ہو گئے ہیں تنہا آدمی کے اوپر مگر ان ساری چیزوں نے اسے کمزور کرنے اور اس کے عزم کو توڑنے کی بجائے حیرت انگیز طور پر اس میں نئی توانائی بھر دی ہر ایک حملے کے بعد وہ زیادہ شدت کے ساتھ اٹھا اور مصیبتوں کے سامنے ڈٹ گیا اس نے پہلی بار اپنے ملک میں لوگوں کو ایک ایسے لشکر میں بدل دیا جو طاقتور حلقوں سے ٹکر لیتا ہے پاکستان کی مڈل کلاس پاکستان کے پسے ہوئے لوگ پسے ہوئے طبقات ان کو شعور دیا اور ان کو پاکستان کے مسائل کی جو اصل جڑ ہے نا فساد کی اس سے ان کا تعارف کروایا اس نے اکیلے بار بار ایک درجن سے زیادہ جماعتوں کو ان کے طاقتور سہولت کاروں کے سمیت شکست دی ہے ہر ضمنی الیکشن میں ستر سے اسی فیصد کی کامیابی اس تنہا شخص نے حاصل کی ہے اس نے ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں تمام سرویز یعنی جتنے بھی سرویز آ رہے ہیں وہ تمام اس کی مقبولیت کی گواہی دے رہے ہیں اس کے لوگوں سے بار بار کہا گیا کہ وہ اکیلا ہی تو ہے اور اس پر ریڈ لائن لگ چکی ہے مگر جواب میں اس کے لوگوں نے کہا کہ وہ اب خود ہماری ریڈ لائن ہے. گزشتہ رات وہ پھر جیتا ہے بالکل ویسے ہی جیتا ہے جیسے اس کے مخالفوں نے اسے مل کر نو ماہ پہلے گرایا تھا  اب اس نے اس کا ایک چھوٹا سا بدلہ لیا ہے لیکن یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی یہ جو طاقتور حلقے ہیں ان کے بہت بڑے بڑے مفادات ہیں ان کے بہت بڑے بڑے انٹرسٹ ہیں جن کو آپ کارپوریٹ انٹرسٹ کہتے ہیں بہت بڑے بڑے کاروبار ہیں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی ایسا شخص اس ملک میں اقتدار میں آئے جو ان کی مرضی کے خلاف اس ملک کے اقتدار کا مالک بنے اور وہ سوال پوچھے اور جواب مانگے یہ ہمیشہ ایسی کٹھ پتلی کو لانا چاہیں گے جیسی کٹھ پتلیاں پاکستان میں گزشتہ ستر سالوں سے ہم آتی اور جاتی ہوئی دیکھ رہے ہیں یعنی پاکستان میں میں نے انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کا ایک ڈیٹا آپ کے ساتھ شیئر کیا تھا پچھلے وی لاگ میں کہ انڈیا میں آئے چودہ وزیراعظم اور پاکستان میں آئے لگ بھگ اکتیس وزیراعظم ان انیس سو سینتالیس سے لے کر اب تک کی یہ کہانی ہے یعنی اتنا بڑا فرق ہے آپ اندازہ کیجیے پچھتر سالوں میں ان کے پاس آئے چودہ وزیراعظم اور ہمارے پاس آئے اکتیس وزیراعظم انڈیا کے پاس آئے تیس آرمی چیف اور ہمارے پاس آئے سترہ آرمی چیف ہمارے یہاں پہ آرمی چیف یہ فیصلے کرتے رہے کہ کس کو وزیراعظم ہونا ہے اور کس کو نہیں ہونا ہے ابھی تھوڑے دن پہلے حامد میر نے کہا کہ شہباز شریف کا انٹرویو چند جرنیلوں نے لیا تھا جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ شامل تھے یعنی وہ فیصلہ کر رہے تھے تھوڑا عرصہ پہلے جاوید چوہدری نے لکھا کہ عمران خان کو ملنے گئے تھے اور اس وقت جرنیلوں نے واپسی پہ یہ کہا ایک دوسرے کو کہ اس شخص کو ہم وزیراعظم بنانے جا رہے ہیں یعنی یہاں جرنیل فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کا وزیراعظم کون ہوگا اور انڈیا میں وزیراعظم فیصلہ کرتا ہے  کہ جرنیل کون ہوگا اور وہ کب تک رہے گا یہ ایک بنیادی فرق ہے اس فرق کو اگر آپ سمجھیں تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گی کہ کوئی ملک ترقی کر کے آگے کیسے بڑھ سکتا ہے اور کوئی ملک پیچھے کیسے رہ سکتا ہے عمران خان میں اور باقی پولیٹیکل پارٹیز کے اندر ایک فرق میں آپ کو بتا دوں اور اسے یاد رکھیے گا عمران خان جب بھی باہر سے کبھی پیسہ مانگ کر لائے تو اس کے بعد وہ ہر انٹرویو میں اور ہر تقریر میں یہ کہتے رہے کہ مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے پیسے مانگتے ہوئے لیکن یہ پی ڈی ایم کی جماعتیں جب باہر گئیں پیسہ مانگنے کے لیے تو انہوں نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں اور ایک دوسرے کو کہا کہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ ہم نے دنیا سے بھیک اکٹھی کر لی یہ فرق ہے لیڈر کے ویژن میں اور ایسے ویژن سے ایک ہجوم جو ہے وہ قوم میں تبدیل ہو سکتا ہے اگر اس بات کی آج بھی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تو ہم مستحق ہیں اسی اسٹیبلشمنٹ کے اسی  سٹیٹس کو کے اور اسی غلامانہ سوچ کے جس کے ساتھ ہم نے اتنی ساری دہائیاں گزار دی ہیں اب دیکھتے ہیں کہ عدلیہ آج کیا فیصلہ کرتی ہے اور اسمبلیاں توڑنے کی طرف کس طرح آگے بڑھتے ہیں کیونکہ عمران خان صاحب کی بڑی خواہش یہ ہے کہ جلدی انتخابات ہوں اب گیم تو عمران خان کے ہاتھ میں ہے لیکن عدالتی حکم کی بات اب تک کے لیے نہیں اپنا خیال رکھیے گا اپنے اس چینل کا بھی۔ اللہ حافظ ۔