عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے خواجہ آصف کی سیٹ جیتنے میں مدد کی اور ان دونوں کے درمیان کال ہوئی۔

تفصیلات

 اس کائنات کے تمام ابلیس کے نمائندوں کو آپ ایک جگہ کر لیں. یقین کیجیے باجوہ کا پلڑا بھاری رہے گا. باجوہ پھر بھی ان سے زیادہ بھیانک انسان ہے. اور اس قوم کے اور پاکستانیوں کے ساتھ اس نے جو کیا ہے وہ تو آپ ساری دنیا کو پتہ ہے لیکن جو عمران خان نے اب انکشافات کیے ہیں اب یقین کیجیے کہ اگر اس وقت قوم کو پتہ ہوتا یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو شاید خوف کے مارے لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے ابھی تو عمران خان نے زیرو پوائنٹ زیرو زیرو ون پرسنٹ بتایا ہے تو باقی جو ننانوے اشاریہ کچھ پرسنٹ بچا ہے وہ جس دن پتہ چلے گا تو کیا حالات ہوں گے اس کا آپ اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج عمران خان نے کہا ہے خواجہ آصف نے کال کی الیکشن کی رات کو باجوہ کو اور کہا کہ میں الیکشن ہارا ہوں تو باجوہ نے کہا بے فکر ہو جاؤ صبح میں عثمان ڈار کو ہروا دوں گا اور تم الیکشن جیت جاؤ گے اور پھر باجوہ نے رزلٹ بدل دیے آپ ذرا اندازہ کیجئے کہ اس بندے کی اوقات کیا ہے اب آپ کو سمجھ آئی کہ اس رات کیوں انہوں نے آر ٹی ایس سسٹم بٹھایا تھا عمران خان ابھی تو بول نہیں رہے وہ بولیں گے جس دن تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس رات کو الیکشن کے سارے کہتے ہیں آر ٹی اے سسٹم باجوہ اتنا دو نمبر آدمی تھا آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر عمران خان کی سیٹیں کھا گئے اور فضل الرحمن شہباز شریف ان سب کو کہا کہ اور میڈیا میں کمپین چلاؤ تم لوگ کہ آر ٹی ایس سسٹم جو بٹھایا گیا ہے وہ عمران خان کو جتوانے کے لیے بٹھا کے جب کہ عمران خان کی سیٹیں کھا گئے بعد میں ق لیگ، باپ پارٹی، ایم کیو ایم لولی لنگڑی حکومت عمران خان کو دی۔ اور سب سے بڑھ کر بات سمجھیے گا۔ عمران خان کو حکومت کیوں دی؟ عمران خان کو حکومت دی کہ عمران خان سے اکسٹینشن لینا تھی عمران خان نے کہا کہ انہوں نے مجھے فیصلہ کر لیا تھا دو ہزار اکیس گرمیوں میں ہٹانے کا یہ وہ مرحلہ تھا کہ جب ٹرمپ الیکشن ہارا تھا اور بائیڈن نے حلف اٹھانا تھا یعنی آپ اندازہ کیجیے کہ باجوا ٹرمپ سے نفرت کرتا تھا. اس کی وجہ کیا تھی کیونکہ عمران خان ٹرمپ کا یار تھا. یہ دونوں ایک تھے. اور دونوں نے افغانستان سے نکلنے میں مدد کی. اور یہ سارے کا سارا معاملہ بڑا زبردست ہوا. اب یہاں پر آپ اندازہ کر لیجئے کہ بائیڈن باجوہ کے کتنے قریب تھا کہ عمران خان نے کہا کہ بائیڈن چونکہ عمران خان کو پسند نہیں کرتا تھا اور بائیڈن کا دوست باجوہ تھا تو اس نے کہا جب اس نے جب یہ گرمیوں کا ٹائم ہے اس وقت جو بائیڈن حلف اٹھا رہا تھا تو اسی وقت ویسے انہوں نے کر لیا تھا کہ میرا تختہ الٹنا ہے کیونکہ اس نے کہا کہ جب اس نے اکسٹینشن لی تو اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ یہ اپوزیشن کی ساری باجوہ کو جا کر ووٹ کاسٹ کر رہی ہے میں تو بڑا حیران ہوا مجھے کہا بھی گیا مجھے سائنس بھی ملے لیکن میں اس وقت چپ تھا میں نے کہا نہیں باجو اچھا انسان ہے اور یہ وہ جیسے ہی اکسٹینشن لی ہے تو مجھے آکر باجوہ کہتا ہے احتساب کو چھوڑو جب آج کے بعد تم نے احتساب کی بات نہیں کرنی اس دوران کہتا ہے سب سے بڑھ کر میں آپ کو بتاؤں میں حیران ہوا کہ میری حکومت کے اندر فارن آفس کے انڈر انہوں نے یعنی میں وزیراعظم ہوں اور فارن آفس کو کہا کہ تم جا کر حسین حقانی کو ہائر کرو. حسین حقانی گیا وہاں پر اس نے جا کر باجوہ کی لابنگ کی کہ باجوہ بڑا اچھا انسان ہے. امریکیوں کے قریب ہے. لیکن عمران خان انٹی امریکن ہے اس کو فارغ کرے تو وہاں سے جو دونوں لو نے جو باتیں کیں اس کو الفاظ سارے دیے گئے تھے. کس کے دیے گئے تھے? یہ سب سے زیادہ اہم ترین بات یہ ہے کہ الفاظ دیے گئے تھے. جس کو ارشد شریف کہتے ہیں وہ کون تھا جس کو مخاطب کیا جا رہا تھا سایفر کے اندر کہ اس کا تختہ الٹنا ہے. تو لہذا آپ اندازہ کر لیں کہ باجوہ نے یہ کام سارا کیا. حکومت عمران خان کی تھی. یہی وجہ ہے یہ ساری کہتے رہے ہیں جی عثمان بزدار نے یہ کیا. پنجاب میں پولیس کے اوقات ہی نہیں تھی کبھی آئی جی بدل رہے ہیں کبھی سیکرٹری بدل رہے ہیں تو سارا بیٹھ کر تو باجوہ پیچھے کنٹرول کر رہا تھا اور پھر یہ کہتے ہیں جی اس نے یہ کر دیا تو اس نے وہ کر دیا یعنی آپ اندازہ کیجیے اس کے ایک اشارے کے اوپر وہ الیکشن جیت گیا خواجہ آصف جو الیکشن ہار رہا تھا اب آپ ذرا اندازہ کر لیں پھر آپ کہتے ہیں کہ عمران خان نے یہ اس نے کہا کہ اس نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ میرا تختہ الٹنا ہے اور میرے ساتھ ساتھ اس نے ایسی گیم کی کہ ایجنسیز بندے توڑ رہی تھی میرے تو میں باجوہ سے پوچھتا باجوہ کہتا ہے نہیں کوئی ایسی بات نہیں۔ انہوں نے کہا باجوہ نے مجھے آ کر کہا کہ آپ تو پلے بواے رہ چکے ہیں۔ تو میں نے کہا ہاں میں کون سا فرشتہ تھا؟ میں نے کہا ہاں میں رہ چکا ہوں۔ تو ساری دنیا کے اندر یہ چیزیں ہوتی ہیں اور لوگ بدلتے ہیں دین کی طرف آ جاتے ہیں تو کہتے ہیں باجوہ نے مجھے کہا کہ آپ کے لوگوں کی ویڈیوز ہیں میرے پاس آڈیوز ہے تو میں نے کہا کہ تمہارا اور ایجنسیوں کا اداروں کا کیا یہ کام میں بیٹھ کر تم ویڈیوز بناتے پھرو کہ تم مجھے اس نے آ کر باجوہ میں یہ جو اگست ہوا یہ آخری ملاقات کا ٹائم تھا اور باجوہ مجھے دھمکیاں دیتا رہا کہ ویڈیوز ریلیز کر دیں گے آڈیو سے ریلیز کر دیں گے آپ اندازہ کیجیے اتنا میسرا انسان ہے اتنا میسرا انسان ہے کہ میڈیا کو کیا کہتا ہے یہ گیم سمجھیے ذرا. باجوہ نے پوری کمپین چلانے والا باجوہ تھا عمران خان نے آج بتایا کہ جنرل فیض کے معاملے کے اوپر اس نے کہا کہ عمران خان فیض کو آرمی چیف بنانا چاہتا۔ تاکہ باقی جو لسٹ میں جرنیل ہیں وہ عمران خان کے خلاف ہو جائیں۔ یعنی آپ اندازہ کیجیے کہ سارے کے سارے لوگ خلاف ہو جائیں عمران خان کے کیونکہ اس نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا. دیکھیں پانچ جو لسٹ میں ہوتے ہیں نام آرمی چیف کے تو سب کو امید ہوتی ہے آرمی چیف وہ بنے. یہ بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے. لیکن اس صورتحال میں عمران خان نے سب کو اپنے خلاف کروا لیا کس طرح باجوہ نے کمپین چلائی کہ یہ فیض کو بنانا چاہ رہا ہے. فیض رایٹ ہینڈ تھا باجوہ کا. کس سے گالیاں دلوائی مریم نواز کو, باجوہ نے کہا کہ تم گالیاں دو کس نے فیض کو بنانا ہے. زرداری کو کہا تم گالیاں دو. فضل الرحمن کو کہا گالیاں دو میڈیا کے اندر طلعت حسین انصار عباسی، کامران شاہی سمیت سب کو باجوہ کنٹرول کرتا تھا اور ان کو یہ کہتا رہا کہ تم لوگ یہ کہو کہ عمران خان نے فیض کو بنانا ہے میڈیا پر پروپیگنڈا کرو فیض کے خلاف اور پی ٹی آئی کے جو لوگ ہیں سپورٹرز وہ بیوقوف بن کر فیض کے ساتھ کھڑے ہو جائیں کہ جی کہ جی اگر فیض کا آ جاتا نا تو ہی باجوہ کا ہی بندہ آنا تھا یہ ذہن میں رکھیے گا. تو اس صورتحال میں عمران خان کے خلاف کمپین سے عمران خان نے کہا میں نے تو کبھی فیض کو بنانے کا سوچا ہی نہیں تھا. واحد سچ بولا شیخ رشید نے انہوں نے کہا کہ وہ بندہ جو اس دنیا سے چلا گیا ہے اس کو آرمی چیف بنانا تھا یعنی جنرل سرفراز کو اللہ پاک ان کو جنت نصیب کرے اور اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے ان کے ساتھ جتنے ہمارے شہداء تھے اللہ ان کو بھی جنت میں جگہ دے اور انشاءاللہ بڑے اعلی مقام پر فائز ہوں گے تو عمران خان نے تو کبھی فیصلے کیے ہی نہیں تھا کہ اس نے فیض کو بنانا ہے یا فیض کو یہ کرنا ہے تو آپ یہ سوچ لیں کہ باجوہ کتنا رنگ باز تھا یعنی وہ جس طرح عمران خان کہتے ہیں سیالکوٹ یہ بالکل یہی صورتحال تھی آپ ذرا اندازہ کر لیجیے کہ اس بندے کی کیا اوقات ہے کہ یہ بیٹھا ساری چیزیں کنٹرول کرتا رہا میڈیا کو مینیج کرتا رہا سیاستدانوں کو مینیج کرتا رہا سب کے ساتھ کام کرتا رہا اور عمران خان کی دھڑیں کاٹتا رہا یہنی آپ اندازہ کیجئے کہ کیا باجوہ کی اوقات ہے اس کی اوقات کیا ہے آج اس کو اگر منہ لگانا ہے اس کو کہے ذرا پانچ منٹ کے لیے عوام میں چلا جائے یہ عوام میں نہیں جا سکتا یہ آپ جانتے ہیں کہ جو ریٹائرڈ ہو چکے ہیں فوج کے لوگ ان میں کتنی پذیرائی ہے عمران خان کی ان کے بچے کہتے ہیں نا عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونا ہے یہ باجوہ ان کی محفلوں میں نہیں جا سکتا یہ ریٹائرڈ جو ہو جاتے ہیں وہ ان کا ایک پورا سرکل ہوتا ہے ایک سروس مین کا وہ ملتے ہیں باجوہ گھر سے باہر نہیں نکلتا ان میں جاتا نہیں ہے کہ میں جاؤں گا مجھے گالیاں پڑیں گی دیکھیں پرویز مشرف گیا نہیں تھا ساری دنیا میں جا کے لیکچرز دیتا تھا. آئی ایس آئی کو ڈیفنڈ کرتا تھا. فوج کو کرتا تھا. عمران خان کو بھی اس نے کئی دفعہ ڈیفینڈ کیا. اور کئی دفعہ تنقید کا نشانہ بھی بنایا . مشرف کا کلیبر تھا, پڑھا لکھا انسان تھا, باجوہ جا سکتا ہے بتائیں تو صحیح نہ. باجوہ جا سکتا ہے کہیں دنیا میں. لوگ کہیں گے تو تو امریکی اور فلانا. یعنی آپ اندازہ کیجیے ٹرمپ سے بھی جلتا تھا. اب آپ کو سمجھ آئی کیوں جلتا تھا کیوں کہ ٹرمپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا. تو اسٹیبلشمنٹ ٹو اسٹیبلیشمنٹ ہمیشہ رابطے رہتے ہیں، اس کا تھا یہ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف ہے عمران بھی ہوگیا۔ تو ان دونوں کا پتہ صاف کرو۔ آپ اندازہ کیجیے عمران کا روس گیا۔ اس نے کہا میں نے مذمت نہیں کرنی۔ یہ بیٹھ کے کہتا ہے روس کی مذمت کرتے ہیں۔ تو ہے کون بھائی؟ وزیراعظم وہ ہے تو اس کے ماتحت اور تو مذمت کر رہا ہے اس وقت عمران خان نے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا تھا. کیونکہ عمران خان بھی مجبور تھا. اب یہ اصل میں ان کی صورتحال ہے. وزیراعظم وہ ہے اور بیٹھ کر یہ کہہ رہا ہے جی ہم نے روس کی مذمت کرنی ہے. او بھائی کیوں تو نے کرنی ہے تو نے وزیراعظم سے پوچھا تھا ایک دفعہ یہ صورتحال تھی کہ روس ہم سے ناراض ہوا.