،عمران خان نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے
پنجاب حکومت کا مستقبل؟
عمران ریاض خان کا تجزیہ
جے آئ ٹی والی خبر میں نے آپ کو دی تھی اور میں نے آپ کو پہلے بھی
بتایا تھا کہ چار بندوں کے اوپر شدید ترین دباؤ پڑا ہے اور مجھے جس انداز میں یہ
خبر ملی تھی اس انداز میں تو میں بیان بھی نہیں کر سکتا جو کچھ ہوا ہے لیکن اس کے
نتائج آ رہے ہیں نتائج آپ کو میں ضرور بتا دوں گا لیکن ہوا کیوں آپ لوگ زیادہ بہتر
سمجھتے ہیں آپ کو زیادہ اچھی طرح پتا ہے کہ یہ سارا کچھ کیوں ہو رہا ہے کیسے ہو
رہا ہے کون کر رہا ہے اور کس طریقے سے کر رہا ہے آپ اچھی طرح جانتے ہیں کیوں کہ آپ
سب اسی ملک میں رہتے ہیں اور ستر سال سے اس ملک میں جو کھیل اور تماشا ہو رہا ہے
وہ سارے کھیل تماشے کو آپ اچھی طرح ویٹنیس کرتے رہے ہیں تو بہت دفعہ غلطی ہوتی ہے
بہت دفعہ انسان کچھ اور سوچ رہا ہوتا ہے ہم نے بڑی غلط امیدیں بہت غلط جگہوں سے
باندھی ہوئی تھیں لیکن اللہ تعالی کا شکر ہے کہ حقائق کھل کر سامنے آنا شروع ہو
گئے ہیں۔ عمران خان صاحب پر وزیرآباد میں حملے کی تحقیقات کرنے والی جو مشترکہ
تحقیقاتی ٹیم ہے میں نے آپ سے کہا تھا دو ان پہ دباؤ پڑ رہے ہیں ایک انہیں کہا جا
رہا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ شوٹر ایک تھا تین نہیں تھے ایک سے زیادہ شوٹر نہیں تھا یہ
آپ کو کہنا ہے اور دوسرا ان پہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ مریم اورنگزیب کو اور
جاوید لطیف کو اور پی ایم ایل این کی قیادت کو جو انسٹیگیٹ کر رہے تھے اس طرح کے
معاملات کو ان کو اس ساری تحقیقات سے باہر رکھو ان کو اس کا حصہ نہ بناؤ یہ دو
دباؤ ڈالے جا رہے تھے دونوں کام کر گئے ہیں اور جے آئی ٹی کے سربراہ غلام محمود
ڈوگر کے ساتھ جناب عالی چار لوگوں نے اختلاف کر لیا ہے مبینہ طور پہ ڈان اخبار کی
نیوز کے مطابق اور یہ کہا جا رہا ہے کہ کوئی قابل اعتماد ثبوت نہیں ہے شوٹر ایک ہی
تھا ایک سے زائد حملہ آور کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو اب یہ چیزیں سامنے آ رہی ہیں
میں نے آپ کو وقت سے پہلے بتایا تھا. اس کا مطلب ہے دباؤ تو تھا پھر مجھے کیسے پتہ
چلتا؟ یعنی میں تو ان چاروں
میں سے کبھی کسی کو زندگی میں ملا ہی نہیں نہ ان چاروں میں سے کبھی میرے ساتھ کسی
کی کوئی بات ہوئی نہ ان چاروں نے مجھے کبھی کچھ بتایا تو مجھے کیسے ایڈیا ہوا وہ
ایڈیا ایسے ہی ہوا کہ ان کے اوپر دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور دباؤ ڈال کر ان سے
چیزیں تبدیل کروائی جا رہی تھی اور جب چیزیں تبدیل ہو گئیں تو وہ اب آپ کے سامنے آ
چکی ہیں میں ایک ٹویٹ آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں بڑی مزیدار چیز ہے میرے ایک دوست ہیں
راجہ بشارت صاحب انہوں نے اس کو لکھا ہے بشارت راجہ صاحب اور ویسے بھی یہ حقیقت ہے
انہوں نے بڑی پیاری بات لکھی، انہوں نے کہا چودہ اگست انیس سو سینتالیس سے لے کر
گیارہ جنوری دو ہزار تئیس تک یعنی آج کے دن تک ہندوستان میں چودہ وزیراعظم بنے ہیں
اور پاکستان میں اکتیس وزیراعظم بنے ہیں ہندوستان میں تیس آرمی چیف جو ہے یعنی چیف
آف دی آرمی سٹاف تیس ہیں ان کا تقرر ہوا ہے اور پاکستان میں سترہ چیف آف آرمی سٹاف
بنے ہیں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم چیف آف دا آرمی سٹاف کا تقرر
کرتے ہیں اور جب چاہیں انہیں گھر بھیج سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں چیف آف دی آرمی
سٹاف اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون وزیراعظم ہوگا اور جب چاہے منتخب وزیراعظم
کو گھر بھیج دیں ہم نے ویسے یہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے پرویز مشرف نے نواز شریف صاحب
کو گھر بھیج دیا اس سے پہلے ضیاء الحق صاحب نے جو ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ
کیا کیا پھر ہم نے دیکھا کہ بار بار وزرائے اعظم کبھی ادھر کبھی ادھر نواز شریف
صاحب نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے اوپر الزام لگایا کہ انہوں نے مجھے گھر بھیج دیا
پھر عمران خان صاحب نے اب قمر جاوید باجوہ صاحب کے اوپر الزام لگایا کہ انہوں نے
یہ کیا سارا کچھ اور وہ اس کے پیچھے تھے تو اگر تو اگر ان باتوں کو آپ مانیں کہ جو
نکالے گئے ہیں جو وکٹم ہے وہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس ملک کے آرمی چیف نکال
دیتے ہیں تو اس ٹویٹ میں پھر تو جان ہے انڈیا کے اندر وزیراعظم جو ہے وہ کم آئے
اور آرمی چیف زیادہ آئے پاکستان میں وزیراعظم زیادہ آئے اور آرمی چیف کم آئے یہ
ایک فرق تو ہے اور یہ رہے گا۔ اور اللہ کرے کہ پاکستان اپنے ماضی سے سیکھے اور
پاکستان کے ادارے میچیور بیہو کرے۔ اور وہ جو کچھ پاکستان کے اندر ہوتا ہے گھناؤنا
کھیل وہ کھیلنے سے باز آجائے پنجاب کے اندر دوبارہ سے وہی تجربہ کیا جا رہا ہے اور
اس تجربے سے ابھی تک کوئی باز نہیں آ رہا اور تجربہ اس نہج پہ پہنچ گیا ہے کہ اب
بندے توڑنے کا سلسلہ جاری ہے بندے توڑے جا رہے ہیں پاکستان تحریک انصاف یہ کلیم کر
رہی ہے کہ ان کے تین بندے ٹوٹے ہیں یعنی ایک خاتون ہے مومنہ وحید اور ایک مسعود
مجید صاحب ہیں ایم پی اے رحیم یار خان کے مبینہ طور پہ چالیس کروڑ لے کر ترکی شفٹ
ہو گئے تھے واپس آ گئے ہیں ویسے اب یہاں پہ اس کے علاوہ ایک ایم پی اے ہیں دوست
مزاری یہ تین لوگوں کا تو پی ٹی آئی خود مان رہی ہے کہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئے ہے
اس کے علاوہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہمارے ون سیونٹی سیون بندے ہمارے کنٹرول میں
ہیں جبکہ ایک بلال وڑائچ صاحب ہمیں مل گئے تو ہمارے ون سیونٹی ایٹ ہوگئے دس ق لیگ
کے پاس ہیں تو اس طرح ٹوٹل ملا کے ون ایٹی ایٹ ہو گئے لیکن رانا ثناء اللہ صاحب یہ
دعویٰ کر رہے ہیں کہ ون ایٹی ایٹ نہیں ہے پرویز الہی کے پاس ون سیونٹی فایو بھی
نہیں ہے رانا ثناء اللہ صاحب یہ دعوی کس بنیاد پر کر رہے ہیں یعنی انہیں کیسے پتا
کہ پی ٹی آئی کے لوگ اب ووٹ نہیں ڈالیں گے پرویز الہی کو یا پرویز الہی کے لوگ اب
ووٹ نہیں ڈالیں گے پرویز الہی کو یعنی کوئی نہ کوئی تو ایسی چیز ہو رہی ہے نہ اس
ملک کے اندر وزیر داخلہ کو اگر اس بارے میں انفارمیشن ہے اور وزیر داخلہ لگاتار
یہاں لاہور کے اندر موجود ہیں پنجاب کے اندر موجود ہیں تو اس کے پیچھے کوئی تو
ریزن ہے نا رانا ثناء اللہ صاحب نے جو خود دیا اس کے بارے میں انہوں نے یہ کہا کہ
میں پنجاب حکومت واپس لے کر ہی جاؤں گا پنجاب سے یعنی پنجاب حکومت واپس لے کر ہی
اسلام آباد جاؤں گا یہ رانا ثناء اللہ صاحب نے وزیر داخلہ نے کہا ہے اور انہوں نے
کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وزیر اعلی کو بیس سے
بائیس روز ملے اور ان کو ریلیف دیا گیا لیکن عوام کو یہ ریلیف بڑا مہنگا پڑا وہ
لوگ بہت کرپشن کر رہے ہیں اور ہماری استدعا ہے کہ کیس کا جلد فیصلہ دیا جائے تاکہ
اقلیتی حکومت عوام پر مسلط نہ رہے یہ وہ جماعت کہہ رہی ہے جن کے پاس ایک سو ستاسٹھ
ممبر ہیں ٹوٹل صوبائی اسمبلی کے اندر پاکستان تحریک انصاف کے پاس جو میمبرز ہیں وہ
ہیں ون ایٹی یعنی ایک سو ستاسٹھ والی اقلیت ہے یا ون ایٹی والی اقلیت ہے اور
پاکستان تحریک انصاف کے جو ایک سو اسی ممبر ہیں ان کے مقابلے میں پی ڈی ایم کا جو
پورا اتحاد ہے آزاد ملا کر پیپلز پارٹی ملا کر راہ حق پارٹی ملا سارے ملا کر بھی جو
ان کا اتحاد ہے وہ ون سیونٹی ایٹ کا بنتا ہے تو ایک سو اٹھتر تو ان سب کے ملا کر
ہیں پی ٹی آئی پھر بھی ان سے دو سیٹیں زیادہ ہے ون ایٹی تک ہے جبکہ پرویز الہی
صاحب کے دس اپنے اور ممبر بھی ہیں تو اس طرح جو صورتحال ہے وہ رانا ثناء اللہ صاحب
کی فیور میں ایسے تو نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ کچھ جادو کر کے کچھ جو جادوگر ہیں وہ
اپنا جادو چلائیں اور جو کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ہلاتے ہیں وہ اپنی ڈوریاں ہلائیں جو
بلیک میلنگ کرتے ہیں ہو سکتا ہے وہ بلیک میلنگ کریں اور اس کے بعد پی ٹی آئی کے
اور ق لیگ کے کچھ لوگ ٹوٹ جائیں لیکن کیا اسٹیبلشمنٹ یا جو لوگ بھی اس کھیل کے
اندر شامل ہیں یا یہ پی ڈی ایم کی جماعتیں یہ چودہ بندے توڑ سکتے ہیں پاکستان
تحریک انصاف کے اور ق لیگ کے کیونکہ اٹ لیسٹ ان کو تیرہ چودہ بندے توڑنے پڑیں گے
اتنے بندے توڑیں گے تو حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلی بنیں گے ادر وایز حمزہ شہباز
پنجاب کے وزیر اعلی نہیں بن سکیں گے یہ بالکل ایک کلیئر چیز ہے فواد چوہدری صاحب
نے کلیم کیا انہوں نے کہا جی ون ایٹی ایٹ ہمارے پاس ہیں وہ تین نکال کے ون ایٹی
ایٹ انہوں نے کہا جی ہمارے پورے ہیں عمران خان صاحب نے اس پہ ایک سٹیٹمنٹ دیا ہے
عمران خان صاحب نے کہا کہ وفاقی حکومت پنجاب میں شب خون مارنے کی جو سازش کر رہی
ہے وہ ناکام ہو جائے گی اور عمران خان صاحب آج کل ایم پی ایز سے مل رہے ہیں اور
تمام ایم پی ایز کی باتیں بھی سن رہے ہیں اور وہ یہ ایس ایس بھی کر رہے ہیں کہ ان
کے جو ایم پی ایز ہیں وہ کتنے کمیٹیڈ ہیں اپنی پارٹی کے ساتھ تو اسی بنیاد کے اوپر
وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ناکام ہو جائے گی وفاقی حکومت جب کہ وفاقی حکومت بھی
یہاں پہ ایک داؤ لگانے کے چکر میں موجود ہے انہیں لگتا ہے کہ سہولت کار ان کو بہت
بڑی سہولت فراہم کر دیں گے اور اس سہولت کے نتیجے میں کچھ عدالت سے بھی معاملہ اس
طرح کا ہو جائے گا کچھ گورنر ضرور لگائیں گے کچھ وفاقی وزراء ضرور لگائیں گے اور
یہ سب کچھ وہ پاکستان میں اس وقت کر رہے ہیں وزیر داخلہ خود یہاں پہ موجود ہیں جس
وقت پاکستان میں دہشت گردی کی ایک ویو آئی ہوئی ہے جس وقت پاکستان کے اندر سیلاب
بدترین آیا ہوا ہے جس وقت بے شمار پاکستانی جو ہیں وہ موجود ہیں خیموں میں جس وقت
سندھ کے اندر جو ہے وہ چالیس لاکھ کے قریب بچے جو ہیں وہ آلودہ پانی کے پاس رہنے
پر مجبور ہیں اس وقت وہ ایک صوبے کے اندر رجیم چینج کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس
صوبے کے اندر بھی ایک ایسا وزیراعلی موجود ہے جو موقع ہونے کے باوجود اسمبلی تحلیل
نہیں کرنا چاہتا اور اقتدار کے ساتھ چمٹا رہنا چاہتا ہے اور وہ ہر ایسا ایسا کام
کرنا چاہتا ہے جس کے ساتھ اس کے اقتدار کو ٹول مل سکے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا
کا سارا جو ہے وہ اقتدار کا کھیل ہے عمران خان صاحب نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت نے
آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں پنجاب میں وفاقی حکومت کی شب خون مارنے کی
کوشش ناکام ہو گی سازش ناکام ہو گی پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اراکین اسمبلی متحد ہیں
اور وفاقی وزراء کو منہ کی کھانی پڑے گی سیاست میں کبھی انتقامی کاروائی کی اور نہ
یقین رکھتے ہیں عمران خان صاحب نے ایک اور بات کی انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو
کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے اوپر ریڈ لائن لگا دی گئی ہے یعنی ریڈ لائن لگ گئی
فارغ بس اب عمران خان صاحب نے کبھی بھی اقتدار میں نہیں آنا اس طرح کی باتیں نا یہ
جو ریڈ لائن لگانے والا جملہ ہے نا عمران خان صاحب کے لیے شاید نیا ہو گا میرے لیے
نہیں ہے یہ بتایا جاتا تھا باقاعدہ صحافیوں کو اور جتنے بھی سٹیک ہولڈرز ہیں ان سب
کو بتایا جاتا تھا کہ نواز شریف کے اوپر شہباز شریف کے اوپر یا شریف خاندان پورے کے
اوپر ریڈ لائن لگ چکی ہے بلکہ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ شریف خاندان پورے کے اوپر
ریڈ کراس لگ چکا ہے یہ اب کبھی بھی اس کے اوپر بیگ نو ان کے سامنے آ گیا ہے یہ
کبھی بھی اقتدار میں نہیں آ سکیں گے یہ کہا جاتا تھا لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ کس
طریقے سے پاکستان کے اندر رجیم چینج آپریشن ہوا اور اس آپریشن کے نتیجے میں ایک
اور وزیراعظم گھر گیا اور اس وزیراعظم کے گھر جانے کے بعد معاملہ کہاں سے کہاں
پہنچ گیا لوگوں نے ری ایکٹ کر دیا ورنہ ایسا پہلے ہوتا نہیں کہ کوئی ری ایکٹ کرے
انہوں نے کہا عمران خان صاحب نے پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے ارکان سے خطاب کرتے
ہوئے کہ اللہ کے بعد پاکستان کی وارث پاکستان کی عوام ہے ریڈ لائن صرف اللہ کی ذات
ڈال سکتی ہے جن میں یہ تکبر فرعونیت ہے ان میں کوئی عقل نہیں ہے جس نے تاریخ پڑھی
ہو کبھی ایسی احمکانہ بات نہیں کر سکتا. کسی پر بھی سرخ لکیر صرف عوام ڈال سکتی ہے
عمران خان نے کہا کہ ڈنڈے کے زور پر عوام کی اوپینین موڑنے کا فیصلہ ہوا پتا نہیں
کون سے جینئس ایسے فیصلے کرتے ہیں پچیس مئی کو جانوروں کی طرح ڈنڈے مارے گئے تیس
سال ان چوروں کی حکومت کی وجہ سے پاکستان دنیا میں پیچھے چلا گیا ہے تیس سال تک دو
خاندان لوٹ مار کرتے رہے ان دو خاندانوں کا ایک ہی کام ہے پیسہ چوری کرو اور این
آر او لو انہوں نے معیشت ٹھیک کرنے کے لیے کبھی کوئی روڈ میپ نہیں دیا سابق
وزیراعظم نے کہا کہ پی ڈی ایم اتحاد نے اقتدار میں آتے ہی اپنے گیارہ سو ارب روپے
کے کرپشن کے کیسز معاف کروا لیے آخر میں عمران خان صاحب نے کہا کہ اللہ تعالی نے
تحریک انصاف کو وہ مقبولیت دی ہے جو کسی اور جماعت کو نہیں مل سکی ہمارے جلسوں میں
عوام نے بار بار بتایا وہ کدھر کھڑی ہے ہماری حکومت ایک سازش کے تحت گرائی گئی
پہلے حکومتوں کو ہٹایا جاتا تو مٹھائیاں بانٹی جاتی تھی اس بار ایسا نہیں ہوا ریڈ
لائن ڈالنے والوں کو جب عوام باہر نکلے تو شوک لگا تھا ویسے یہ تو بات ٹھیک ہے کہ
مقبولیت پاکستان تحریک انصاف کی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے میں آپ کو ایک چیز دکھاتا
ہوں یہ ایک اور سروے آیا ہے اور پاکستان کو کون سا لیڈر موجودہ مشکل حالات سے نکال
سکتا ہے یہاں پہ مختلف لیڈرز کی اپشنز تھیں جو چار قابل ذکر اپشنز ہیں وہ میں آپ
کے سامنے رکھ دیتا ہوں ایک آصف زرداری ایک شہباز شریف ایک نواز شریف اور ایک عمران
خان اب اس میں عمران خان صاحب کے لیے جو آئی آر آئی ایس کا جو یہ ایک سروے ہوا ہے اس
میں یہ بتایا گیا کہ چھپن فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب اس وقت
پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکال سکتے ہیں انیس فیصد پاکستانی یعنی عمران خان
صاحب کے مقابلے میں صرف انیس فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف پاکستان کو
ان حالات سے, ان بحرانوں سے نکال سکتے ہیں اور اس کے بعد شہباز شریف نہیں ہیں اس
کے بعد آصف علی زرداری ہیں. دو فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری
پاکستان کو ان بحرانوں سے نکال سکتے ہیں جبکہ شہباز شریف صاحب نے یعنی جو ایک بھرم
تھا ان کا بہترین اڈمینیسٹریٹر ہے بہت زبردست کام کرتا ہے دن رات کام کرتا ہے صبح
جلدی اٹھتا ہے رات کو نیند نہیں آتی اس طرح کے بہت سارے جملے شہباز شریف کے ساتھ
جڑے ہوئے تھے ایسا پاکستان کی اکنامی کا اور پاکستان کی گورننس کا بیڑا غرق کیا
انہوں نے کہ اب زیرو پرسنٹ اس سروے کے مطابق شہباز شریف صاحب کا جو رہا سہا بھرم
تھا وہ بھی جاتا رہا زرداری صاحب قابلیت میں شہباز شریف سے آگے نکل گئے ہیں یہ
کمایا شہباز شریف صاحب نے یعنی بوٹ پالش کرنے کے نتیجے میں ملا کیا صرف این آر او
اور سیاسی نقصان وہ اپنی جگہ پہ ہے اور وہ این آر او بھی جس وقت عمران خان کی
حکومت آگئی واپسی پہ وہ ریورس ہو جائے گا کیونکہ عمران خان نے واپس آنے کے بعد کسی
اور سے بدلہ لیا نہ لیا یعنی یہ این آر او تو ریورس وہ کر دیں گے بدلہ لے نہ رہے
لیکن یہ این آر او جو ہوا ہے این آر او ٹو اس کو ریورس کرنے کی پوری کوشش کریں گے
بہرحال یہ شہباز شریف صاحب کی مقبولیت زیرو فیصد ہے نواز شریف کی انیس فیصد ہے
زرداری کی دو فیصد ہے دونوں کی ملا کے اکیس فیصد ہو جاتی ہے پیپلز پارٹی اور نون
لیگ اور عمران خان کی اکیلے کی مقبولیت چھپن فیصد ہے کہ یہ شخص پاکستان کو موجودہ
بحرانوں سے نکال سکتا ہے اچھا ناظرین خبریں اور بہت ساری ہیں لیکن میں ایک خبر اور
شامل کر دیتا ہوں وی لاگ بہت لمبا ہو جائے گا پھر میں نیکسٹ ویڈیو میں آپ کو اور
چیزیں بتاؤں گا لیکن وہ یہ ہے کہ احمد فرحان جو دوست ہے مونس الہی کا وہ واپس
بازیاب ہو گیا عدالت پہنچ گیا اس نے جا کے کہا میں اپنی فیملی کے پاس تھا میں کہیں
نہیں گیا۔ حالانکہ اس کے بھائی کا مجھے فون آیا تھا۔ ایک صاحب کے ریفرنس سے اور اس
نے مجھے یہ کہا تھا کہ میرا بھائی نہیں مل رہا ہماری مدد کریں۔ تب میں نے اپنی
ویڈیو کے اندر تذکرہ بھی کیا تھا کہ بھئی غیر قانونی طور پہ مت اٹھاؤ اٹھا کر غائب
مت کرو اگر اس نے کرپشن کی ہے جو ہو سکتا ہے اس نے کی ہو اور میرے پاس ایسی
اطلاعات موجود ہیں میرے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ یہ جو احمد فرحان نامی آدمی
اٹھایا گیا تھا یہ مبینہ طور پہ مونس الہی کا فرنٹ میں ہے اور اس سے اپنے آپ کو
ڈسٹنس رکھنا چاہیے جو بھی اس کے اوپر مذمت کر رہا ہے لیکن ہاں غلط طریقے سے اٹھانا
ٹارچر کرنا غیر قانونی طریقے پہ غائب رکھنا یہ غلط ہے یہ نہیں ہونا چاہیے اسی شخص
کو میرا مطالبہ ہے کہ دوبارہ اٹھایا جائے قانون کے مطابق اٹھایا جائے اور دوبارہ
اٹھا کے تحقیقات کی جائیں مقدمہ درج کیا جائے اور مقدمہ درج کرنے کے بعد پھر باقی
کڑیوں سے کڑی جوڑتے ہوئے اصل ملزمان تک پہنچا جائے اور دیکھا جائے کس نے کرپشن کی
ہے لیکن یہ طریقہ غلط ہے کہ آپ اٹھائیں اور اٹھا کے پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے
ایسے شخص کو استعمال کریں تو میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اس بارے میں میری دوبارہ یہی
رائے ہے کہ غیر قانونی طور پہ اٹھانا غلط ہے اور اٹھا کے چھپا کے رکھنا یہ بھی غلط
ہے ٹارچر کر کے پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کرنا یہ بھی غلط ہے لیکن دیکھیں
میری اطلاع کے مطابق یہ مونس الہی کے فرنٹ میں کے طور پہ کام کرتا ہے ان کے ساتھ
مختلف بزنسز میں انوالو ہے اگر تو وہاں کرپشن ہے تو پھر گرفتار کریں قانون کے
مطابق اور سب کو پکڑیں اور پیسہ برآمد کریں اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے
گا اپنے اس چینل کا بھی۔
اللہ حافظ ۔
0 Comments