آئی ایم ایف نے بھانڈا پھوڑا دیا
شہباز شریف کا منظر عام پر آگیا
ڈالر کی اصل قیمت کیا ہے؟
دھوکہ کیسے دیا گیا؟
ایک کے بعد ایک بحران، تجربہ الٹا پڑ گیا
تفصیلات کے لیے
صحافی عمران ریاض خان کا تجزیہ پڑھیں
آئی ایم ایف نے شہباز
شریف کا جھوٹ بے نقاب کر دیا۔ یعنی اس لیول پہ آ کے شہباز شریف صاحب کو جھوٹ نہیں
بولنا چاہیے تھا۔ غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے۔
حالات اتنے خطرناک ہیں اس کے باوجود معیشت کے معاملات کے اندر غلط بیانی کرنا اور
غلط دعوے کرنا یہ انتہائی زیادتی والی بات ہے کچھ چیزیں میں آپ کو ڈونلڈ کانفرنس
جو نو جنوری کو ہونے جا رہی ہے اس کے بارے میں بتاؤں گا ایکچولی وہ ہے کیا کلایمیٹ
چینج کے معاملات ہیں اور وہاں پہ پاکستان اپنا مقدمہ لے کر جا رہا ہے. نواز شریف
صاحب بھی وہاں پہنچے ہیں کوشش کر رہے ہیں. کہ عالمی سطح پہ کچھ لوگوں سے کچھ بات
چیت ہو جائے. اور کچھ سلوشن نکالنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس وقت شہباز شریف صاحب
کا اور نواز شریف صاحب کی صرف ایک خواہش ہے کہ ان کا دور کسی طرح گزر جائے اور
پاکستان ان کے دور کے بعد دیوالیہ ہو. یعنی کسی بھی طرح وہ کر کے پاکستان کو
گھسیٹنے ٹیکنیکلی پاکستان ڈیفالٹ ہو چکا ہے. یہ بہت سارے انالیسٹ کہہ رہے ہیں. اور
بار بار کہہ رہے ہیں لیکن اس بات کو ایک ایسی بات بنا دیا گیا ہے کہ پتہ نہیں یہ
کوئی بہت معیوب بات ہے. دنیا کے ملک ڈیفالٹ ہو جاتے ہیں. مختلف ریزنز ہوتے ہیں.
ہمارے یہاں پہ ریزن ریجیم چینج کا ایک آپریشن بنا. ہو جاتے ہیں جھوٹ شہباز شریف
صاحب نے کیا بولا آئی ایم ایف نے شہباز شریف کا جھوٹ بے نقاب کر دیا یہ خبر ہے
کیسے بے نقاب کیا ذرا شہباز شریف صاحب کا پہلے آپ بیان دیکھ لیں شہباز شریف صاحب
نے دو دن پہلے چھ جنوری کو ہزارہ الیکٹریک سپلائی کمپنی کے منصوبے کی افتتاحی
تقریب میں انہوں نے خطاب کیا تھا۔ میں نے وہ سنا بھی تھا انہوں نے کہا جی میں چین
کے وزیراعظم سے میری بات ہوئی پھر اس کے بعد میری آئی ایم ایف والوں کا مجھے فون
آیا وہ کہہ کیا رہے تھے سنیں شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ کل رات آئی ایم
ایف کے ڈائریکٹر کا فون آیا انہوں نے پوچھا کہ چین اور سعودی عرب کے ساتھ آپ کے
کیسے تعلقات ہیں میں نے جواب دیا کہ ہمارے دونوں ممالک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات
ہیں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے چین کے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہمارا دیرینہ
دوست ہے دیگر ممالک سے بھی اپنے تعلقات بہتر کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے
آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر سے کہا کہ ہم پاکستانی عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے
آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اپنا وفد بھیجیں گے تاکہ پاکستان کو اگلی قسط
مل سکے اور دو تین دن کا شہباز شریف صاحب نے وقت بھی اپنے اس بیان میں کہا تھا اب
خبر کیا سامنے آئی ہے ذرا یہ خبر آپ ملاحظہ فرمائیں اور ایکسپریس ٹریبون کے مطابق
یہ خبر ہے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف انہوں نے اتوار کے روز کہا کہ
مینیجنگ ڈائریکٹر ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹیانہ جارجیا اور شہباز شریف کے درمیان
ٹیلی فونک بات چیت جو ہوئی ہے وہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی درخواست پر ہوئی
ہے نہ کہ ایم ڈی نے خود کال کی ہے. شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے کال کی ہے. اور
آئی ایم ایف یہ بتا رہا ہے کہ نہیں ان کے لیے امپورٹنٹ بات ہے یہ. انہوں نے کہا کہ
نہیں. شہباز شریف صاحب کو ہم نے کال نہیں کی. انہوں نے درخواست کی. جس کے اوپر پھر
یہ بات کی گئی ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی نمائندہ انہوں نے
بتایا کہ یہ ٹیلی فونک گفتگو وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کلایمیٹ ریزیلینٹ
پاکستان کانفرنس پر بات کرنے کی درخواست کے جواب میں کی گئی یعنی شہباز شریف صاحب
نے کوئی معیشت پہ بات نہیں کرنی تھی۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے کچھ
اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔ ان سے اوپر بات کرنے کی درخواست کی۔ جس کے جواب میں یہ
کہا گیا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کلائمیٹ ریسیلینٹ پاکستان کانفرنس 9 جنوری کو جنیوا
میں ہو رہی ہے جہاں نواز شریف اور مریم پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔ حکومت پاکستان اور
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مشترکہ طور پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد
حکومتی نمائندوں، سرکاری اور نجی شعبے کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کو 2022 کے تباہ
کن سیلاب کے بعد عوام اور حکومت کی مدد کے لیے اکٹھا کرنا ہے۔ آئی ایم ایف ترجمان
کے بیان میں اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ نواں جائزہ مشن تین دنوں میں
پاکستان پہنچے گا جیسا کہ شہباز شریف صاحب نے دعوی کیا تھا. یہ ایک اور جھوٹ بھی
پکڑا گیا. بلکہ آئی ایم ایف ترجمان کے مطابق جنیوا کانفرنس کی سایڈ لاین پر اسحاق
ڈار اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ملاقات متوقع ہے اور وہ ہو سکتی ہے. اس کی
درخواست کی گئی ہے آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ پی ڈی ایم
سرکار نے ایک ایسے وقت میں سیاست کرنے سے گریز نہیں کیا جب ملک ڈیفالٹ ہونے کے
قریب ہے اور اسی طرح کے غلط بیانات پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے
لیے مزید مسائل پیدا کر سکتے ہیں. خاص طور پر جب دونوں فریقوں کے درمیان پہلے سے
ہی حالات اور عدم اعتماد کی ایک طویل تاریخ بنی ہوئی ہے. بار بار یہ ان کو دھوکہ
دیتے رہے ہیں. اسحاق ڈار جو ہیں وہ ڈالر کو قابو کرنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں
مالیاتی شعبے کا حکمت عملی تبدیل کرنے کا مطالبہ جو مالیاتی شعبہ ہے پاکستان کا
انہوں نے صاف صاف کہا اسحاق ڈار صاحب کو اور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈالر کے مقابلے
میں روپے کی قدر میں جو استحکام لانے کی کوششیں کر رہے ہیں زبردستی اپنی سیاست
بچانے کے لیے نواز شریف کو خوش رکھنے کے لیے ڈار صاحب نے جس طریقے سے روکا ہوا ہے
ڈالر کو یہ زیادتی وہ بند کر دیں اور یہ کوششیں وہ بند کر دیں جو کہ عالمی مالیاتی
فنڈ یعنی آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب بارہ کروڑ ڈالر قرض کی قسط کے اجراء کے
لیے تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے اہم شرائط میں سے ایک ہے. یعنی
آئی ایم ایف آپ کو پیسہ تب دے گا پاکستان کو جب اسحاق ڈار صاحب اپنی ضد چھوڑیں گے
اب ڈالر اگر نیچے آتا ہے تو وہ پاکستان کی ترقی کے ساتھ آنا چاہیے. ہماری اکسپورٹس
بڑھ جائیں, ہمیں رمیٹینسز زیادہ مل جائیں. ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں ہماری
امپورٹس کم ہوں تو اس میں پاکستان کی کرنسی اوپر جائے گی اور ڈالر نیچے آئے گا. یہ
کر کے ڈار صاحب اگر ڈالر کو نیچے لاتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے. لیکن وہ زبردستی
بینکوں کے اوپر دباؤ ڈال کر انہوں نے ڈالر کا ریٹ کنٹرول کیا ہوا ہے. اور ایکچول
ریٹ ڈالر کا کیا ہے وہ میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں. پورا ایک فارمولا ہے پاکستان کے
عام آدمی کو بھی سمجھ آجائے گا۔ کہ ایکچولی اس وقت ڈالر کتنے کا ہے سیکرٹری جنرل
ایکسچینج کمپینیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ظفر پراچہ نے کہا کہ ہم نے وزیر خزانہ سے
ملاقات کی ہے اور ان کو سنگل ریٹ ماکیٹ کا مشورہ دیا ہے لیکن وزیر خزانہ نے اس
رائے سے اتفاق نہیں کیا یعنی وہ زبردستی ابھی بھی اپنے سیاسی فائدے کے لیے ڈالر کو
روک کر رکھنا چاہتے ہیں معاشی ماہرین اور کرنسی ڈیلرز نے بھی حال ہی میں وزیر
خزانہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کرنسی پر اثر انداز ہونا بند کر دیں۔ کیونکہ یہ حکمت
عملی استحکام سے عدم استحکام کی جانب آپ کو لے کر چلی جائے گی۔ اب میں آپ کو بتاتا
ہوں کہ اس وقت ایکچولی ڈالر کی قیمت کیا ہے سادہ فارمولے کے ساتھ آپ کو میں بتاؤں
گا ڈالر ایک ایسی کرنسی ہے جس کے ساتھ دنیا بھر کے ملک اپنی کرنسی کا موازنہ کرتے
ہیں یعنی پاکستان میں یہ ڈالر سو روپے کا بھی ہوتا تھا ایک سو بیس کا بھی ہوتا تھا
ایک سو ستر کا بھی ہوتا تھا اور اب یہ پہنچ گیا ہے دو سو پچیس سے اوپر کا تو یہ ہے
ڈالر کی ایک پرایس انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں جو ڈالر کی پرایس کے اندر فرق رہتا
تھا وہ ایک روپے ڈیڑھ روپے دو روپے آٹھ آنے اتنا ہی رہتا تھا اس سے زیادہ نہیں
ہوتا تھا. اب ڈالر کے مقابلے میں تمام ممالک اپنی اپنی کرنسی کو مستحکم کرتے ہیں.
یعنی اپنی اپنی کرنسی کا جو ویلیو ہے. اس کو تولنے کا جو طریقہ ہے. وہ ڈالر ہے یا
سونا ہے دنیا میں دو ایسی چیزیں ہیں جن کے ساتھ آپ اپنے پیسے کی ویلیو چیک کر سکتے
ہیں۔ پہلی چیز تو ڈالر ہے کیونکہ دنیا کی سب سے تگڑی کرنسی ہے اس کے ساتھ آپ
موازنہ کرتے ہیں آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے پیسے کی اس وقت ویلیو کیا ہے اور
دوسری ایک چیز ہے یہ تو نوٹ ہے نا یہ تو امریکہ چھاپتا ہے دوسری جو چیز ہے وہ سونا
ہے اور یہ سب سے بہتر فارمولا ہے اور سب سے زیادہ آزمودہ فارمولا بھی ہے یعنی اگر
دنیا کے اندر کوئی ملک دھوکا کرنا چاہے اور اپنی کرنسی کو جان بوجھ کر ڈالر کے
مقابلے میں مضبوط کرنا چاہے مصنوعی طریقے سے تو پھر سونے کی قیمت یہ تعین کر دیتی
ہے کہ ایکچولی اس کی کرنسی کی اوقات ہے کیا اب میں آپ کو دکھاتا ہوں, ایک سادہ
فارمولا, ایک تولہ سونا مارکیٹ میں کتنے ڈالر کا ہے? چوبیس کیرٹ کا ایک تولہ سونا
امریکی مارکیٹ کے اندر یا اوپن دنیا کی مارکیٹ کے اندر سات سو ڈالر کا ہے. یعنی چھ
سو ننانوے اشاریہ نو چھ ڈالر لگ بھگ سات سو ڈالر بن جاتے ہیں. ایک تولہ سونا. سات
سو امریکی ڈالرز کا ہے ایک تولہ سونا پاکستانی روپوں میں کتنے کا ہے آج کے ریٹ میں
میرے سامنے یہ کھلا ہوا ہے ویب سائٹ اور یہ بتا رہا ہے کہ آج کے ریٹ میں ایک لاکھ
تراسی ہزار سات سو روپے کا ایک تولہ سونا ہے یہی ایک تولہ سونا اگر آپ ڈالرز میں
خریدیں گے تو آپ کو ملے گا. سات سو ڈالرز میں اور اگر آپ روپوں میں خریدیں گے تو
آپ کو ملے گا. ایک لاکھ تراسی ہزار سات سو روپوں میں اب ذرا ایک لاکھ تراسی ہزار
سات سو روپوں کو آپ سات سو ڈالر کے اوپر ڈیوایڈ کر دیں گے تو ڈالر کی وہ پرایس نکل
آئے گی جو سونے کے مطابق ہے یعنی سونا ایک ایسی چیز ہے جو ڈالر اور آپ کی کرنسی کی
اصل ویلیو آپ کو بتائے گا تو جب آپ ایک لاکھ تراسی ہزار سات سو کو ڈیوایڈ کرتے ہیں
سیون ہینڈرڈ پہ تو ایکچول جو آپ کی کرنسی کی پرایس نکلتی ہے جو پاکستانی روپے کی
اصل قدر ہے ڈالر کے مقابلے میں اس وقت وہ دو سو باسٹھ اعشاریہ چار تین روپے ہے
یعنی ایک ڈالر کی اصل قیمت دو سو پچیس چھبیس ستائیس روپے نہیں ہے جو ڈار صاحب نے
زبردستی روک کر رکھی ہوئی ہے اس کی اصل جو پرایس ہے وہ دو سو باسٹھ اعشاریہ چار
تین روپے یہ ہے وہ دو نمبری جو ڈار صاحب اس قوم کے ساتھ کر رہے ہیں اب آپ اندازہ
کر لیں کہ اضافی پیسہ یہ اتنا فرق جو ہے ڈالر کی پرایس میں اور جب یہ اس طرح کی
حرکتیں ڈار صاحب کر رہے ہیں تو اس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر اور زیادہ مہنگا
ہو رہا ہے. لوگ ڈرے ہوئے ہیں. اب دو سو پینسٹھ سے دو سو ستر روپے کا بھی ڈالر ملتا
ہے. اور یہ مزید بڑھتا چلا جائے گا. ڈار صاحب کی ان حرکتوں کی وجہ سے. تو میں نے
آپ کو سادہ فارمولے کے ذریعے سے ثابت کیا ہے اور ساینٹیفیکلی ثابت کیا ہے کہ ڈار
صاحب غلط بیانی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے جو ریزروز ہیں ان کے اوپر اس وقت چار
اعشاریہ پانچ ارب ڈالر اس کے اندر باقی ہیں کچھ پیسہ ہمیں چائنا کا بھی دینا ہے تو
یہ مزید پیسے آنے والے وقت میں کم ہو جائیں گے اور یہ چار ارب ڈالر سے بھی نیچے
جانے کا خدشہ ہے لیکن ڈار صاحب بضد ہیں کہ نہیں اتنے پیسے نہیں ہیں ہمارے پاس دس
ارب ڈالرز ہیں ایکچولی ڈار صاحب یہ کیوں کہہ رہے ہیں پاکستان کے جو زرمبادلہ کے
کسی بھی ملک کے ذخائر ہوتے ہیں وہ اس کے نیشنل بینک کے پاس ہوتے ہیں۔ جو اس کے
مالیاتی نظام کو جو بینک کنٹرول کرتا ہے یعنی پاکستان میں اسٹیٹ بینک کے پاس جو
پیسہ پڑا ہوا ہے وہ ایکچولی حکومت پاکستان کی ملکیت ہے پاکستان کی ریاست کی ملکیت
ہے اور وہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جو پیسہ کمرشل بینکوں میں پڑا ہوا
ہوتا ہے یا صارفین کے ڈالرز پڑے ہوئے ہوتے ہیں ان کی ایک ورتھ تو ہوتی ہے کہ اتنے
ڈالر اس ملک میں پڑے ہوئے ہیں یا اتنا پیسہ اس ملک میں پڑا ہوا ہے لیکن وہ حکومت
کا نہیں ہوتا وہ لوگوں کا ہوتا ہے تو ڈار صاحب نے وہ پیسہ بھی شامل کر کے کہہ دیا
جی ہمارے پاس چار ارب ڈالر نہیں ہے ہمارے پاس دس ارب ڈالر ہے تو یہ ایک اور طرح کا
فراڈ کرنے کی اسحاق ڈار صاحب نے کوشش کی ہے ماضی میں انہوں نے اس طرح کی ایک حرکت
کی تھی اس کے بعد سے لے کر اب تک پاکستانیوں کو اعتبار ہی نہیں ہوتا جب ایٹمی
دھماکے انڈیا نے کیے تو انہوں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا لیکن جب پاکستان نے ایٹمی
دھماکے کیے تو ڈار صاحب نے اس کی آڑ کے اندر سارے لوگوں کے پیسے جو ہیں وہ ڈالر
اکاؤنٹ جتنے بھی تھے وہ سارے سیلز کر دیے تھے اور لوگ اس کے بعد بڑے لمبے عرصے تک
جو ہے وہ ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے رہے تو بعد میں روپوں کے اندر وہ پیسے دیے اور
لوگوں کا نقصان بھی کیا تو ابھی ایسا لگتا ہے کہ اسی طرح کا کوئی گندا تجربہ اسحاق
ڈار صاحب دوبارہ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ ڈالر کی جو اصل
پرایس ہے آگے آ جائے زرمبادلہ کے جو ذخائر ہیں پاکستان کے وہ ایک ماہ سے بھی کم
عرصے کے درآمدی بل کے برابر رہ گئے ہیں اچھا ایک خبر اور بھی آئی ہے میں اس خبر کو
کنفرم نہیں کر سکتا لیکن علی خضر صاحب ہیں۔ اور یہ ایک جرنلسٹ ہیں۔ ان کا اکاؤنٹ
موجود ہے اور انہوں نے رپورٹ کیا ہے کہ پینسٹھ گاڑیاں جو بہت قیمتی گاڑیاں ہیں ان
کا ایک بیچ کنفرم کر دیا گیا اور ان کے لیے ایل سی کھول دی گئی ہے جبکہ پینتالیس
کی جو ہے وہ اوپن کر دی گئی ہے. بیس کی ابھی اوپن کر دی جائے گی. اور سو سے زیادہ
گاڑیوں کی یہ اوپن کی جائے گی. پاکستان کے اندر. یعنی امپورٹ کاسٹ وہ بتا رہے ہیں.
یورو کے اندر دو لاکھ چھبیس ہزار یوروز کی ہے، ریٹیل پرایس از اراونڈ پاکستانی
روپیز پانچ کروڑ اور یہ جو گاڑیاں بوک کی گئی ہیں وہ ایک سو پچاس سے دو سو کے قریب
ہیں اب آپ اندازہ کیجئے کہ اس ملک کے اندر جہاں پہ آٹا لانے کے لیے مصیبت بنی ہوئی
ہے سویا بین لانے کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے. کھانے کا تیل لانے کے لیے مصیبت بنی
ہوئی ہے. ادویات کی شارٹیج ہو رہی ہے. آپریشن کا سامان لانے کے لیے مصیبت بنی ہوئی
ہے. انڈسٹری بند ہو رہی ہے. وہاں پہ یہ اپنے طاقتور اور بڑے لوگوں کے لیے اگر
گاڑیاں امپورٹ کرنے کی اجازت دیں گے. تو یہ انتہائی ان فورچونیٹ ہے. یہ علی خضر
صاحب جو ایک جرنالسٹ ہیں. انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے. اب دیکھتے ہیں گورنمنٹ اس کا
جواب کیا دیتی ہے. میرے خیال میں اب یہ خبر غلط ہونی چاہیے دوسری جانب ایک اور جو
عجیب خبر آئی ہے وہ اس میں یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تندور غیر معینہ
مدت کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آٹا چند ماہ
قبل پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں 55 سے 60 روپے میں فروخت ہوا کرتا تھا وہ اب
150 سے 160 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے جس کی وجہ سے نیچے زندگی بسر کرنے والے
عوام پریشان ہیں۔ غربت کی لکیر اس کے متحمل نہیں ہیں۔ اس لیے خوراک کا حصول ناممکن
ہوتا جا رہا ہے۔
اور بلوچستان میں بڑا
بحران ہے، یہ خبر ایکسپریس نے دی ہے۔ نیوز کے مطابق بلوچستان میں گندم کا ذخیرہ
ختم ہو گیا ہے۔ اور آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ بلوچستان میں گندم کے
بحران پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خوراک زمرک اچکزئی نے کہا کہ گندم کا کوئی
ذخیرہ نہیں بچا۔ بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ گندم کی دو لاکھ بوریوں میں سے دس
ہزار بوریاں موصول ہو چکی ہیں۔ وفاقی حکومت ان کے ساتھ یہی کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ
پنجاب سے چھ لاکھ بوری گندم فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ
پنجاب کے اندر بھی گندم کم ہے۔ سندھ میں گندم بھی کم ہے۔ لرز رہے ہیں
آٹے کے لیے گندم کے لیے اور گوادر میں بھی ایک
عجیب صورتحال ہے تو یہ امپورٹڈ حکومت کا تجربہ پاکستان کو بھاری پڑے گا اس کا تو
سب کو اندازہ تھا لیکن اتنا بھاری پڑے گا ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا اب تک کے لیے
اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا ,اللہ حافظ ۔۔
0 Comments