اگلا منصوبہ کون سا؟ جنیوا میں مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنماؤں کی اہم ملاقات
گلگت سے گوادر تک امپورٹڈ حکومت کی ڈھٹائی
روٹی 35 نان 40، سہولتکاروں کا شکریہ
جنیوا میں کیا کھچڑی بن رہی ہے؟
عمران ریاض خان کا خصوصی تجزیہ
پاکستان
کا جو سب سے بلند علاقہ ہے یعنی پاکستان کا ایک کارنر گلگت بلتستان یہ بہت ٹاپ کا
ایریا ہے پاکستان کا اور جو پاکستان کا بالکل ڈاؤن پہ نیچے ایریا ہے وہ گوادر ہے
گوادر کی بندرگاہ اور بالکل سمندر کے کنارے اس کے بیچ میں پورا پاکستان واقع ہے.
اب ان دونوں جگہوں کے اندر سے اطلاعات اچھی نہیں آرہی. جو گوادر سے اطلاع آرہی ہے
کہ وہاں پہ جو حق دور تحریک ہے. انہوں نے بڑی کوشش کی اپنا حق مانگنے کی. اور وہ
بار بار احتجاج کر رہے تھے. ان کے کچھ مطالبات جائز بھی ہیں کچھ مطالبات کے اوپر
آپ بات چیت کر سکتے ہیں مذاکرات کر سکتے ہیں۔
ایکچولی وہاں پہ ایک بڑا اور جدید شہر بسانا
چاہتے ہیں۔ اور بین الاقوامی سرمایہ کار بھی آنا چاہتے ہیں گوادر کو ایک بہت بڑی
آپرچونیٹی کے طور پہ لیا جا رہا ہے اور اس کے لیے وہاں کی جو مقامی آبادی ہے جن کا
زیادہ تر روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے ان کو ایک مخصوص علاقے سے اٹھا کر کسی اور
ایریا میں بھیجنے کا پلان ہے ایکچولی جو میگا پلان ہے وہ تو یہی ہے اور یہ فیوچر
کے اندر کرنے کی کوشش کی جائے گی دنیا کے کئی شہروں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے کہ
وہاں کے جو مقامی باشندے ہیں ان کو وہ جگہ چھوڑنی پڑتی ہے اور اس سے بہتر کسی جگہ
پہ ان کو شفٹ کیا جاتا ہے تو یہاں پہ ابھی تک کوئی بات بنتی ہوئی دکھائی نہیں دے
رہی اور گوادر کے جو لوگ ہیں وہ اپنا حق مانگ رہے ہیں. اور مختلف قسم کے ان کے
مطالبات ہیں
ان میں بعض مطالبات بڑے جائز ہیں. لیکن بجائے اس
کے کہ ان کو انگیج کیا جائے. ان کے ساتھ بات کی جائے. وہ بار بار احتجاج کرتے ہیں.
بہت بڑی تعداد میں آتے ہیں. خواتین بھی آتی ہیں حضرات بھی آتے ہیں اور وہ وہاں پہ
دھرنا دے کر بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے بار بار دھرنا دیا ہے لیکن ریاست ان کے ساتھ
صحیح طرح ڈیل نہیں کر پا رہی اور اس کے بعد اب کچھ پرتشدد قسم کی ویڈیوز اور
تصاویر سامنے آ رہی ہیں۔ جن میں بچوں کے اوپر بھی ٹراچر ہو رہا ہے ان کو گرفتار
بھی کیا جا رہا ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ذریعے سے لوگوں کو نہ صرف گرفتار کیا
جا رہا ہے بلکہ ان کے اوپر تشدد ہو رہا ہے تو یہ امپورٹڈ حکومت بالکل ناکام رہی ہے
گوادر کے شہریوں کو انگیج کرنے میں, وہاں کے لوگوں کی بات سننے میں. اور وہاں کے
لوگوں کو ان کا حق دینے میں یا ان کو قائل کرنے میں, اگر تو ان لوگوں کے کچھ
مطالبات جائز نہیں ہیں. تو اس کے اوپر بات چیت ہو سکتی ہے
ان کو قائل کیا جا سکتا ہے لیکن ہر چیز کو ڈنڈے
سے اس ملک میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے دوسری جانب گلگت
بلتستان میں صورت حال بہت خراب ہوگئی ہے وہاں پہ بہت بڑی تعداد میں لوگ آٹھ دن سے
احتجاج کر رہے ہیں اور لگاتار احتجاج کر رہے ہیں. ان کے کچھ مطالبات اور ان کے کچھ
تحفظات ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں. ایک تو وہ کہہ رہے ہیں کہ لینڈ
ریفارمز کے معاملے کے اوپر ان کے تحفظات ہیں. وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی زمینیں
ہتھیائی جا رہی ہیں. اور یہ ایک تاریخی نوعیت کا احتجاج ہو رہا ہے. اگر آپ اس کے
مناظر دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گے جتنی بڑی تعداد کے اندر لوگ اس میں شامل ہو
رہے ہیں یہ تقریبا تمام پولیٹیکل پارٹیز کے لوگ ہیں اور یہ حکومت کے خلاف احتجاج
کر رہے ہیں ایک ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کی زمینیں ہتھیائی جا رہی ہیں دوسرا یہ
کہتے ہیں کہ ٹیکس ان کے اوپر لگائے جا رہے ہیں جو زیادتی ہے. اور جس طرح کے ٹیکس
لگائے جا رہے ہیں. لوگوں کے اوپر اضافی بوجھ ڈالا جا رہا ہے
نمبر تین وہاں پہ آٹے کی, گندم کی قلت پیدا ہو
گئی ہے. اور لوگوں کو دستیاب نہیں ہے. قیمت مارکیٹ میں لگاتار بڑھتی چلی جا رہی ہے
اور چوتھا ان کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اتنے شدید موسم کے باوجود وہاں پہ
لوڈشیڈنگ ہے بلیک آؤٹ ہے بالکل بہت سارے علاقوں میں اور بجلی بالکل نہیں آرہی یہ
وہ علاقہ ہے جہاں سے پانی پورے پاکستان میں نیچے اترتا ہے فلو کے ساتھ یہاں پہ
بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی لگائے جاتے ہیں۔ اور یہ پاکستان کو بہت ڈیلیور کرتا
ہے یہ علاقہ اور پاکستان کا ایک بہترین خوبصورت علاقہ ہے
اور پاکستان کو بہت سارے فائدے ہیں ان کی کچھ
معدنیات کے معاملات بھی ہیں وہ یہ کہتے ہیں ہماری معدنیات ہیں یہ ہمارے لوگوں کا
اس کے اوپر حق ہے لیکن ہم سے یہ حق بھی چھینا جا رہا ہے اس قسم کی باتیں گلگت
بلتستان میں ہو رہی ہیں اب یہ لوگ ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام سے جو
وفاقی حکومت ہے وہ کوئی بدلہ لے رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این یا
فضل الرحمن یہ سارے وہاں پہ الیکشن ہار گئے تھے اور عمران خان صاحب نے گلگت
بلتستان کا الیکشن جیت لیا تھا آپ کو میں یاد دلاؤں تو یہ تصویر اب مریم نواز
صاحبہ کی دیکھ لیں آج کل وہ بیمار ہیں اللہ تعالی ان کو صحت عطا فرمائے. لیکن بڑے
عجیب طریقے سے سارے کے سارے جنیوا میں اکٹھے ہو گئے ہیں.
نواز شریف وہاں پہنچ گئے. مریم نواز وہاں پہنچ
گئیں. اب مقصد بتایا کچھ اور جا رہا ہے کہ مریم نواز صاحبہ بیمار ہیں. ان کا کوئی
سرجری ہوئی ہے چھوٹی موٹی گلے کی. اللہ تعالی ان کو صحت عطا فرمائے اگر یہ بات
ایسے ہے تو لیکن کچھ تجزیہ کاروں کو اور خبر دینے والوں کا یہ کہنا ہے کہ وہاں پہ
اکٹھے ہونے کا مقصد عالمی سطح کے اوپر کچھ عالمی طاقتوں کو راضی کرنا ہے کہ عمران
خان صاحب کو روکنے کے لیے ان کی مدد کی جائے اور پی ڈی ایم جو ہے اس کو سہولت
فراہم کی جائے
پاکستان کی تمام پولیٹیکل پارٹیز ان کا ووٹ اپنے
پلڑے میں ڈالنا چاہتی ہیں یعنی اس قسم کا کوئی گیم وہاں پہ تیار ہو رہا ہے دیکھتے
ہیں کیا ہوتا ہے کیونکہ شیریں مزاری صاحبہ نے کہا تھا کہ امریکہ کو اڈے دینے کا
فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کو شک ہے اس بات کا کہ یہ جو دہشت گردی بڑھتی چلی جا رہی
ہے اور جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں یہ غالبا امریکہ کو اڈے دینے کی تیاری ہے اور
اس میں آپ کو پتہ ہے جب بھی امریکہ کسی ایسی گیم میں کسی ملک میں جاتا ہے تو وہاں
پہ ڈالرز پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں یعنی ایک آسان نسخہ. ڈالر کا کمانے کا ہمارے پاس
یہ بھی رہا ہے ہمیشہ سے کہ آپ امریکہ کی کسی جنگ کا حصہ بن جائیں. تو بہت سارے
ڈالرز آپ کے ملک میں آ جاتے ہیں
اب مریم نواز صاحبہ آپ کو یاد ہے یہاں پہ گئی
تھی حلیمہ سلطان والے کپڑے پہن کر اور بلاول نے بھی یہاں پہ بڑی کمپین کی تھی اور
بڑے دعوے کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف وہاں پہ الیکشن جیت گئی تھی۔ اور
انہوں نے وہاں پہ حکومت بنا لی تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو
نعرے تو بہت انہوں نے لگائے تھے لیکن اب ان سے کوئی بدلہ لیا جا رہا ہے اور لوگ اس
سے تنگ آکر احتجاج کر رہے ہیں تمام دکانیں بند ہیں بازار بند ہیں ٹرانسپورٹ وہاں
پہ بند ہے سڑکیں بند کر دی ہیں لوگوں نے اور اس سردی کے اندر ایک ہفتے سے زیادہ ہو
گیا ہے
لوگ روزانہ احتجاج کر رہے ہیں اچھا گلگت بلتستان
کے لوگوں کے بارے میں آپ کو بتاؤں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر
پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے مگر اس وقت پاکستان کی وفاقی حکومت ان کی بات
سننے کو تیار نہیں ہے گلگت بلتستان کے کچھ لوگ جو ہیں وہ صوبائی حکومت سے بھی گلے
اور شکوے کر رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے ہم سے
کوئی بدلہ لیا ہے اور ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ہمارا جو بجٹ ہے اس
کے اندر ہی کٹ لگا دیا ہے حتی کہ یہاں تک ہے کہ گندم کا جو ایک کوٹہ ہے جس کو
بڑھنا چاہیے تھا گلگت بلتستان کے لیے یہ پہلے سولہ لاکھ بوریوں کا کوٹہ تھا اس کو
کم کر کے اب چودہ لاکھ بوریاں کر دیا گیا ہے اور یہ پیسہ ہمیں اپنے سے خرچ کرنا پڑ
رہا ہے اور ہم کس طرح اس کو مینج کریں کیونکہ گلگت بلتستان کا جو ایک ایریا ہے وہ
غریب ہے آپ کو پتہ ہے اور وہاں پہ لوگوں کا انحصار جو ہے وہ بہت مشکل سے ان کا گزر
بسر ہوتا ہے
اور
ان کے وسائل بڑے محدود ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم مینج
کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لوگوں کا غم و غصہ لگاتار بڑھتا چلا جا رہا ہے تو آپ
اب یہ دیکھیں گلگت بلتستان ہو یا گوادر ہو دونوں جگہ کے اندر وفاقی حکومت ناکام ہے
اور سندھ کے اندر اس وقت سیلاب آیا ہوا ہے حالات بہت خراب ہیں اور اس کے بعد اب
بھوک پیدا ہو رہی ہے مہنگائی کی وجہ سے لوگ پہلے ہی پس گئے ہیں آٹے کی قطاروں میں
لوگ لگے ہوئے ہیں میں ایک بزرگ شخص کو دیکھ رہا تھا وہ ہاتھوں میں پیسے پکڑ کے
منتیں کر رہا تھا ٹرک والے کی کہ مجھے آٹا دے دو پہلے اور اسی طرح باہر بہت سارے
لوگ ساتھ کھڑے تھے لوگ پیسہ لے کر ہاتھ میں کھڑے ہیں۔
اور کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو سستا آٹا مل جائے
ٹرک وہاں پہ لگائے گئے ہیں لیکن آٹا کم ہے لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں لوگوں کا
مذاق اڑایا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ پاکستان میں رجیم چینج آپریشن کے ثمرات کے طور
پہ ہے یعنی جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا لیکن یہ رجیم چینج
آپریشن کے ثمرات ہیں اور یہ کیا ہے دیکھیں چالیس روپے والا پیاز دو سو پچاس روپے
کلو کا مل رہا ہے جو مرغی ہے وہ اب جو پولٹری والی ایسوسی ایشن ہے وہ یہ کہہ رہے
ہیں کہ آنے والے دنوں میں مرغی ایک ہزار روپے کلو کے لیے ہو سکتی ہے کیونکہ فیڈ کے
لیے جو را میٹیریل ہے اس کو امپورٹ کر دے گی اسحاق ڈار صاحب اجازت نہیں دے رہے اور
بڑی ہوشیاری سے انہوں نے ڈالر کو کنٹرول کر کے رکھا ہوا ہے تو یہ چیزیں مزید مہنگی
ہوتی چلی جائیں گی رمضان المبارک میں کیسے لوگوں کا گزارا ہو گا ہر رمضان میں
لوگوں کو ایک پیکج دیا جاتا ہے.
کیا اس مرتبہ یہ حکومت دے سکے گی شہباز شریف اور
بلاول نے دورے شروع کر دیے ہیں فٹا فٹ. سیلاب زدہ علاقوں کے. بالکل بھولے ہوئے تھے
یا ان علاقوں کو کئی مہینوں تک نہیں گئے تھے لیکن اب اچانک یہ گئے ہیں تاکہ جنیوا
میں جائیں اور ڈونر کانفرنس کریں اور وہاں سے کچھ پیسہ اکٹھا کریں نواز شریف بھی
وہاں پہ گئے ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے اور خدانخواستہ
اگر یہ کھچڑی پک گئی تو آنے والے کئی دہائیوں تک پاکستان کو دوبارہ قیمت چکانی نہ
پڑ جائے. اس کے خدشات موجود ہیں. دیکھیے پاکستان میں ڈرون حملوں کے ساتھ ہمیشہ
ڈالرز آتے ہیں. غیر ملکی اڈوں کے ساتھ ہمیشہ ڈالرز آتے ہیں. دوسروں کی جنگ لڑنے کے
ہمیشہ ڈالرز ملتے ہیں لیکن اس میں ہمارے پاکستانیوں کا اور پاکستان کا بہت نقصان
ہوتا ہے. اور لگاتار ہم یہ نقصان اٹھاتے چلے آئے ہیں بڑے لمبے عرصے سے. اور اب
حالات یہ ہیں کہ پاکستان کے اثاثے بہت تیزی سے بیچے جا رہے ہیں
شاہد خاقان عباسی صاحب نے ایک بات کی انہوں نے
کہا جی جنرل باجوہ کو توسیع دیتے وقت قانون میں ترمیم کرنا بہت بڑی غلطی تھی اب
ایک ایک کر کے اپنی ساری غلطیاں یہ تسلیم کریں گے اور فواد چوہدری صاحب کہہ رہے
ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت برطرف کرنے میں جنرل باجوہ سمیت چند جرنیلوں نے کردار ادا
کیا ہے اب ان کا یہ ماننا ہے کہ مزید بھی کچھ جنرلز تھے فوج کے جنہوں نے اس کے
اندر رول پلے کیا ہماری حکومت کو ہٹانے کی سازش میں چند فوجی جرنیل بھی شامل تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو
ہٹانے میں واقعی بہت فعال کردار ادا کیا۔ حتی کہ سابق آرمی چیف بھی ہماری حکومت کو
گھر بھیجنے میں سرگرم عمل رہے۔ اب مصطفی نواز کھوکھر صاحب نے تو ساری پول کھول دیے
ہیں پیچھے رہ ہی کچھ نہیں گیا ہے سابق وزیر اطلاعات نے دعوی کیا فواد چوہدری نے کہ
اسٹیبلشمنٹ گزشتہ حکومت کے دوران پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں کو بھی
کنٹرول کر رہی تھی اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کے حوالے سے انہوں نے
کہا کہ موجودہ فوجی قیادت نے ابھی ابھی عہدہ سنبھالا ہے. ہم امید کر رہے ہیں کہ
پالیسیوں میں تبدیلی آئے گی. لیکن سابق آرمی چیف کا یہ دعوی سچ نہیں تھا. ہم نے ان
سے مدد مانگی تھی۔
ہم نے صرف انہیں غیر جانب دار رہنے کے لیے کہا
تھا ان سے مدد نہیں مانگی تھی. مونس الہی صاحب نے ایک ٹویٹ کیا ہے میرے ایک دوست
کو دو کالے ویگو میں کچھ لوگوں نے لاہور میں اٹھا لیا ایف آئی اے والے قسمیں کھاتے
ہیں ہم نے نہیں اٹھایا تھا اب یہ کچھ دن بعد اچانک ایف آئی اے کو پہنچا دیا جائے
گا اور ان کو مجبور کیا جائے گا کہ پرچہ دو آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی ہم نے پی ڈی
ایم کے ساتھ نہیں ملنا۔ اٹھانا تو ایسے نہیں چاہیے یہ تو قانون کے مطابق کاروائی
ہونی چاہیے۔ ایف آئی اے بلا لے بلا کے انکوائری کر لے۔
نیب بلا لے بلا کے انکوائری کر لے۔ لیکن اس شخص
کو اٹھایا گیا ہے میرے خیال میں دباؤ بڑھانے کے لیے کیونکہ مونس الہی اس وقت چاہتے
ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی طرف نہ جائیں اور یہ جو بھی ہو رہا ہے یہ غلط ہو رہا ہے
لیکن یہ مونس الہی کا کہنا ٹھیک ہے کہ ہم پی ڈی ایم میں نہیں جانا چاہتے تو وہ
ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ ان کو مجبور کیا جائے گا اس بندے کے ذریعے سے کہ وہ پی ڈی ایم
کے اندر چلے جائیں۔ تو یہ مونس الہی صاحب کا بھی میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے
معاملہ جو ہے دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے فاینلی یہ فیصلہ کیا ہے کہ اعتماد
کا ووٹ لینے کے بعد انتخابات کے لیے عوام کے پاس جائیں گے اور جانا پڑے گا۔
عمران
خان صاحب کی زیر صدارت سیاسی صورتحال پر اہم ترین اجلاس کل ہوا ہے جس میں وزیر
اعلی کے لیے اعتماد کا ووٹ گیارہ جنوری کے بعد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اچھا اس
میں اب کچھ چیزیں اور سامنے آ رہی ہیں۔ عمران خان صاحب کو یہ بتایا گیا ہے کہ
عدالت نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ آپ جائیں اور جا کر اعتماد کا ووٹ لے کر آئیں
یا تو عدالت کہے کہ جائیں جا کے اعتماد کا ووٹ لے کر آئیں تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن
جو گورنر کا حکم تھا وہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اس کی بنیاد کے اوپر
گورنر کے خلاف کارروائی کروانی چاہیے۔
تو ریکارڈ کو سیدھا رکھنے کے لیے اگر ہم پہلے ہی
اعتماد کا ووٹ لے لیں گے تو عدالت میں جا کے معاملہ ختم ہو جائے گا تو ذرا عدالت
کے کورٹ میں اس بال کو رہنے دیں اور دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اگر
اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تو لے لیں گے یعنی وزراء نے عمران خان صاحب کو یقین دلایا
اور پارٹی کے عام لوگوں نے کہ ہمارے پاس بندے پورے ہیں بے شک ہمارے بندوں سے رابطے
کیے جا رہے ہیں بے شک ہمارے بندوں کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن آزاد لوگ
بھی ہمارے ساتھ مل گئے ہیں کچھ دیگر لوگ بھی ہمیں سپورٹ کر رہے ہیں اگر ق لیگ اپنے
بندے کھڑے رکھتی ہے تو ہمارے پاس بندے اپنے پورے ہیں۔
اور ہم بڑے آرام سے اپنی اکثریت ثابت کر کر سکتے
ہیں اسمبلی کے اندر یہ عمران خان صاحب کے لوگوں نے کہا ہے حالانکہ اسٹیبلشمنٹ ایک
طرف سے دباؤ ڈال رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ اتنے آرام سے تو رائیگاں نہیں جاتا
ان کے دباؤ کا ایک اگر کوئی مقصد ہو تو وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے ایسا نہیں ہے کہ
نہ ہو۔ دوسری جانب سندھ سے بڑے عجیب مناظر آ رہے ہیں۔ کراچی میں، لانڈی میں ہم نے
دیکھا، حیدرآباد میں دیکھا، انٹیریئر سندھ نے دیکھا۔ جہاں پہ پاکستان تحریک انصاف
کا کیمپ لگ رہا ہے لوگوں کا ایسے رش ہے جیسے کوئی مفت میں چیز بٹ رہی ہے لوگ اپنے
آئی ڈی کارڈز لے کر اپنا ریکارڈ لے کر فورا پہنچ جاتے ہیں وہاں پہ اور جا کر کہتے
ہیں پاکستان تحریک انصاف کی میمیبرشپ دو۔
جتنی بڑی تعداد میں لوگ پاکستان تحریک انصاف کے
ورکر بن رہے ہیں اس کے ممبر بن رہے ہیں اس قسم کی ممبر سازی تو ہم نے ہوتی ہوئی اس
سے پہلے نہیں دیکھی۔ یعنی لوگوں کا رش اور لوگ جس طرح سے رش ٹوٹ پڑا لوگوں کا یہ
بتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کو جتنا مرضی اکٹھا کیا جائے اب کچھ رپورٹیں آ رہی ہیں
کہ ایم کیو ایم کو باقاعدہ اکٹھا کیا جا رہا ہے میں نے عمران اسماعیل صاحب سے
پوچھا گزشتہ رات تو انہوں نے مجھے صاف کہا انہوں نے کہا یہ اکٹھے نہیں ہو رہے ان
کو اکٹھا کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کراچی کے شہریوں نے حیدر آباد کے شہریوں
نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ ایم کیو ایم سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔
اگر جوڑ لو شور لو ہی پھیر دے اور بکسے گھر سے
بھر کر لے آئیں تو پھر تو کچھ ہو سکتا ہے ورنہ بڑے لمبے مارجن سے پھینٹی لگنے لگی
اگلے الیکشن میں ایم کیو ایم کو بھی پیپلز پارٹی کو بھی اور انٹیریئر سندھ کے اندر
جو ہے عمران خان صاحب کئی دفعہ دعویٰ کر چکے ہیں اور ان کی پارٹی کے دیگر لوگ بھی
یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انٹیریئر سندھ کے اندر اس مرتبہ کایا پلٹ جائے اور پاکستان
تحریک انصاف کے امیدوار بہت بڑی کامیابی حاصل کریں گے کیونکہ سیلاب کے دوران بہت
بڑی بڑی زیادتیاں ہوئی ہیں سندھ کے لوگوں کے ساتھ ایک اور خبر ہے جی متحدہ نام
روٹی ایسوسیشن نے احتجاج کی کال دے دی ہے اور انہوں نے کہا کہ اس کے نرخ میں اضافہ
کیا جائے اور اگر نہ کیا گیا تو پھر بارہ جنوری کو ہم احتجاج کی کال دے دیں گے اور
انہوں نے یہ کہا ہے کہ آئے روز آٹے اور فاین آٹے کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے روٹی
پندرہ اور نان پچیس روپے میں فروخت اب ہم نہیں کر سکتے یعنی نہ ہم پندرہ روپے کی
روٹی جب دس روپے کی روٹی تھی اور پندرہ کا نان تھا تو بلاول کو پریشانیاں تھی۔
بلکہ اس سے بھی کم قیمت کے اندر یہ لوگ چھلانگیں
مار رہے تھے مریم نواز بلاول سارے شہباز شریف اور اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پندرہ
روپے کی روٹی اور پچیس روپے کا نان ہم نہیں فروخت کر سکتے موجودہ حالات میں روٹی
ہم پینتیس روپے کی دیں گے اور نان ہم چالیس روپے کا دیں گے اور اگر آپ چاہتے ہیں
کہ روٹی اور نان کو سستا کیا جائے تو پھر پاکستان کے اندر آٹے کو سستا کریں۔ یہ
حالت کر دی ہے انہوں نے پاکستان کی اور شرم نہیں آتی اور اب تک نہ ضد ٹوٹ رہی ہے
نہ انا نیچے جا رہی ہے پتہ نہیں اس ملک کو کہاں پہنچا کر انہوں نے دم لینا ہے اب
تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے ۔۔
اللہ حافظ ۔
0 Comments