سب سے بڑی خبر، الیکشن جلد ہونے والے ہیں، کیا پلان ہے؟ الیکشن کب ہوں گے؟ 

   تفصیلات اور مزید خبروں کے لیے 

  عمران ریاض خان کا تجزیہ پڑھیں


کچھ چیزیں آپ کے ساتھ شیئر کرنی ہیں اہم خبریں ہیں ایک تو جو وفد مانگنے کے لیے گیا تھا جنیوا میں اور پیسے اکٹھے کرنے کے لیے گیا تھا وہ پچاس لوگوں پہ تقریبا مشتمل تھا مختلف اطلاعات کے مطابق اور یہ لوگ جو ہیں وہ بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ گئے پیسے مانگنے کے لیے برینڈڈ سوٹ انہوں نے سب نے پہنے مہنگے ترین کپڑے جوتے بیگز اور ایسا لگ رہا تھا ایک فیشن شو چل رہا ہے اور ان لوگوں نے وہاں پہ جو قیام کیا ہے وہ یورپ کی مہنگی ترین چین ہے ہوٹلز کی جہاں پہ انہوں نے قیام کیا ہے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ان کے ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے اب چلیں فرض کریں یہ پیسے اول تو یہ ہوگا نہیں یہ تو سرکار کا ہی خرچہ ہوتا ہے سارا لیکن فرض کریں اگر آپ کسی ملک میں جائیں اور ان سے یہ کہنے جائیں کہ جناب میرے ملک کے لوگ بھوکے ہیں مجھے کچھ پیسے دے دو اور آپ وہاں پہ بہت زیادہ پیسے خرچ کر رہے ہوں تو وہ آپ کو سب سے پہلے یہ کہیں گے کہ آپ جو عیاشی یہاں پہ کر رہے ہیں یہ پیسے لے جا کر آپ اپنے ملک کے لوگوں کے اوپر خرچ کریں تو اس طریقے سے انہوں نے وہاں پہ جو امیج ان کا بنا ہے وہ اب آپ کے سامنے ہے مہنگے ترین جگہوں پے ٹھہرے مہنگے ترین انتظامات کیے اور اس کے بعد جو ہے وہ دنیا سے پیسے مانگے یہ جو پیسے ہیں یہ پروجیکٹس کی صورت میں ایڈ ملی ہے میں نے اب اس کے بارے میں پتہ کیا ہے زیادہ تر قرض ہے کچھ ایڈ ہے لیکن یہ پراجیکٹس ہوں گے گورنمنٹ آف پاکستان پروجیکٹ ان کو دکھائے گی بتائے گی وہ اپروول دیں گے وہ ممالک جب وہ اپروول دیں گے تو اس کے بعد پھر بیڈنگ ہو گی اور پھر قانونی تقاضے پورے ہو کر وہ خود اس کی پیمینٹ کیا کریں گے اور اپنے طریقے سے ان پراجیکٹس کے اوپر کام کروائیں گے تو اس حکومت میں تو اتنی قابلیت ایسے دکھائی نہیں دیتی اس سے پہلے بھی یہ صرف کیک پیکس اکٹھی کرنے میں ہی مشہور ہیں تو اس قسم کے پراجیکٹس کو یہ کیسے آگے چلائیں گے یہ ایک بڑی عجیب چیز ہے لیکن دیکھتے ہیں تین چار سال لگیں گے یہ پیسہ آنے میں اور یہ پراجیکٹس آنے میں زیادہ پیسہ جو ہے وہ ادھار ہے وہاں تھوڑا پیسہ جو ہے وہ وہ پیسہ ہے جو ہمیں  ملا ہے امداد کے طور پہ لیکن  جو لوگ امداد لینے گئے تھے ان کی اپنی حرکتیں اب آپ اندازہ کر لیں دیکھ کے کہ وہ لوگ وہاں پہ خود عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں یہاں میرے پاس خبر ہے کہ قیمت بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہے گیس کی اور اور اوگرا نے گیس کی قیمت میں چوہتر فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے یہ جو گیس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے یہ آج سے نہیں ہوا آپ یہ مت سوچیے کہ آئندہ گیس تھوڑی کم استعمال کر لیں گے تھوڑے پیسے بچا لیں گے نہیں جو گیس آپ استعمال کر چکے ہیں گزشتہ مہینوں میں مبینہ طور پہ اس کے اوپر بھی آپ کو بل آئے گا اور یہ چوہتر فیصد اضافی آپ کو ادا کرنے پڑیں گے سوئی نادرن سوئی سدرن دونوں نے گیس مہنگی کر دی ہے چوہتر اشاریہ بیالیس فیصد تک یہ گیس مہنگی ہوئی ہے اور اس کے اوپر جو فیصلہ کیا گیا مثال کے طور پہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ گیس کی جو موجودہ اوسطا قیمت ہے وہ پانچ سو پینتالیس روپے ہے تقریبا یہ اگر ہم اس کو ناپیں نا اس کا ایک جیسے ہم کلو کہتے ہیں یا کسی چیز کو بجلی کو ہم کلو واٹ میں چلے جاتے ہیں تو اس طرح یہاں پہ جو ہے اس کا ہوتا ہے ایم ایم بی ٹی یو یہ اس کی اکائی ہے تو یہ جو ہے اس کی قیمت ہے پانچ سو پینتالیس روپے اب یہ اضافے کے بعد ہو جائے گی نو سو باون روپے یعنی جس کا بل پہلے آتا تھا ایک ہزار روپے اس کا بل اب آئے گا لگ بھگ دو ہزار روپے کے قریب یعنی دگنی کے قریب قیمت ہو گئی ہے اور سوئی سدرن کے لیے گیس کی قیمت اور زیادہ بڑھ گئی ہے یعنی پہلے جو ہے وہ فی ایم ایم بی ٹی یو جو ہے وہ چھ سو بانوے روپے کا تھا اور اب وہ بڑھ کے گیارہ سو اکسٹھ روپے اکانوے پیسے کا ہو گیا ہے اور یہ منظوری دے دی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے چالیس روز میں اگر منظوری نہ دی تو اوگرا کے فیصلے پر از خود عمل درآمد ہو جائے گا اور یہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہے اسحاق ڈار ٹیکے پے ٹیکہ لگا رہے ہیں اس سے پہلے مفتاح اسماعیل لگا رہے تھے پہلے پاکستان کی اکنامی کو ڈبو دو اور ڈبونے کے بعد پاکستان کے لوگوں کے اوپر اس اکنامی کا بوجھ ڈال دو یہی اس حکومت نے کیا ہے اب آجائیں ان خبروں کی طرف جو پاکستان بھر میں چل رہی ہیں کہ ہوگا کیا ایک خبر میں آپ کو دیتا ہوں جس طرح مولانا فضل الرحمان صاحب بہت بری طرح پھنس گئے اور ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے وجہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے ایک ایسی تاریخ میں اسمبلی کو تحلیل کیا ہے پنجاب کی اور خیبر پختونخوا کی بھی وہ اسی طرح تحلیل کر رہے ہیں کہ فضل الرحمن صاحب بہت بری طرح اس میں پھنس جائیں گے عمران خان صاحب نے بارہ جنوری کو اسمبلی تحلیل کی ہے پنجاب کی خیبر پختونخواہ کی ایک دو روز میں ہو جائے گی تو آپ فرض کر لیں تیرہ چودہ تک ہو جائے گی اور ان دونوں کے اندر اگر اکٹھا الیکشن کروایا جائے یا پورے پاکستان میں الیکشن کروایا جائے تو فضل الرحمن صاحب بہت بری طرح اس لیے پھنس جاتے ہیں کہ اگر عمران خان صاحب پچھلے مہینے اسمبلیاں تحلیل کر دیتے یا ان کو کرنے دی جاتی تو  الیکشن رمضان المبارک سے پہلے ہو جاتا لیکن اب جو ہے وہ الیکشن رمضان المبارک سے پہلے نہیں ہوگا یہ اب الیکشن ہوگا رمضان المبارک کے دوران کیونکہ دیکھیے جب اسمبلی تحلیل ہوتی ہے نا تو نوے دن کے اندر اندر الیکشن ہوتا ہے آئینی طور پہ ناینٹی ڈیز سے آگے آئینی طور پہ نہیں جا سکتے بہت ہی کوئی ایمرجنسی  یا حالات خراب ہوں تو چند دن آگے لے جایا جا سکتا ہے الیکشن کو جیسے بینظیر بھٹو کی شہادت ہو گئی تھی یا کوئی ایسی چیز لیکن ویسے الیکشن آگے نہیں جا سکتا اور الیکشن نوے دن کے اندر اندر ہو گا اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں اور اگر اپنی مدت پوری کر دیں تو دو مہینے میں الیکشن ہو جائے گا تو اب الیکشن تو نوے دن کے اندر ہو گا نوے دن کے اندر جب الیکشن ہوگا تو یا تو یہ الیکشن کروائیں رمضان المبارک سے پہلے وہ اب دکھائی نہیں دے رہا لیکن الیکشن کے زیادہ امکانات رمضان المبارک کے دوران ہوں گے اور رمضان المبارک کے دوران مولانا فضل الرحمن صاحب کی پارٹی کے تمام مدارس جو ہیں وہ مصروف ہوتے ہیں انہیں بہت سارے جو ہیں وہ کارکن اور لوگ میسر نہیں ہوتے اور مولانا فضل الرحمن صاحب ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ الیکشن جو ہے وہ رمضان المبارک کے اندر یا کوئی اس طرح کی ایکٹیویٹی نہ آئے کیونکہ بہت سارے علماء جو ہیں وہ شیخ رشید صاحب کی زبانی یہ ہے کہ پورے سال کا راشن انہوں نے اس مہینے میں اکٹھا کرنا ہوتا ہے بقول شیخ رشید احمد صاحب کے وہ ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں اور ان کا بڑا تجربہ ہے مولویوں کو علماء کو لے کر تو انہوں نے کہا پورے مہینے کا انہوں نے راشن اکٹھا کرنا ہوتا ہے تو رمضان میں تو یہ الیکشن سوٹ نہیں کرے گا مولانا فضل الرحمن کو اب رمضان المبارک کا یہ لوگ بہانہ لگائیں گے کہ رمضان کا تقدس ہے جناب الیکشن نہ کروایا جائے تو میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ رمضان المبارک میں کوئی بھی کام اس طرح کا منع نہیں ہے یہ الیکشن ایک شرعی کام ہے اگر یہ غیر شرعی حرکت ہے تو پھر فضل الرحمن صاحب کو کبھی بھی الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ یہ ایک شرعی کام ہے اور شریعت میں اس کی ممانعت اس کی بہرحال نہیں ہے اگر یہ غیر شرعی ہوتا تو فضل الرحمن صاحب کبھی بھی یہ الیکشن نہ لڑتے نہ ان کے والد گرامی پولیٹیکل پارٹی بناتے نہ وہ اپنی اولاد کو کہتے کہ وہ سیاست کے اندر شامل ہوں تو بری طرح پھنس گئے ہیں میں آپ کو کچھ بتا دیتا ہوں کہ غزوات بھی ہوئے ہیں رمضان المبارک میں مسلمانوں کی بڑی اہم جنگیں بھی ہوئی ہیں رمضان المبارک میں غزوہ بدر سترہ رمضان المبارک کو ہوا تھا اور اس کے علاوہ یروشلم کو جب فتح کیا صلاح الدین ایوبی نے تو وہ بھی رمضان المبارک میں کیا اور بہت بڑے بڑے واقعات ہیں جو رمضان المبارک میں ہوئے ہیں تو کوئی غزوہ یا جنگ تک رمضان المبارک میں ہو سکتی ہے اور منع نہیں ہے تو الیکشن تو ایک بہت چھوٹی چیز ہے لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ذرا لوگوں کا ایمان اور تقوی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور لوگ اپنے فیصلے کرتے ہوئے اپنے رب کو اپنے دماغ میں زیادہ رکھتے ہیں تو دین سے قربت کی وجہ سے رمضان المبارک میں اور شیطان کی بندش کی وجہ سے لوگ بڑے اچھے طریقے سے ووٹ ڈالیں گے اور ووٹ ڈالتے وقت وہ اپنے ایمان کے  اس میں تقاضے پہ دیکھیں گے کہ کس کو ووٹ ڈالنا چاہیے اور کس کو نہیں ڈالنا چاہیے تو یہ ان لوگوں کے لیے بری خبر ہے جو فراڈ کرتے ہیں جو بے ایمانی کرتے ہیں پاکستان کی قوم کے ساتھ بہرحال نوے دن آپ کے پورے ہو رہے ہیں مثال کے طور پہ عمران خان صاحب نے بارہ جنوری کو اسمبلی یہاں پہ تحلیل کی ہے وہاں چودہ کو یا پندرہ کو ہو جائے گی تو یہ جو الیکشن ہوگا یہ میگزیمم پانچ اپریل سے لے کر پندرہ اپریل کے دوران ہو سکتا ہے اور رمضان المبارک کا جو آغاز ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے بیس یا بائیس یا تئیس مارچ کو رمضان المبارک شروع ہو رہا ہے اور بیس سے اکیس اپریل تک رمضان المبارک پاکستان میں رہے گا اور اس طریقے سے اگر آپ دیکھیں تو پھر پاکستان کے اندر رمضان المبارک ہوگا جب انتخابات ہو رہے ہوں گے تو فضل الرحمن صاحب کے لیے یہ ایک اچھی خبر نہیں ہے اور پی ڈی ایم نے اپنے ہی سربراہ کو پھنسا دیا ہے بار بار ڈیلینگ ٹیکٹیکس استعمال کر کر کے نواز شریف صاحب نے کوئی تین مرتبہ رابطہ کیا رانا ثناء اللہ صاحب سے جب یہ اعتماد کے ووٹ کے اوپر کارروائی ہو رہی تھی عمران خان صاحب نے اور ان کے ساتھیوں نے اس سارے معاملے کو اتنا خفیہ رکھا اور پورا یقین دلایا یا یقین کرنے دیا ٹیلی فون کرنے والوں کو اسٹیبلشمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ کے تمام مہروں کو بھکاری دانشوروں کو اور اس کے ساتھ ساتھ جو پی ڈی ایم کی جماعتیں ہیں ان کو پورا یقین کرنے دیا کہ ہمارے پلے کچھ نہیں ہے ہمیں اعتماد کا ووٹ نہیں لے پائیں گے  جب انہیں پورا یقین ہو گیا تو وہ اونچی اونچی چلانے لگے اعتماد کا ووٹ لو, اعتماد کا ووٹ لو, سارے چیلنج  کر رہے تھے اور پھر باقاعدہ  نو بندے جو ہیں وہ انہوں نے مقرر کر رکھے تھے جن میں سے سب کی بیس بیس لوگوں کے اوپر ڈیوٹی تھی کہ آپ نے ان لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے اور پھر ٹیلی فون کر کے لوگوں کو بلوایا گیا اور ان کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ہم اعتماد کا ووٹ لینے والے ہیں تو جب وہ سارے لوگ پہنچ گئے اور ان کو اکٹھا کیا گیا تو ون ایٹی پلس  پہلے جھٹکے میں وہاں پہ پہنچ گئے اور پھر جب باقی لوگ آئے تو رانا ثناءاللہ صاحب کی اور عطا تارڑ کی سٹی گم ہو گئی وہ پھر وہاں سے نکل گئے اور اس کے بعد پھر بائیکاٹ ہوا جب سارے اکٹھے ہوئے ایک بندہ کم تھا وہ بھی پہنچ گیا دھند میں  اور ایک سو چھیاسی کا فیگر دیکھ کر پرویز الہی صاحب وزیر اعلی پنجاب برقرار رہے اور اس کے بعد انہوں نے اسمبلی تحلیل کر دی عمران خان صاحب کے کہنے کے اوپر۔ اب اسمبلی کی تحلیل کے بعد آگے کیا ہوگا سب سے پہلے تو حمزہ شہباز صاحب کو آج ہی خط لکھا جائے گا بلکہ لکھ دیا گیا ہوگا کہ جناب آپ اور وزیراعلی پنجاب ابھی پرویز الہی ہیں جب تک کہ نگران وزیر اعلی نہیں آ جاتا صوبے کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا یہ آئینی تقاضہ ہے نگران وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے یا نگران حکومت کے انتخاب کے لیے طریقہ کار ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دو نام دیں گے پرویز الہی صاحب اور دو نام دیں گے حمزہ شہباز صاحب تین دنوں کے اندر اندر ان دونوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ کون ہوگا وزیراعلی پنجاب  دکھائی تو نہیں دے رہا کہ دونوں ایک دوسرے کی بات مانیں گے اور اگر تین دنوں میں فیصلہ نہیں ہوگا تو پھر کمیٹی بن جائے گی یعنی دونوں طرف سے نمائندگان آجائیں گے کچھ گورنمنٹ سے آجائیں گے برابر کی سطح پہ کچھ اپوزیشن سے آجائیں گے اور وہ بیٹھ کر ڈسکشن  کریں گے اور ان کے پاس بھی تین دن ہوں گے وہ تین دن کے اندر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو اس کے بعد ساتویں اور آٹھویں روز یعنی اگلے دو دنوں میں چیف الیکشن کمشنر جو ہیں وہ پنجاب کی وزارت اعلی کا نگران وزارت اعلی کا اور سٹ اپ کا جو ہے وہ اعلان کر دیں گے اچھا یہ جو چیف الیکشن کمشنر ہوں گے یہ اسٹیبلیشمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اس لیے کہ عمران خان صاحب نے خود بتایا تھا کہ یہ تحفہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے دیا تھا ہم اسلام کے اوپر اتفاق نہیں کر رہے تھے اور میں نے کہا تھا کہ یہ نون لیگ کا آدمی ہے تو مجھے اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہا تھا کہ نہیں نہیں یہ بندہ ٹھیک ہے یہ نیوٹرل چلے گا تو عمران خان صاحب کو لگا کہ یہ نیوٹرل چلے گا لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ ہر مرتبہ یہ یا تو اسٹیبلشمنٹ سے لائن لیتا ہے یا پی ڈی ایم سے لاین لیتا ہے بہرحال جو بھی آئے گا وہ اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر ہو گا پنجاب کا وزیر اعلی اگر تو یہ چھ دن کے اندر فیصلہ نہ کر پائے تو فیصلہ چلا جائے گا اسٹیبلشمنٹ کی کورٹ میں لیکن کچھ بھی ہو جائے وزیر اعلی پنجاب دوبارہ اگر نجم سیٹھی کو بھی بنا دیں یا وزیراعلی پنجاب نگران جو ہے وہ کسی کو بھی بنا دیں میں آپ کوئی نام لینا نہیں چاہتا لیکن بہت سارے ایسے لوگ ہیں تو وہ بھی اب شکست کو روک نہیں سکتا پی ایم ایل این کی پنجاب میں اور خیبر پختونخواہ میں بھی تمام جماعتوں کی شکست کو وہ روک نہیں سکتا کیونکہ حالات بہت موافق ہیں عمران خان صاحب کے لیے فی الحال دوسری جانب جو نواز شریف صاحب ہیں ان کی فرسٹریشن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ان کا جو پلان تھا وہ یہ تھا کہ ایک بڑی جو تبدیلی ہوئی ہے اسٹیبلشمنٹ میں اس کے بعد ایک وقت آئے گا کہ عمران خان صاحب کو نااہل کر دیا جائے گا اور اس کے بعد ان کو مختلف مقدمات میں گرفتار کر لیا جائے گا اسی بیچ میں نواز شریف صاحب پاکستان واپس پہنچیں گے لیکن ان کے پاکستان واپس آنے سے پہلے ق لیگ کو تیار کر کے شامل کروا دیا جائے گا نون لیگ کے ساتھ پی ڈی ایم کے اندر اور پھر حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب بن جائیں گے پنجاب میں نواز شریف جیسے ہی آئیں گے تو ان کو رائیونڈ بھیجا جائے گا بجائے اس کے کہ ان کو گرفتار کیا جائے عدالت سے ان کو ریلیف دلوایا جائے گا اور پھر وہ الیکشن کمپین شروع کریں گے اور اس مرتبہ انتخابات میں عمران خان صاحب جیل میں ہوں گے اور نواز شریف صاحب باہر سے جو ہے وہ الیکشن کمپین کر رہے ہوں گے اس قسم کے خواب انہوں نے دیکھے ہوئے تھے پلان پورا یہ تھا اب اس پلان کے اندر پنجاب کی اسمبلیوں کی تاریخ تو تھی ہی نہیں نہ خیبر پختونخواہ کی اسمبلی کی تحلیل تھی اور اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ درخواستیں جو ہیں وہ عدالتوں کے اندر موووں کرنی تھیں اس کے لیے بھی وقت چاہیے تھا اور بہت ساری چیزیں کی جانی تھی لیکن وہ سارا کچھ ہو نہیں سکا کیونکہ عمران خان صاحب نے اعتماد کا ووٹ لے لیا اور اس اعتماد کے ووٹ کے بارے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پورا یقین تھا کہ بندے ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے لیکن اس مرتبہ جو دباؤ لوگوں کا محسوس کیا ایم پی ایز نے وہ اسٹیبلشمنٹ کا نہیں تھا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کو کمیٹمینٹ دینے کے باوجود جا کر پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ ڈال دیا ہے پرویز الہی خود حیران ہیں کہ لوگوں نے اتنی جرات کیسے اکٹھی کی ہے یہ وہ جرات ہے جو عمران خان صاحب نے لوگوں کو بانٹی ہے بہرحال اب نگران وزیراعلی بنیں گے دونوں صوبوں کے اندر  ڈپینڈ کرتا ہے کہ وفاقی حکومت پورے پاکستان میں انتخابات کرواتی ہے یا نہیں کرواتی ویسے نواز شریف صاحب کو یہ مشورہ دے دیا گیا ہے کہ الیکشن کروا دیا جائے ہر جگہ سے یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں سندھ کے اندر پیپلز پارٹی بھی آج صبح الیکشن سے بھاگ گئی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے یعنی سندھ کے اندر پندرہ جنوری کو بلدیاتی انتخابات اب ہوں گے ایم کیو ایم نے اس کے لیے کوئی ہنگامی رابطے شروع کر دیے ہیں لیکن ان کے پلے کچھ نہیں ہے ایم کیو ایم کو کچھ نہیں ملنا اس مرتبہ ایم کیو ایم کے پاس  کراچی کا جو ایک میہر شپ ہے وہ اس کے خواب دیکھ سکتے ہیں سارے دھڑے اکٹھے ہو کر لیکن ان کو ملیں گے نہیں پاکستان تحریک انصاف نے جو دو اراکین ہیں ان کو شوکاز نوٹس بھیج دیا ہے باقیوں کے خلاف بھی کاروائی کر رہے ہیں اور یہ کاروائی کی جانی چاہیے قانون کے مطابق ناظرین کچھ اور چیزیں ہیں اس کو آپ کے ساتھ شیئر کریں گے اگلے وی لاگ میں اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا اپنے اس چینل کا بھی. اللہ حافظ۔