سعد رفیق کا تعلق ن لیگ سے ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ عمران خان آئیں اور ہمارے ساتھ بیٹھیں، ہم ملک کو آگے لے کر جائیں گے۔


تفصیلات کے لیے حقیقت ٹی وی کا تجزیہ پڑھیں 


سعد رفیق جیسا سیزن پالیٹیشن جو ملک کے اندر حالات ہو رہے ہیں اس شخص کی آپ کو گفتگو سنوانے جا رہے ہے آپ نے کبھی سعد رفیق کا یہ حال نہیں دیکھا ہو گا آپ دیکھیں انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اس ملک کو جس طرح کنٹرول کر رہی ہے حکومتوں کو بیٹھ کر جس طرح مہریں چلا رہی ہے میں نے اب سیاست کے اندر کوئی عہدہ نہیں لینا کیونکہ شریف خاندان ایک تو عہدہ بانٹنا نہیں ہے انہوں نے کہا ہے کہ میں کہہ رہا ہوں عمران خان کو آ جائیں ٹیبل پر بیٹھ جائیں نہیں تو یہ سارا کچھ جو ہو رہا ہے یہ ملک ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اکہتر سے بڑا سانحہ یہاں پر ہونے کو تیار ہیں یہ وہ بات ہے جو عمران خان نے کہی تھی وہ بار بار اسٹیبلشمنٹ کو کہتے رہے تو معاملات دیکھیے ان کو غدار کہا جاتا رہا اب سعد رفیق نے جو گفتگو کی ہے اس گفتگو کے بعد رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہیں کیونکہ کچھ تو ایسا ہونے والا ہے کہ سعد رفیق نے کہہ دیا ہے کہ اب مجھے کوئی عہدہ نہیں لینا لیکن جو چل رہا ہے اس ملک کے اندر میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں نے اب کوئی عہدہ کچھ نہیں لینا اب میں بس ختم ہو گئی میری بس ہو گئی ہے کہ میں ان تمام چیزوں کو دیکھوں آپ ذرا یہ دیکھیں ویڈیو آپ حیران ہو گے ان کی گفتگو سن کر۔ پچھلی حکومت تھی ہماری حکومت تھی ہم سے پہلے تھے اور یہ کام صوبوں کا بنیادی طور پہ کوئی صوبائی حکومت اپنے اختیارات جو ہے وہ لوکل باڈیز کو دینے کو تیار نہیں ہے اگر شہروں کو آپ نے سنوارنا ہے تو پھر آپ کو لوکل باڈیز کو اختیار دینا پڑے گا اور میئر جو ہوگا شہر کا ون مین ون ووٹ کی بنیاد پہ آئے گا اور پھر جب وہ آئے گا تو مینڈیٹ لے کے آئے گا تو اس کے پاس اختیار ہونا چاہیے کہ وہ صوبائی حکومت جو ہے اس کو اپنے اختیارات کو جو بھی صوبائی حکومت ہے ڈی سینٹرالہیز کرے آپ کے شہر بدلنے شروع ہو جائیں گے یہ وہ ماڈل ہے جو پوری دنیا نے اڈاپٹ کیا ہے ہم اڈاپٹ کیوں نہیں کرتے؟ آپ یعنی کہ میئر کا جو انتخاب ہے آپ یہ تجویز دے رہے ہیں کہ براہ راست اس کا انتخاب ہو میری کنسیڈریبل اوپینین ہے کہ یہ ہونا چاہیے ڈایریکیٹ ون مین ون ووٹ کی بنیاد پہ جیسے ایم این اے پہلے کونسلر منتخب ہوتے ہیں وہ کونسلر منتخب ہو کے وہ اپنا مئیر منتخب کرتے ہیں آپ کہہ رہے ہیں براہ راست ایک شخص آئے وہ کہے کہ میں جو ہے میں یہ سمجھتا ہوں یہ میری ذاتی رائے ہے خواجہ صاحب آپ ویسے کیا پسند کریں گے لاہور کا میئر بننا پسند کریں گے پنجاب کا وزیر اعلی بننا پسند کریں گے نہیں اب تو میں انتخابی سیاست جو ہے پاکستان کی اس سے اتنا زیادہ دلبرداشتہ ہو گیا ہوں کہ کچھ بھی بننا پسند نہیں کروں گا سیاست تو میں کروں گا آخری دم تک کروں گا لیکن اس انتخابی سیاست جو ہے جو ایک یہ جمہوریت ہے جمہوریت میں اس سے بالکل مطمئن نہیں ہوں کیوں کہ اس میں ایک تو ڈاینسٹک پولیٹیکس ہے جو پاکستان کو آگے نہیں لے کے جا سکتی پھر اس میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے اور پھر اس میں نظریہ ضرورت کے فیصلے کرنے والے ججز ہیں ان خرابیوں کے ہوتے ہوئے پاکستان تو آگے نہیں بڑھ سکتا تو خواجہ صاحب اگر آپ جیسے لوگ یہ کہیں گے جن کی ساری عمر جن کے والد صاحب نے جمہوریت کے لیے قربانی دے دی جن کے جن کی والدہ نے قربانی دے دی آپ کی ساری عمر جیلیں کاٹتے ہوئے گزر گئی آج اگر آپ مایوس ہو جائیں گے تو پھر مایوس ہو کے بیٹھ جائیں چھوڑ جائیں چلے جائیں پھر ہم سب مایوس نہیں ہوں ہاں مایوس بالکل نہیں ہوں مایوس تو میں تو گنہگار آدمی ہوں مومن مایوس نہیں ہوتا میں اس نظام سے بد دل ضرور ہوں اور مجھے چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اپنے جذبات کیونکہ میں نے اپنے آپ کو بلڈ پریشر کا مریض فی الحال میں نہیں ہوں تو بنانا بھی نہیں چاہتا کسی کو اچھا لگے یا برا لگے بات وہی جو دل میں ہے وہ زبان پہ آنی چاہیے آپ مجھے بہت اچھی طرح دونوں خاص طور پہ جانتے ہیں آج سے نہیں جانتے پچھلے تیس پینتیس سال سے جانتے ہیں تو نمک کی اس کان میں بعض لوگ نمک نہیں بن سکے یہ جو نظام ہے یہ جو پاکستان کا نظام ہے حکومت کا یہ آپ کو میرٹ پے کام نہیں کرنے دیتا یہ آپ کو اقربا پروری کی طرف لے کے جاتا ہے اور جب آپ اپنے اداروں کو سیاست سے پاک کرتے ہیں تو پھر آپ پہ اکسٹرنل اور انٹرنل پریشر آتے ہیں بعض لوگ لے لیتے ہیں زیادہ لوگ نہیں لے سکتے پھر آپ کو نظام کے اندر لڑنا پڑتا ہے جب آپ اس ملک سے باہر جاتے ہیں ابھی ہم کل گئے ہوئے تھے وہاں پہ یونائیٹڈ عرب ایمرٹس ابوظہبی گئے اور دبئی گئے اور پرایم منسٹر کے ساتھ تھے میں پی ایم صاحب کے ساتھ گیا تو ٹوپی گر جاتی ہے دیکھ کے آدمی کی کہ یہ کیا ہے انہوں نے ریگستان کو انہوں نے صحرا کو گلزار بنا دیا ہے کیا کر دیا انہوں نے؟ ٹھیک ہے ان کے پاس تیل کی دولت آئی ہے بازوں کے پاس نہیں ہے ہم نے بنے بنائے کو برباد کر دیا ہے تو یہ نوحہ ہے پوری پاکستانی قوم کا ہم ایک دوسرے سے لڑتے ہیں گریبان پھاڑتے ہیں حکومتیں بناتے ہیں گراتے ہیں یہ جو جمہوریت ہے جس کا میں بھی حصہ ہوں یہ امیروں کی جمہوریت ہے اور یہ امیروں کی جمہوریت صرف سیاست دانوں کا قصور نہیں ہے یہ مارشل لا لگانے والوں کا قصور ہے اور مارشل لاء کی پیداوار سیاستدان نما سیاسی کھلاڑیوں کا قصور ہے اور پھر اس میں وہ ججز تھے جنہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیے اور وہ صحافی تھے معذرت کے ساتھ جو بک جاتے ہیں اور جو اپنے ضمیر کے سودے کرتے ہیں تو پاکستان کو تو ہم نے خراب کر دیا ہے ایک بہت بڑا ڈس آرڈر یہاں کری ایٹ ہو گیا ہے اس کا صرف یہ حل نہیں ہے کہ آپ الیکشن کرائیں بی فور ٹائم اور چلے جائیں یا یہ اس کا ایک ہی حل ہے اب یہ سارے سٹیک ہولڈر بیٹھ جائیں ان کو ایک دوسرے کی شکل اچھی لگتی ہے یا نہیں لگتی؟ بٹ وہ سٹیک ہولڈرز اگر تو سب سٹیک ہولڈر بیٹھ گئے جس سٹیک ہولڈر میں تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے بھی شامل ہیں اور اس کا کوئی حل نکالا تو شاید بہتری کا راستہ نکل آئے مطلب کوئی زیادہ ہی سیریس گفتگو ہوگی لیکن میں جو تھوڑا سا لیکن جب خواجہ سعد رفیق کو جب دیکھیں گے لوگ اسکرین کے اوپر تو وہ چاہیں گے کہ کچھ ان کو آج خبر بھی مل جائے خواجہ صاحب یہ الیکشن نئے الیکشن آپ کے مخالفین کہتے ہیں آپ الیکشن سے ڈرتے ہیں الیکشن سے بھاگتے ہیں کیا چکر کیا ہے آپ ڈر رہے ہیں الیکشن سے تصور کریں دو صوبوں میں الیکشن ہو جاتا ہے دو صوبوں میں اور فیڈریشن میں نہیں ہو رہا تو کیا امپوز تو نہیں کر سکتے اس کے دس مہینے یا نو مہینے بعد پھر دو صوبوں اور وفاق میں الیکشن ہو جائے گا نیچے دو صوبوں میں ہو چکا ہوگا جس کی فیڈرل گورنمنٹ ہوگی آج یہ جو الیکشن لڑیں گے یہ اس پہ الزام لگائیں گے کہ ریگینگ ہو رہی ہے اور جب یہ دو صوبائی حکومتیں اگر کسی اور کی بن گئیں تو جو اگر لوز کر گئی دوسری پارٹی وہ الزام لگائے گی تو یہ بلیم گیم جاری رہے گی پاکستان اس چکر میں پس رہا ہے سرمے کی طرح پاکستان کے لوگ پس رہے ہیں لوگ بھوکے مر رہے ہیں ہمیں پڑی ہوئی ہے کہ جناب میری میری حکومت آ جائے ان کی چلی جائے اسی طرح میں ان کی ٹانگ کھینچ لوں یہ میری ٹانگ کھینچ لے اس طرح ملک چلتے ہیں وہ بھی نیوکلیئر سٹیٹ بائیس کروڑ کا ملک ہے بھیک مانگنے کے لیے باہر جانا پڑتا ہے شرم آتی ہے پسینہ آ جاتا ہے جب آپ پیسے مانگتے جا کے آپ ڈالر مانگتے پھرتے ہیں کیونکہ ملک کو رول اوور کروانے کے لیے جانا پڑتا ہے. اچھا حل کیا ہے اس کا? حل وہی ہے? حل لڑائی سے نہیں نکلنا لڑائی آپ کو پتہ ہے ہم نے بہت لڑی ہے آپ نے بھی بڑی لڑی ہے لکی نے بھی لڑی ہے اور میں نے تو ہاتھوں سے لڑی ہے صحیح ہے جوانی میں لڑائی کرنے سے بہت زندگی میں لڑی ہے لڑائی کبھی کبھی لڑائی سے راستہ نہیں نکلا راستہ بات کر کے نکلتا ہے مقابلہ نہیں مکالمہ میں میں یہ سمجھو کہ خواجہ سعد رفیق عمران خان سے کہہ رہے ہیں کہ آؤ بیٹھو بات کرو صرف عمران خان سے نہیں کہہ رہا میں عمران خان کو بھی کہہ رہے ہیں اپنوں کو بھی کہہ رہا ہوں اچھا ، مخالفین کو بھی کہہ رہا ہوں اور میں ریاستی اداروں کو بھی کہہ رہا ہوں میرا پچاس سال کی پولیٹیکس میں سٹینڈنگ ہے میں دس سال سے کم عمر میں تھا جب میرے والے اسیسینیٹ ہوئے اور میں پہلی پولیٹیکل تقریر پونے دس سال کی عمر میں کی تھی ساٹھ مہینے ایک مہینہ پہلے کراس کیا ساٹھ کا ہندسہ ایک آدمی جو پچاس سال سے سیاسی کارکن ہے وہ چیخ چیخ کے یہ کہہ رہا ہے کہ سب کو بیٹھنا پڑے گا اور یہاں پہ ایک آپ کو جو شہباز شریف صاحب نے کہا تھا میثاق معیشت وہ کرنا ہی پڑے گا ورنہ یہ ریت کی طرح جو ہے نا وہ ملک جو ہے وہ ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے ہمیں اس کا کوئی ادراک ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں اس ملک کے ساتھ کیوں سچ نہ بولا جائے کیوں کڑوی بات نہ کی جائے کیوں لوگوں کے ضمیر نہ جھنجھوڑے جائیں کب جھنجھوڑ یں گے پھر جب خدانخواستہ ایک اور حادثہ ہو جائے گا اکہتر کے حادثے سے پاکستان میں سبق نہیں سیکھا گیا اور وہ جو تھا نا کہ قوموں کی زندگی میں ایک ہوتا ہے نیور اگین صحیح کل مجھے ایک نوجوان سے میں نے یہ سیکھا ہے ایک ینگ آفیسر یہ بات کر رہا تھا نیور اگین ۔ جاپنیز پہ جب ایٹم بم گرا انہوں نے کہا نیور اگین دنیا کی مختلف قوموں نے کہا نیور اگین ہمارا ملک ٹوٹا ہم نے میور اگین نہیں کہا ہمارا اے پی ایس بھی سقوط مشرقی پاکستان جیسا ہی تھا ہم نے نیور اگین نہیں کہا ہم پھر وہی کام کرنے جا رہے ہیں ہم لڑے جا رہے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے ذاتی گروہی اقتدار کے لیے اس کو روکنا پڑے گا مزاحمت کرنی پڑے گی صحیح ڈیموکریسی کا بھی بہت برا حال کیا ہے ہمارے سیاستدانوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پی پی پی اور پی ایم ایل این تک محدود نہیں رہنا چاہیے تھا یہ ہماری ذمہ داری تھی جنہوں نے میثاق جمہوریت کیا تھا کہ ہم اس کو ایکسٹینڈ کرتے کم از کم پی ڈی ایم تک ایکسٹینڈ کرتے اس پر بہت بار ہم نے بات کی ہے اپنی جماعت میں ۔ آپ نے سنا اب آپ یہاں سے اندازہ کر لیجیے کہ اگر سعد رفیق جیسا بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ فیڈ اپ ہو چکے ہیں عدالتیں بکی ہیں یا یہ تمام اسٹیبلشمنٹ چیزیں کنٹرول کر رہی ہیں تو اب آپ اندازہ کر لیجیے کہ اس ملک کے اندر باقی رہ کیا گیا؟ یعنی وہ بالکل بندہ فیڈ آپ آگیا اور کہہ رہا ہے کہ سارے آ کر بیٹھ جاؤ نہیں تو یہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم اتنی آگے چلے جائیں گے جس کا آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کتنوں کو یہ بات سمجھ آئے گی یہ تو شاید وقت ہی بتائیں