نواز شریف پاکستان واپسی کے لیے سیاسی حالات کو نا مناسب سمجھتے ہیں
سینئر صحافی عمران ریاض خان کا تازہ ترین تجزیہ پڑھیں
میں
عمران خان ہوں خبریں جو ہیں وہ بہت انٹرسٹنگ ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن پہلے آپ کو
میں ایک خبر دیتا ہوں کہ اگر آپ مافیا کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر آپ کو نقصان نہیں
ہوتا بلکہ اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اگر آپ مافیا کے خلاف جا رہے ہیں تو آپ کا
نقصان ہوتا ہے اور یہ نقصان آپ کا جانی نقصان بھی ہو سکتا ہے میں ایک مثال آپ کے
سامنے رکھتا ہوں اور وہ مثال یہ ہے کہ سولہ ارب کا ایک کیس تھا ایف آئی اے میں
رمضان شوگر مل اچھا یہ ملازمین کا آپ کو پتا ہے کیس تھا اس میں شہباز شریف حمزہ
شہباز اور سلمان شہباز کی یہ جو ملازمین ہیں ان کے اکاؤنٹوں میں اربوں روپے آئے
تھے اور سولہ ارب روپیہ ٹوٹل تھا جس کا یہ کیس تھا اس کیس میں شہباز شریف اور حمزہ
شہباز کو ایک جج صاحب تھے جنہوں نے بری کیا تھا جج صاحب نے جب ان دونوں کو بری کیا
تو اس کے بعد پھر جج صاحب نے ریٹائر تو ایک دن ہونا تھا اب وہ جج صاحب ریٹائر ہو
گئے ہیں اور جج صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد شہباز شریف نے انہیں انفارمیشن کمشنر لگا
دیا ہے وفاق میں اور ان کو نواز دیا گیا ہے یہ وہی مقدمہ ہے جس میں ایک اور شخص
بھی تھا جس کا نام تھا ڈاکٹر رضوان مرحوم ڈاکٹر رضوان بھی اس میں تحقیقات کر رہے
تھے لیکن کیونکہ وہ مافیا کے ساتھ نہیں ملے اور ان کی موت ہوگئی اور سب جانتے ہیں
کہ ڈاکٹر رضوان جو ہیں ان کی موت کیسے ہوئی ان کی فیملی سے مل کے بھی آپ پوچھ سکتے
ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا بتاتے ہیں بہرحال یہ نوٹیفیکیشن میرے سامنے ہے مسٹر
اعجاز حسن اعوان ریٹائر ہوئے ساتھ ہی شہباز شریف صاحب نے نواز دیا اور اب ان کو
لگا دیا گیا ہے انفارمیشن ان ڈیپارٹمنٹ کے اندر کمشنر لگا دیا گیا ہے یہ ہے جی
شہباز شریف صاحب کا کارنامہ یہ میں نے کہا میں آپ کے سامنے رکھ دوں ذرا آپ دیکھ
لیں. اس کے بعد جی ایک اور چیز ہے کہ میاں نواز شریف صاحب اب واپسی کا نام نہیں لے
رہے اس کا ریزن یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے میں نے آپ کو پچھلے وی لاگ میں
بتایا تھا کہ پورا ایک پلان کیا ہوا تھا واپس آنے کے لیے ان کو یہ بتایا گیا تھا
کہ عمران خان صاحب کو نااہل کر کے گرفتار کر دیا جائے گا پنجاب میں حمزہ شہباز کی
حکومت ہو گی اور خیبر پختونخواہ کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے گا اس وقت میاں
نواز شریف صاحب واپس آئیں گے ان کو جیل کی بجائے ان کے گھر کو جیل قرار دیا جائے
گا اور وہ اپنے گھر پہنچ جائیں گے اور اس کے بعد عدالت سے ان کو ریلیف مل جائے گا
یہ سارا کا سارا ایک پورا پروسیجر تھا جو نواز شریف صاحب کو بتایا گیا تھا لیکن
ہوا کیا؟ عمران خان صاحب نے پولیٹیکس اس انداز میں کی اور ایسی بہادری کے ساتھ کی
کہ ان کے لوگ دلیر ہوتے چلے گئے بندوں نے ٹوٹنے سے انکار کر دیا اور عمران خان
صاحب اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے اور پھر انہوں نے پنجاب کی اور خیبر
پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں یہ صورت حال نواز شریف صاحب کی اسیسمینٹ میں
نہیں تھی اب عمران خان صاحب کو کیونکہ الیکشن آنے والا ہے نااہل کرنا گرفتار کرنا
یہ پاکستان کے اندر بہت بڑے مسائل پیدا کر دے گا اور ان مسائل کے دوران میاں نواز
شریف کا پاکستان واپس آنا ممکن نہیں ہے الیکشن کا ماحول بن چکا ہے میاں صاحب پہلے
بھی واپس آئے تھے اور آ کر پھنس گئے تھے ان کو جیل جانا پڑا تھا اور جیل تو وہ چلے
گئے تھے حکومت ان کو ملی نہیں تھی اور پھر وہ جیل میں سڑتے رہے اب میاں نواز شریف
صاحب یہ سوچ رہے ہیں کہ میں دوبارہ پاکستان آ جاؤ اور پاکستان آنے کے بعد میں جیل
چلا جاؤں اور جب میں جیل چلا جاؤں اوپر سے میں الیکشن بھی ہار جاؤں پہلے کی طرح
اور عمران خان زیادہ طاقت کے ساتھ آ جائے تو عمران خان تو نہیں چھوڑے گا وہ تو اب
پیسے برآمد کرے گا اور پوچھے گا کہ لاؤ کدھر ہے سامان کدھر ہے پیسے دو پراپرٹیز تو
یہ صورت حال میاں نواز شریف صاحب کے لیے بڑی خوفناک ہے میاں صاحب نے پاکستان واپس
آنے سے انکار کر دیا ہے اور میری اطلاع کے مطابق کچھ اور لوگ بھی پاکستان چھوڑنے
کی تیاری کر رہے ہیں ایک خبر اور ہے یہ تو میاں صاحب ہیں نا ان کا تو ایک پرانا
ریکارڈ ہے کہ جب تک حالات اچھے نہیں ہوتے وہ ملک میں نہیں آتے جب تک انہیں یہ تسلی
نہیں دی جاتی کہ آپ کے لیے حالات فیزیبل ہیں آپ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں ہوں
آپ محفوظ رہیں گے آپ کی پراپرٹیز محفوظ رہیں گی آپ کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوگا
آپ کو گرفتار نہیں کیا جائے گا تو پھر میاں نواز شریف صاحب اس کو بہت بہت اچھا
سمجھتے ہیں لیکن جب انہیں گرفتار کر لیا جائے یا ان کو گرفتار رہنا پڑے کیوں کہ
پچھلی مرتبہ جب میاں نواز شریف صاحب آ رہے تھے تو انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ آپ
کو گرفتار تو کیا جائے گا لیکن حالات آپ کی فیور میں بھی آ جائیں گے تو وہ اپنی
بیٹی کے ساتھ واپس آ گئے لیکن جب وہ گرفتار ہوئے تو اس کے بعد وہ الیکشن ہار گئے
الیکشن ہارنے کی وجہ سے میاں صاحب کو نقصان ہوا پارٹی کے لوگ کہہ رہے ہیں میاں
صاحب واپس آؤ جو میاں نواز شریف صاحب کے بڑے قریبی صحافی ہیں بہت سارے بھکاری
دانشور وہ منتیں کر رہے ہیں میاں صاحب واپس آؤ کیونکہ سارا کچھ ٹراہی کر کے دیکھ
لیا ہر چیز چلا کر دیکھ لی سارے ہتھیار استعمال کر لیے اب ان کا آخری ہتھیار جو ہے
نا وہ میاں نواز شریف ہیں جیسے کوئی ایٹم بم اب وہ آخری بم مارنا چاہتے ہیں لیکن
میاں نواز شریف صاحب جو ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ میں بھی پھس ہو جاؤں گا پاکستان
پہنچ کے دھماکہ میرے سے بھی نہیں ہونا لہذا میاں نواز شریف صاحب اپنے آپ کو مزید
اکسپوز کرنے سے بہتر ہے کہ وہ انتظار کریں گے بہتر وقت کا جب ان کی کمپین کھڑی ہو
گی جب ان کے لیے حالات فیزیبل ہوں گے تب وہ پاکستان آئیں گے ہاں یہ ممکن ہے کہ
مریم نواز پاکستان آ جائیں ان کے کیسز بھی ختم ہو گئے ہیں نواز شریف صاحب سے جب
بھی یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ واپس کب جائیں گے تو میاں صاحب کان لپیٹ کے نکل جاتے
ہیں آج میاں صاحب باہر نکلے سلو سلو لوگوں سے مل رہے تھے آرام آرام سے لوگوں سے مل
رہے تھے کہ اچانک ایک سوال سامنے آگیا اور وہ سوال پوچھنے والے نے کہا کہ میاں
صاحب وہ اعتماد کا ووٹ اس لیے ہوا ہے کہ آپ پاکستان نہیں تھے آپ وہاں ہوتے تو
حالات کچھ اور ہوتے سوال نارملی خوشامد والا ہی تھا لیکن میاں صاحب نے کہا کہ
پاکستان جانے کی بات کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا پاکستان کب جا رہے ہیں تو میاں
صاحب نے کہا مجھے بہت جلدی ہے فٹا فٹ گاڑی میں بیٹھ گئے اس سے پہلے میاں صاحب کو
ان کی باڈی لینگویج میں کوئی جلدی نظر نہیں آ رہی تھی تو فی الحال جن لوگوں نے
میاں صاحب سے امید لگائی ہوئی ہے امید تو خراب ہو رہی ہے دوسرا ایک اور سرپرائز جو
عمران خان صاحب نے دینا تھا بڑا سرپرائز وہ ہے اعتماد کا ووٹ لینے کا صدر پاکستان
شہباز شریف کو کہیں گے آئین کے مطابق وہ کہہ سکتے ہیں اور شہباز شریف کو اس کے بعد
اجلاس بلا کر اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا اس کو ڈیلے نہیں کر سکتے زیادہ اب معاملہ
یہ ہے کہ اگر شہباز شریف صاحب اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں تو کیا وہ اعتماد کا ووٹ لے
پائیں گے؟ پی ایم ایل این کے کچھ لوگوں نے پنجاب اور خیبر
پختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد خود سے رابطہ کیا پاکستان تحریک انصاف کے
لوگوں سے اور انہیں کہا کہ آپ اگر ہمیں ٹکٹ لے دیتے ہیں نا اگلے الیکشن کے لیے تو
ہم نون لیگ چھوڑ کے آپ کی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے اور ہم ریزائن کر دیں گے تو
پی ٹی آئی کے لوگوں نے یہ بات عمران خان صاحب تک پہنچائی اب وہ بات چیت چل رہی ہے
مسئلہ اس کے اندر ایک یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اپنے امیدوار پورے ہیں
زیادہ تر حلقوں میں ان کے کارکن موجود ہیں اور ان کے سرگرم لوگ موجود ہیں اور وہاں
پہ گنجائش نہیں ہے کہ پی ایم ایل این کے ایم این ایز کو ٹکٹ دیا جائے دوبارہ
الیکشن لڑنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا لیکن کچھ جگہوں پہ گنجائش پیدا ہوئی ہے
دو تین جگہوں پہ اب پاکستان تحریک انصاف کوئی معقول قسم کے بندے ڈھونڈ رہی ہے جن
کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جا سکے آئندہ لیکن پارٹی کے اندر بڑی سخت اس میں
مخالفت آئے گی کیونکہ عمران خان صاحب نے ماضی میں جو کمپرومائز کیا تھا دوسری
پارٹی کے لوگوں کو لیا تھا زیادہ تر انہی لوگوں نے عمران خان صاحب کو دھوکہ دیا
وقت آنے پر یہ لوگ جو ہیں وہ پارٹی بدل لیتے ہیں یعنی وہ دیکھ رہے ہیں کہ پی ایم
ایل این مقبول ہے تو ادھر چلے گئے ہیں پیپلز پارٹی مقبول ہے تو ادھر چلے گئے آج یہ
پی ٹی آئی مقبول ہے تو ادھر آ جائیں گے کل جب عمران خان صاحب کا برا وقت آئے گا تو
ان کو بھی چھوڑ جائیں گے تو اس طرح کے لوگ موجود رہتے ہیں پولیٹیکل پارٹیز کے
اندر. عمران خان صاحب کو ان کے کسی اپنے کارکن نے نہیں چھوڑا وہ لوگ جو عمران خان
صاحب کے اپنے ذاتی کارکن ہیں اور لمبے عرصے سے ان کے ساتھ موجود ہیں چاہے وہ سیاست
میں نئے ہیں چاہے وہ پرانے ہیں چاہے وہ پہلی دفعہ الیکشن لڑ کے آئے ہیں انہوں نے
عمران خان صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا تو عمران خان صاحب اپنے مستقبل کو اور آئندہ حکومت
کو محفوظ رکھنے کے لیے اور بولڈ فیصلے کرنے کے لیے ایسے لوگوں سے بچیں گے تو ہی ان
کے لیے بہتر ہو گا لیکن اعتماد کا ووٹ لینے کا ضرور کہنا چاہیے اس کے پیچھے ایک
ریزن ہے دیکھیں اگر نون لیگ کے تین چار پانچ لوگ ووٹ نہیں ڈالتے شہباز شریف کو تو
وہ وزیراعظم نہیں رہیں گے اب معاملہ پڑ جائے گا ایم کیو ایم کے اوپر ایم کیو ایم
یہ دعوے اور وعدے کر رہی ہے اپنے کارکنوں سے اور کراچی میں اور حیدرآباد میں اپنی
ساکھ بحال کرنے کے لیے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جتنی مہنگائی ہے نا یہ شہباز شریف
کی وجہ سے اور اسحاق ڈار کی وجہ سے ہے وہ ہر جگہ پہ یہ بتا رہے ہیں کہ جتنا کچھ
بھی پاکستان میں خرابی ہو رہی ہے یہ اسٹیبلیشمنٹ کی وجہ سے ہو رہی ہے اور موجودہ
حکومت کی وجہ سے ہو رہی ہے اپنے آپ کو وہ شو کرتے ہیں کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں ہیں
اور یہ جو استعفے انہوں نے اکٹھے کر لیے ہیں سات کے سات لوگوں کی خالد مقبول صدیقی
نے یہ بھی ایک پریشر ٹیکٹیکس ہے ایک دباؤ ڈالنے کا طریقہ کار ہے کہ جناب ہم دباؤ
اتنا بڑھا دیں گے اور ہم لوگوں کو یہ کہیں گے کہ ہم تو ان کے ساتھ تھے ہی نہیں ہم
نے تو اپنے استعفے ہاتھوں میں رکھے ہوئے تھے یہ استعفے اگر جمع بھی کروا دیں گے نا
جا کر اور یہ کہہ بھی دیں گے کہ جناب ہم استعفی دے رہے ہیں یا یہ کہہ دیں گے کہ ہم
اس حکومت کا حصہ نہیں بنتے ہم اپوزیشن کے بینچوں پر جا کر بیٹھ رہے ہیں اس کے
باوجود یہ حکومت کو گرائیں گے نہیں یہ اس سسٹم کا اور اس نظام کا حصہ رہیں گے ایم
کیو ایم کا ٹیسٹ ہونا بہت ضروری ہے اور لوگوں کے سامنے ایم کیو ایم کا بے نقاب
ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ مبینہ طور پہ رجیم چینج آپریشن کے دوران اربوں روپیہ
بانٹا گیا ہے اس پیسے کا ایک بہت بڑا حصہ مبینہ طور پے ایم کیو ایم کے لوگوں نے
بھی لیا ہے اور کمیٹمینٹ یہ ہے کہ یہ شہباز شریف کا ساتھ دیں گے جب تک یہ اسمبلی
چلے گی لہذا لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے تو یہ اپنے آپ کو باہر کریں گے لیکن
عملی طور پہ باہر نہیں جائیں گے تو عملی طور پہ باہر نہیں جائیں گے تو ان کو
اکسپوز کرنا بہت ضروری ہے اور یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ اس جرم میں کون کون شریک
جرم ہے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس گناہ میں کون کون حصہ دار ہے اس لیے صدر پاکستان
کو چاہے پاکستان تحریک انصاف یہ دیکھ لے کہ شہباز شریف کامیاب ہوتے ہیں چاہے وہ
ناکام ہوتے ہیں دونوں صورتوں میں شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے ضرور
کہنا چاہیے دونوں صورتوں میں شہباز شریف کو کہنا چاہیے کہ آپ اعتماد کا ووٹ لیں
اگر وہ لے لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ایم کیو ایم بلوچستان عوامی پارٹی فضل الرحمن
پیپلز پارٹی اور باقی اتحادی اے این پی وغیرہ ساروں نے ووٹ ڈالا کس کو؟ شہباز شریف کو اگر وہ سارے مل کر شہباز شریف کو
ووٹ ڈالتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ شہباز شریف کے ہر جرم کے اوپر وہ اپنی مہر لگا
رہے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ جی ہم شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں تو ایک مرتبہ ان
سب کو اکٹھا کھڑا ہونے دیں یہ عمران خان صاحب کو ضرور کرنا چاہیے اور صدر پاکستان
کو کہنا چاہیے تاکہ لوگوں کو یہ پتہ چل جائے اگلے انتخابات میں جا کر یہ نہ کہہ
پائے پیپلز پارٹی کہ وہ تو ڈار صاحب نے کیا بہت برا کیا ہم تو بہت اچھا کرتے ہیں
جا کر اگلے انتخابات میں فضل الرحمن یہ نہ کہہ پائیں کہ جی ہم تو بہت اچھے تھے ہم
نے تو اپنے محکموں میں بڑا اچھا پرفارم کیا وہ تو ڈار نے اور شہباز شریف نے تباہی
پھیری ہے تاکہ ایم کیو ایم بھی یہ نہ کہہ پائے جا کر کہ آپ کے سامنے ہمارے پاس کیا
تھا ہم تو صرف حصہ تھے پاکستان بچانے کے لیے یہ تو انہوں نے بیڑا غرق کر دیا تو
ایک مرتبہ ان سب کو موقع دیا جائے کہ یہ دوبارہ سے شریک جرم ہو جائیں اور لوگوں کے
دماغ میں تازہ ہو جائے کہ کون کون تاریخ کے اس وقت میں جب پاکستانی عوام کو بدترین
مار پڑ رہی ہے کون کون کہاں کھڑا ہے بلدیاتی انتخابات کراچی میں ہو رہے ہیں بڑی
کوشش کی ہے روکنے کی ایم کیو ایم نے کوشش کی پیپلز پارٹی نے کوشش کی پی ایس پی نے
کوشش کی بلکہ اب سارے اکٹھے ہی ہو گئے ان سب نے کوشش کی پھر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ
نے کوشش کی باقاعدہ حساس اداروں کی رپورٹیں تک آئیں اور لیکن اس کے باوجود کراچی
میں اب انتخابات ہو رہے ہیں بلدیاتی انتخابات ان بلدیاتی انتخابات کے اندر خون
خرابے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ہو سکتا ہے کل خون خرابہ کروایا جائے اور اسی
خون خرابے کی بنیاد کے اوپر یہ کہا جائے کہ جنرل الیکشن بھی ملک میں اس وقت نہیں
ہو سکتے لیکن اس ساری صورت حال میں لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری لوگوں کے تحفظ کی ذمہ
داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے اور سپیشلی پاکستان کی فوج کی بھی ہے اور
پاکستان رینجرز کی بھی ہے جو جو لوگ وہاں ڈیوٹی کر رہے ہیں کراچی میں تو ان سب کو
جو ہے وہ لا اینڈ آرڈر کی ڈیوٹی اپنی پوری کرنی چاہیے اور امن و امان کے ساتھ
کراچی کے اندر یہ الیکشن کروانا چاہیے اور الیکشن کمیشن کا کل امتحان ہے کہ وہ صاف
اور شفاف الیکشن کروا سکتے ہیں یا نہیں کیونکہ اگر یہاں نہیں کروائیں گے تو پھر یہ
کبھی بھی نہیں کروائیں گے اور سب کو سب کچھ نظر آ جائے گا بہرحال کراچی کے لوگوں
کو بھی موقع مل گیا ہے حیدرآباد کے لوگوں کو بھی موقع مل گیا ہے دادو وغیرہ کو بھی
کیا موقع ملا کیونکہ دیکھیں پنجاب کا امتحان ہوا پنجاب نے رجیم چینج آپریشن کے بعد
اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواریوں کو شکست دی ہے خیبر پختونخواہ نے بھی دی ہے آج یہ
موقع جو ہے وہ سندھ کے شہری علاقوں کو مل رہا ہے کہ وہ بھی شکست دیں اور یہ ثابت
کریں کہ وہ تاریخ کے اس موقع پر غلط طرف نہیں کھڑے تاریخ کے درست سمت میں کھڑے ہیں
اور وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں وہاں پہ بہت سارے آپشنز ہیں جماعت اسلامی بھی ہے تحریک
لبیک بھی ہے پاکستان تحریک انصاف بھی ہے وہ ان میں سے کسی کو ووٹ دے سکتے ہیں اور
پی ڈی ایم سے جان چھڑانے کی کوشش کر سکتے ہیں بہرحال ووٹ آف کانفیڈینس اگر شہباز
شریف کو لینے کے لیے کہا گیا تو شریک جرم کون کون ہے؟ وہ سارے ایک مرتبہ پھر
اکسپوز ہو جائیں گے عمران خان صاحب کو اس میں ہوشیار رہنا پڑے گا کہ اس طرح کے
لوٹوں کو وہ لیں گے تو یہ دوبارہ لوٹے بن جاتے ہیں کیونکہ لوٹا عادتا ہوتا ہے
مجبورا مجھے مشکل ہی لگتا ہے یہ عادتا لوٹے ہوتے ہیں چالیس پچاس لوگ ہیں پاکستان
میں ٹوٹل یہ کبھی چھلانگ مار کے ادھر کبھی ادھر کبھی ادھر ہمیشہ اقتدار میں رہنا
یہ لوگ پسند کرتے ہیں ایک اور خبر ہے اس کے اوپر مذمت بھی کرنی ہے اور یہ انتہائی
افسوسناک خبر ہے صحافی شاہد اسلم صاحب ہیں ان کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس لیے
گرفتار کیا گیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی فیملی کا جو ریکارڈ نکلا اثاثوں کا
اس کے اوپر پہلے احمد نورانی کے اوپر چڑھائی کی گئی پھر محکمے کے اندر سے بندے
پکڑے گئے پھر نوکریوں سے فارغ کیے گئے اور اب یہ صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے کہ جناب
ان کے پاس ریکارڈ ہے اور ان کے تھرو یہ ساری خبر بریک ہوی ہے اور اس کے بعد اس
صحافی کا دو دن کا ریمانڈ بھی اسلام آباد میں حاصل کر دیا گیا ہے اب یہ کہا جا رہا
ہے کہ جناب پاسورڈ دے دیں ہم آپ کے سورسز جاننا چاہتے ہیں اپنے لیپ ٹاپ کے اور
اپنے موبائل فون کے دیکھیں ہو سکتا ہے کہ اس کے سورسز میں پی ایم ایل این شامل ہو
کیونکہ نون لیگ کو بھی بہت غصہ تھا جنرل قمر جاوید باجوہ کے اوپر اور بڑے لمبے
عرصے سے یعنی جن لوگوں نے یہ ڈیپارٹمنٹ کے اندر کارروائی ڈالی تھی ان کا تعلق نون
لیگ سے ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن معاملہ ایک اور ہے کہ تعلق کسی بھی جماعت سے ہو
تعلق اور قربت کسی سے بھی ہو لیکن آپ غلط حرکت نہیں کر سکتے صحافی کا کام ہوتا ہے
خبر دینا فیکٹس سامنے لے کر آنا دنیا کے کسی ملک کے اندر بھی اگر صحافی اس طرح کے
فیکٹس سامنے لے کر آئے تو یہ اس کی ایک صحافتی کامیابی سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان
کے اندر اٹھا کے اندر کر دیا کیوں اندر کر دیا بھئی؟ وہ صحافی کیوں اپنے پاس پڑ گئے؟ کیوں اپنا سورس بتائے؟ صحافی کو خبر ملتی اس بنیاد پہ ہے اور سورسز اس پہ یقین ہی تب
کرتے ہیں جب وہ انہیں ڈس کلوز نہیں کرتا یعنی مجھے بہت ساری خبریں روزانہ ملتی ہیں
اب میں بتانا شروع کر دوں مجھے یہ خبر فلاں نے دی ہے فلاں نے دی ہے وہ دوبارہ کبھی
مجھے خبر نہیں دے گا اور میں دوبارہ مجھے کوئی اور بھی دوبارہ خبر نہیں دے گا سارے
یہ کہیں گے کہ یہ اپنے سورسز کا بتا دیتا ہے تو شاہد اسلم صاحب نے کہا ہے کہ میری
ہڈیاں توڑ دیں مجھے الٹا لٹکا دیں جو مرضی آپ کریں اب کھال بھی ادھیڑ دیں تو میں
آپ کو پاسورڈز تو نہیں دینے والا تو دو دن کا ریمانڈ ہے میں امید کرتا ہوں کہ
عدالت انصاف دے گی موجودہ حکومت نے تو اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو بننے کا فیصلہ کر لیا ہے
یعنی جس صحافی کو گرفتار کیا جاتا ہے یہ اوون کر لیتے ہیں جس صحافی کے اوپر ظلم
کیا جاتا ہے یہ اوون کر لیتے ہیں یہ کہتے ہیں جی بالکل ہم کر رہے ہیں اور ایک
مرتبہ بھی انہوں نے مذمت نہیں کی ایک مرتبہ بھی انہوں نے ان ہاتھوں کو روکنے کی
کوشش نہیں کی بہرحال ہماری حمایت اور ہماری سپورٹ جو ہے وہ شاہد اسلم صاحب کے ساتھ
ہے اس موقع پر بھی خبر دینا کوئی جرم نہیں ہے بجائے اس کے کہ جواب دیا جائے کہ خبر
صحیح ہے یا غلط ہے صحافیوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ
صاحب کیا ایک مقدس گائے ہیں اس طرح کی جو ڈیٹا ہے وہ تو لیک ہوا تھا قاضی فیملی کا
بھی قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی فیملی کا بھی یہ ڈیٹا تو آپ جس مرضی سیاست دان کا لیک
کر دیتے ہیں ابھی حال ہی میں یہ خیبر پختونخواہ کے اندر سے بزنس کمیونٹی نے بتایا
ہے کہ ہمارے بڑے بڑے تاجروں کے اور بزنس کمیونٹی کے جو لوگ ہیں ان کا ایف بی آر کا
ڈیٹا لیک ہو کے دہشت گردوں کے پاس چلا گیا ہے اور وہ ہمیں ہمارا ڈیٹا بتا بتا کے
پیسے مانگتے ہیں چیزیں مانگتے ہیں ہم سے ڈیمانڈز کرتے ہیں تو اس کے اوپر تو کوئی
کارروائی نہیں ہو رہی یعنی مقدس گائے کے خلاف کچھ ہوگا تو کارروائی ہوگی ادر وایز
کچھ نہیں ہوگا تو اس ملک میں کیا رہنے کا حق صرف جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے لوگوں
کو ہے کیا ہم لوگ پاکستانی نہیں ہیں؟ ارشد شریف کی فوٹو تو ائیرپورٹ سے بڑی جلدی وہاں سے نکال کے جو ہے
وائرل کروا دی تھی کیا وہ اس کی کوئی پرسنل چیز نہیں تھی؟ میرا پاسپورٹ بھی اٹھا
کے وایرل کروا دیا تھا ہر بندے کے ساتھ آپ نے یہ کیا ہے لیکن آپ کے ساتھ ہو جائے
تو بہت غصہ آتا ہے ان فورچونیٹ ہے اور ہم مذمت کرتے ہیں اس کی شاہد اسلم کے ساتھ
ہیں اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا۔
اللہ
حافظ ۔
0 Comments