اہم ڈیٹا لیک - اسکرپٹ کس نے لکھا؟ پی ٹی آئی کا بڑا مطالبہ۔ 


عمران ریاض خان کا خصوصی تجزیہ

تفصیلات


عمران خان صاحب نے ایک دعویٰ کیا ہے اسٹیبلشمنٹ کو لے کر وہ آپ کو اس وی لاگ میں بتاؤں گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ پنجاب کی حکومت نے عمران خان صاحب پہ قاتلانہ حملے کے حوالے سے ایک بڑا مطالبہ کر دیا ہے اور دوسری جانب ایک سیملایرٹی ہے جو سامنے آ رہی ہے یعنی ایک جیسا ہے ایسا لگتا ہے کہ سکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے جو پورا کا پورا گیم پیچھے سے گھوما رہا ہے. جو اس ملزم سے جڑے لوگوں کو بھی بتا رہا ہے کیا کہنا ہے? اور امپورٹڈ حکومت کو بھی بتا رہا ہے. کہ کیا کہنا ہے. وہ بھی ثبوت موجود ہیں اور اس کے علاوہ معیشت پہ بہت عجیب عجیب خبریں ہیں. پی ایم ایل این ایک پروپیگنڈا کر رہی ہے. اور ان کے اکاؤنٹس اس کو پھیلا رہے ہیں. میں نے آپ کو کل یہ بتایا تھا. اور خبردار کیا تھا کہ دو چیزوں پر پروپیگنڈا ہو گا. ایک عمران خان صاحب کو گولی نہیں لگی. یہ پروپیگنڈا کیا جائے گا اور دوسرا پروپیگنڈا یہ کیا جائے گا کہ پاکستان کی معیشت عمران خان نے ڈبوئے یہ کہا جائے گا بار بار اور کہتے رہیں گے اور ہم تو جناب سنبھالنے کے لیے آئے تھے اور اب خواہش کی جا رہی ہے کہ یہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے اس طرح کا پروپیگنڈا کیا جائے گا۔ تو اب ذرا آپ سنیے۔ باری باری یہ ساری خبریں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ کچھ اور خبریں بھی ہیں بہت امپورٹ نٹ کہ کیا پاکستان امریکہ کو اڈے دینے والا ہے پاکستان میں؟ کیا اس کی گراؤنڈ بنائی جا رہی ہے؟ یہ بھی آپ کو اس وی لاگ میں بتاتے ہیں لیکن سب سے پہلے عمران خان صاحب نے یہ کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ وزیراعلی پنجاب کے لیے جو اعتماد کا ووٹ ہم لینا چاہ رہے ہیں اس میں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نظر نہیں آرہی یہ عمران خان صاحب نے کہا اور جب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہ ہو تو پھر آپ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے بلکہ آپ کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے یہ عمران خان صاحب ایک مرتبہ تجربہ کر چکے ہیں بلکہ عثمان بزدار کے ساتھ بھی یہی ہو چکا ہے اور عمران خان صاحب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کس طریقے سے ناکام کرتی ہے یا کامیاب کرتی ہے کیونکہ وہ ان ساری صورتحال سے گزر چکے ہیں ماضی میں۔ ماضی میں ان کے اسٹیبلشمنٹ سے بہت اچھے تعلقات بھی رہے ہیں۔ اور برے تعلقات بھی بنے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کا جو ایک کردار جو نہیں ہونا چاہیے پاکستان کی سیاسی معاملات میں اور وہ ایک بدقسمتی سے ہے جس کی وجہ سے یہ ملک آگے نہیں بڑھ پا رہا تو عمران خان صاحب نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے لیے اعتماد کے ووٹ میں اسٹیبلشمنٹ ہمیں نیوٹرل نظر نہیں آ رہی اور وہ کورٹ رپورٹرز کے وفد سے بات چیت کر رہے تھے. اور انہوں نے کہا کہ گیارہ جنوری کو عدالت اگر فوری اعتماد کے ووٹ کا کہے. تو ہم تیار ہیں. اب پرویز الہی صاحب تو نہیں چاہتے کہ اعتماد کا ووٹ لیا جائے لیکن عدالت اگر کہے گی تو پھر ان کو لینا پڑے گا. یہاں پہ اسٹیبلشمنٹ کا دوبارہ ایک ٹیسٹ ہے کہ عدالت پرویز الہی صاحب کو ووٹ لینے کے لیے کہتی ہے یا نہیں کہتی میں اس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ لیکن چیزیں آپ کے سامنے آجائیں گی۔ عمران خان صاحب نے کہا کہ جنرل باجوہ کے بارے میں میری اپنی ایک رائے ہے اور ہم اپنی رائے دینے سے نہیں رکیں گے پرویز الہی صاحب کی اپنی رائے ہو سکتی ہے اب آ جائیں اس خبر کی طرف کہ پنجاب نے ایک مطالبہ کیا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان سے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وفاق تعاون نہیں کر رہا کیسے نہیں کر رہا وفاق سے جو جو ڈیٹا مانگا گیا ریکارڈ مانگا گیا انہوں نے نہیں دیا یعنی موبائل فون کے ریکارڈ اور جو جیو فینسنگ اور یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ وفاقی ایجنسیز کے پاس ہوتی ہیں۔ تو وفاقی جو ادارے ہیں وہ تعاون نہیں کر رہے۔ عمران خان صاحب کے خلاف جو حملہ ہوا اس میں تحقیقات جو ہو رہی ہیں اس میں تعاون نہیں کر رہے. تو پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ سے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے. اور یہ بات لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ وزراء سینئر وزیر ہیں۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ پاکستان کے مقبول ترین رہنما پر قاتلانہ حملے کے بعد اسے مذہبی رنگ دے دیا گیا۔ رانا ثناء اللہ، میاں جاوید لطیف، مریم نواز جیسے لوگوں نے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔ مذہبی رنگ دینے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ گھر میں دوسری بار جس نے سالن نہیں دیا وہ لیڈر بن گیا، یہ کیسا مذاق ہے، لیکن وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔  عدلیہ سے مودبانہ گزارش ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے. عمران خان کی دنیا میں بھی ایک پہچان ہے فورینزیک کے حوالے سے وفاقی ادارے تعاون نہیں کر رہے. جے آئی ٹی کو چیزیں فراہم نہیں کی جا رہیں. یہ انہوں نے کہا. اور یہ ایک مطالبہ سامنے آیا ہے. عمران خان صاحب کی پارٹی اور پنجاب حکومت کی جانب سے کیونکہ وفاقی حکومت تعاون نہیں کر رہی. اب کچھ عجیب چیزیں میں آپ کو بتاتا ہوں رانا ثناء اللہ صاحب نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے باتیں کیں اور پھر جو ملزم نوید کا وکیل ہے اس نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے باتیں کیں ایسا لگتا ہے کہ دونوں کو بولیٹ پوائنٹس کسی ایک ہی سکریپٹ رایٹر نے لکھ کر دیے تھے. یعنی بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ کوئی ایک ہی شخص ہے. یا ایک ہی جگہ ہے. یا ایک ہی مرکز ہے. جہاں پر بیٹھ کر. بولیٹ پوائنٹس لکھے گئے کہ یہ یہ یہ نکتے ہیں. ان کے اوپر بات کرنی ہے اور حیرت انگیز طور پہ ان کا سیکوینس بھی اسی طرح آ رہا ہے یعنی رانا ثناء اللہ صاحب جو بات کر رہے ہیں اسی سیکوینس میں وہی بات ملزم کا وکیل بھی کر رہا ہے اسی سیکوینس میں تو کوئی ایک دماغ ہے جو دونوں کو کنٹرول کر رہا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ کون ہے وہ دماغ ہو سکتا ہے وہ دماغ لندن میں ہو ہو سکتا ہے وہ دماغ پاکستان میں ہو پنڈی میں ہو اسلام آباد میں ہو لاہور میں ہو کہیں بھی ہو سکتا ہے لیکن ہے بڑا شاطر دماغ اس نے یہ جو ایک سکریپٹ لکھ کر دیا ہے وہ ایک جیسا سکریپٹ ہے جو دونوں کے پاس موجود ہے اور دونوں ایک جیسی باتیں کر رہے ہیں مثال کے طور پر دو چار چیزیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں گولی نہیں لگی دونوں کا پہلا موقف یہ آتا ہے اور پھر جے آئی ٹی کے اوپر موقف آتا ہے کہ جے آئی ٹی ٹھیک نہیں ہے دونوں کا موقف آتا ہے. پھر دونوں کا موقف آتا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت سے پہلے عمران خان کے پاس کیسے پہنچی حالانکہ عمران خان صاحب نے کہا کہ عدالت میں جمع کروائی ہے اور میں اس کی بنیاد پہ یہ بات کر رہا ہوں پھر عمران اسماعیل صاحب کے جو گولیاں لگنے کا واقعہ عمران اسماعیل صاحب نے بیان کیا دونوں نے سیم انداز کے اندر اس کے اوپر تنقید کرتے ہیں دونوں اور اس کے بعد جو دونوں اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ نوید اکیلا شوٹر تھا یہ جو حملہ آور ہے یہ اکیلا ہی تھا اور کوئی دوسرا نہیں تھا یعنی اسی سیکوینس کے ساتھ دونوں آتے ہیں جو سیکوینس رانا ثناء اللہ صاحب کا دکھائی دے رہا ہے وہی سیکوینس حملہ آور کے وکیل کا دکھائی دے رہا ہے اس کے پیچھے ایک ہی دماغ لگتا ہے جس نے یہ سارا کا سارا سکرپٹ بنایا ہوا ہے اب ایک اور چیز ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں کچھ لوگ ہیں جو ڈیفالٹ کی خواہش رکھتے ہیں دیکھیں ہم نے جب بھی کبھی ڈیفالٹ کی خبر کی بات کی ہمیشہ یہی کہا کہ خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا یا خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ ہو جائے گا ہم نہیں چاہتے کہ یہ ملک ڈیفالٹ ہو اور خواہشات سے ملک کبھی بھی ڈیفالٹ نہیں ہوتے ملک کرتوتوں سے ڈیفالٹ ہوتے ہیں یعنی امریکہ کی بہت خواہش ہے ہر یورپین کی خواہش ہے کہ چائنہ ڈیفالٹ ہو جائے نہیں ہوتا خواہشات سے تو نہیں ہوتا دنیا میں کروڑوں لوگ چاہتے ہیں کہ چائنہ ڈیفالٹ کر جائے نہیں ہوتا دنیا میں کروڑوں لوگ چاہتے ہیں ہر دوسرا امریکی اور یورپین چاہتا ہے کہ رشیا ڈیفالٹ ہو جائے نہیں ہوتا ڈیفالٹ ایران کے ڈیفالٹ کے لیے پوری دنیا چاہتی ہے ہو جائے نہیں ہو رہا بھئی ڈیفالٹ اسی طرح یعنی ہم چاہتے ہیں اگر کہ امریکہ ڈیفالٹ ہو جائے تو دنیا میں کروڑوں لوگ چاہتے ہیں ہو جائے کیا وہ ڈیفالٹ ہو جائے گا نہیں ہو گا ڈیفالٹ خواہشات سے نہیں ہوتے ملک ڈیفالٹ خبروں سے بھی نہیں ہوتے ملک ڈیفالٹ کرتوتوں سے اور حرکتوں سے ہوتے ہیں جو حرکتیں اور کرتوتیں پاکستان میں ہو رہی ہیں۔ اب امریکہ کے پاس تو پی ڈی ایم ہے نہیں۔ جو وہ ڈیفالٹ کریں۔ یا چائنہ کے بعد رشیا کے بعد بھی پی ڈی ایم کی سہولت میسر نہیں ہے کہ وہ ڈیفالٹ کے قریب پہنچ جائیں۔ تو بہرحال پاکستان کے اندر یہ کرتوتوں اور حرکتوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کی طرف ملک جا رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ یہ خواہشات کی وجہ سے کوئی ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ اور خواہش کے اوپر اور خواب کے اوپر یعنی اب یہ ملک کیسے چلا رہے ہیں؟ یعنی ان چیزوں کے اوپر باتیں کریں گے۔ بھئی آپ کی کرتوتیں اور حرکتیں آپ نے ٹھیک کرنی ہیں۔ میں چند چیزیں اور سامنے رکھ دیتا ہوں جب جب یہ ایسی باتیں کرتے ہیں مجھے مزید چیزیں مل جاتی ہیں بتانے کے لیے جتنے پاکستان کے ایکسپورٹرز ہیں وہ رو رہے ہیں وہ پریس کانفرنس کر کر کے کہہ رہے ہیں ہر دوسرے دن کہہ رہے ہیں آج میں نے کم سے کم چار پانچ ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں ایکسپورٹرز یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کی کمپینیز ہمارے ساتھ بات ہی نہیں کر رہیں وہ یہ کہتے ہے کہ آپ پانچ سو ڈالر دینے کی آپ کی اوقات نہیں رہی. آپ ایل سی کھول نہیں سکتے. پیسے آپ کے پاس ہیں. آپ پاکستان کے باہر ہے مینٹ نہیں کر سکتے. تو آپ الریڈی ڈیفالٹ کر چکے ہیں. ہم آپ کے ساتھ کیوں اگریمینٹس کریں. وہ کہہ رہے ہیں ہم ڈر کے مارے جن کے ساتھ سودے بازی کرنا چاہتے تھے جن کے ساتھ کام چلانا چاہتے تھے جن کے ساتھ بزنس ہم کر رہے تھے پوری دنیا میں ہم ان سے رابطہ نہیں کر رہے کہ ہماری بےعزتی ہوتی ہے ٹوینٹی فور چینل حکومت کا بڑا فیورٹ چینل ہے تو ٹوینٹی فور چینل کیا کہہ رہا ہے ذرا یہ بھی ہے آپ سنیے وہ کہہ رہا ہے کراچی میں حالیہ ایک ہفتے میں بیس کلو آٹے کا تھیلا چار سو روپے تک مزید مہنگا ہو گیا۔ یہ ادارہ شماریات کی رپورٹ ہے جس کو وہ رپورٹ کر رہا ہے ادارہ شماریات کی رپورٹ گورنمنٹ کا ادارہ ہے وہ یہ کہہ رہا ہے کہ کراچی میں ایک ہفتے میں بیس کلو آٹے کا تھیلا چار سو روپے مزید مہنگا ہوگیا۔ حیدرآباد میں آٹے کا تھیلا اٹھائیس سو اسی روپے تک پہنچ گیا ہے۔ لگ بھگ انتیس سو روپے تک پہنچ گیا۔ اور ادارہ شماریات کہہ رہا ہے حیدرآباد میں دو سو اسی روپے مہنگا ہوا کوئٹہ میں آٹے کا تھیلا ایک سو چالیس روپے مزید مہنگا ہو گیا اور کوئٹہ میں ستائیس سو روپے قیمت ہو گئی آٹے کی ایک تھیلی. یہ گیارہ سو روپے کا عمران خان کے دور حکومت میں بہت مہنگا ہوتا تھا. بیس کلو آٹے کا تھیلا. گیارہ سو روپے کا. اس وقت حیدرآباد میں اٹھائیس سو اسی روپے کا ہے کوئٹہ میں ستائیس سو روپے کا ہے خضدار میں چوبیس سو روپے کا ہے پشاور میں چھبیس سو پچاس روپے کا ہے سکھر میں ستائیس سو روپے کا ہے لاڑکانہ میں چھبیس سو روپے کا ہے اسلام آباد میں آٹے کی قیمت ابھی صرف ایک جگہ کے اوپر انہوں نے کنٹرول کر کے رکھی ہوئی ہے. لیکن وہاں پہ بھی تیرہ سو روپے کا ہے. اور پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں آٹے کا تھیلا بارہ سو پچانوے روپے کا ہے. پنجاب حکومت پھر بھی کوئی نہ کوئی زور لگا کے کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے. لیکن اب ذرا بلاول کا ریکارڈ چیک کریں آپ بلاول نے سب کا ریکارڈ توڑ دیا ہے کمال کر دیا ہے اور ادارہ شماریات کہہ رہا ہے ہم نہیں کہہ رہے ادارہ شماریات کہہ رہا ہے گورنمنٹ کا ادارہ وہ کہہ رہا ہے جی کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار آٹے کا تھیلا جو بیس کلو والا ہے تین ہزار روپے تک پہنچ گیا کراچی کے شہری ملک میں سب سے مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں کراچی میں فی کلو آٹا ایک سو پچاس روپے تک فروخت ہو رہا ہے ادارہ شماریات تو ملک ایسے ڈیفالٹ ہوتے ہیں نا خواہشات پہ نہیں ہوتے یعنی اگر میں خواہش کروں کہ آٹا جو ہے وہ ہزار روپے کا بیس کلو کا تھیلا ملنا شروع ہو جائے تو خواہشات پہ تو نہیں ہو گا یا میں کہوں پانچ ہزار کا ہو جائے تو خواہشات پہ نہیں ہوگا۔ یہ آپ کی کرتوتوں اور آپ کی حرکتوں کی وجہ سے تین ہزار روپے کا آٹے کا تھیلا کراچی کے شہری اس وقت خریدنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے اور کراچی کے شہری ذرا سوچیں کہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں آٹا اس وقت بھی بارہ سو پچانوے روپے کا جو ہے وہ تھیلا مل رہا ہے جس کو وہ لوگ ڈھائی ہزار سے تین ہزار روپے کا وہ وہی آٹا خرید رہے ہیں یعنی دگنی قیمت کے اندر اگر سندھ کے لوگ آٹا خرید رہے ہیں تو ان کے لیے قصوروار کون ہے سندھ میں کس کی حکومت ہے کون ہے ذمہ دار ذرا یہ پتہ کر لیں سندھ والے اور پھر اپنے گریبان میں جھانکے کہ اصل میں غلطی کہاں ہوئی ہے دوسرا آپ یہ دیکھیں کہ اس وقت بہت ساری کمپینیز شٹ ڈاؤن ہو رہی ہیں اور بولان کاسٹنگ یہ جناب یہ بھی بند ہو گئی پانچ دسمبر دو ہزار بائیس بلوچستان ویلز نو دسمبر دو ہزار بائیس سے بند. پاکستان پاک ریفائنری دس دسمبر دو ہزار بائیس سے انتیس دسمبر دو ہزار بائیس تک بند. فرنٹیئر سرامکس یہ بارہ دسمبر دو ہزار بائیس سے پتہ نہیں کب تک کے لیے بند ہے اب اٹک ریفائنری تیرہ دسمبر دو ہزار بائیس سے بیس دسمبر دو ہزار بائیس تک بند۔ کوہ نور سپینینگ ملز چودہ دسمبر دو ہزار بائیس سے لامحدود مدت تک کے لیے بند۔ ملت ٹریکٹر یہ بھی سولہ دسمبر دو ہزار بائیس سے آن ورڈ بند انڈس موٹرز اور فوجی فرٹیلائزر بن قاسم سورج کاٹن بلز یہ بھی بند پاک سوزوکی دو جنوری دو ہزار تئیس سے چھ جنوری دو ہزار تئیس تک یہ بھی بند یہ ساری فیکٹریاں اور یہ ملیں. اور یہ بند ہو رہی ہیں. ایسے ملک ڈیفالٹ ہوتا ہے. خواہشات میں نہیں ہوتا. میڈیکل ڈیوائسز کی درآمد میں رکاوٹ، ہسپتالوں میں سرجریز متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے. جو آپریشنز کیے جاتے ہیں ہسپتالوں میں کیونکہ ان کا سامان بھی نہیں منگوا پا رہے پورٹس کے اوپر چیزیں پھنس جاتی ہیں پیسہ دے نہیں رہی کسی کو امپورٹس کے لیے پیسے موجود نہیں خواجہ آصف نے کہا کہ پورے ملک میں اندھیرا ہونے والا ہے امپورٹس کے لیے پیسے نہیں ہیں ہر چیز ڈوبنے والی ہے خواجہ آصف کے بقول بہرحال یہ اس کے اندر ایک چیز اور میں آپ کو بتا دوں کہ گھی اور کوکنگ آئل اس کا بھی ایک سیریس بحران جو ہے پاکستان کے دروازے پر کھڑا ہے اور یہ بہت شارٹیج اس کی ہوتی چلی جا رہی ہے پاکستان میں کیونکہ ایل سیز اوپن نہیں کر رہے ڈار صاحب کی ضد کی وجہ سے کہ میں نے تو ڈالر دو سو ستائیس کا رکھنا ہے کیونکہ اوپن مارکیٹ کے اندر ڈالر کی پرایس زیادہ ہے اس لیے یہ پےمینٹ نہیں کر پا رہے اور پیسہ ہے بھی نہیں ویسے بھی پاکستان کے پاس اور ڈالر بچانے کے چکر میں ڈار صاحب یہ حرکت کر رہے ہیں اس وقت جو ہے سویا بین, پام اوئل اور سن فلور آئل اس کی بہت قلت پاکستان میں ہوتی چلی جا رہی ہے, شارٹیج ہو رہی ہے. اور تین لاکھ اٹھاون ہزار ٹنز را میٹیریل دس مختلف بحری جہازوں کے اندر اس انتظار میں کھڑا ہے کہ اس کو اتارا جائے وہاں سے اور یہ ڈان نیوز کے سورسز ہیں میں نہیں کہہ رہا ڈان نیوز کے سورسز کہہ رہے ہیں دوسری جانب ملت ٹریکٹر جو کمپنی ہے وہ بھی بند کر دی گئی ہے یہ ٹریکٹر پا پاکستان جو ہے وہ ایک زرعی ملک ہے اور ٹریکٹر کی ڈیمانڈ بہت زیادہ تھی ریکارڈ ان کے ٹریکٹر فروخت ہو رہے تھے بہت زیادہ زمینیں سیراب ہو رہی تھی عمران خان صاحب کے دور حکومت میں اور ہون کے اوپر ان کے ٹریکٹر بک رہے تھے یعنی بن رہا ہوتا تھا پہلے سے بکا ہوا ہوتا تھا اور دو دو تین تین مہینے سے بوکنگ جاری ہوتی تھی اور اب کیونکہ ڈیمانڈ نہیں ہے اور معیشت کی حالت بہت خراب ہے لہذا اس کو بھی بند کر دیا گیا ہے تو یہ بھی اب پاکستان میں ہوا ہے یہ ساری چیزیں ہونے کے ساتھ ساتھ اس خبر کی طرف آتے ہیں کہ کیا واقعی پاکستان امریکہ کو اڈے دینے والا ہے؟ تو یہ دو بڑی ہولناک خبریں ہیں یہ آپ سن لیں. شیریں مزاری صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ حالیہ دہشت گردی امریکہ کو اڈے دینے کا بہانہ ہے اور انہوں نے یہ شک ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی موجودہ لہر امریکا کو خطے میں واپس لانے اور فوجی اڈے دینے کی کوشش ہے اور انہوں نے یہ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے متعلق سوال جب ان سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جان بوجھ کر عدم استحکام پیدا کیا جا رہا ہے تاکہ امریکہ کو فوجی اڈے دیے جا سکیں جو رجیم چینج ہوئی اس میں ایک معاملہ امریکہ کی موجودگی اور اڈوں کا تھا تو یہ اب بیان مل رہا ہے کہ کوئی اور چیز چلی نہیں کیونکہ عمران خان کا بیانیہ آزادی کا آیا غلامی نہیں آزادی تو وہ امریکہ کوجنگ کے لیے اڈے دینے کا جو رجیم چینج کا ایک مقصد تھا وہ نہیں ہو سکا کیونکہ لوگ اس طرف چل پڑے تھے تو یہ سارا کیا جا رہا ہے ایک مقصد کے لیے مجھے شک ہے جس طریقے سے یہ چیزیں ہو رہی ہیں تو اس عدم استحکام پیدا کیا جائے گا۔ افغانستان میں بھی عدم استحکام پیدا کیا جائے گا۔ اور امریکہ کو اڈے دینے کے لیے ایک رستہ نکالا جائے گا۔ سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یہ شیریں مزاری صاحبہ نے کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز ہے اور ایک بہت بڑا دعویٰ ہے جو اب سامنے آیا ہے صدر سرحد چیمبر آف کامرس انہوں نے ایک انکشاف کیا ہے اور خیبر پختونخوا کے تاجروں نے اداروں کے حوالے سے بڑی خوفناک انکشافات کیے ہیں محمد اسحاق ان کا نام ہے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں دہشت گردوں کی طرف سے ٹیلی فون آتے ہیں جو ہماری تمام حساس ترین معلومات جانتے ہیں وہ ہمیں بلیک میل کر کے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں یعنی خیبر پختونخوا کی بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں محمد اسحاق صاحب انہوں نے کہا کہ دہشت گرد ہمیں فون کرتے ہیں کہ آپ کے نام پر اتنے گھر ہیں بیوی کا اس بینک میں اکاؤنٹ ہے بچوں کے فلاں بینک میں اکاؤنٹ ہیں آپ کے پاس اتنی گاڑیاں ہیں اور اتنا بینک بیلنس ہے اور حتی کہ ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ ہمارے پاس اسلحہ کون سا ہے یہ چیزیں بھی ان کو اڈییا ہے انہوں نے یعنی ایسی معلومات کسی کے پاس کیسے جا سکتی ہیں یعنی میرے پاس کیا ہے میرا ریکارڈ تو یا تو میرے پاس ہے مجھے پتا ہے تو یا ایف بی آر کے پاس ہے اور کس کے پاس ہے یا آپ نادرا کے ساتھ میرا ڈیٹا جڑا ہوا ہے یعنی نادرا کو پتا ہے نا کہ میرے پاس کون کون سے ویپن کے لائسنس ہیں اور کون کون سے ہتھیار ہیں یا میکسیمم ایف بی آر کو پتا ہے کہ میرے پاس کون کون سی جائیداد ہے یا گاڑی کون سی ہے میرے پاس موٹر سائیکل کون سا ہے میرے پاس گاڑی کون سی ہے میرے پاس یا میرا گھر جو ہے وہ کون سا ہے کون سا پلاٹ میں نے لیا ہے کون سا میں نے بیچا ہے یہ تو یا تو ایف بی آر کو پتا ہے اور میرے پاس کون کون سے ہتھیار ہیں اور میں کہاں رہتا ہوں یہ باقی چیزیں جو ہیں وہ ڈیٹا جو ہے وہ نادرا کے پاس ہیں اور میرا موبائل فون بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ ایف بی آر اور نادرا سے ڈیٹا لیک کیا گیا ہے یا کسی طریقے سے شر پسند عناصر نے اس تک رسائی حاصل کر لی ہے اور محمد اسحاق نے کہا کہ تاجروں کی اس قسم کی معلومات سی ٹی ڈی کے پاس بھی نہیں ہے. یہ مکمل طور پر معلومات ہیں جو تاجر ایف بی آر یا نادرا کے سامنے پیش کرتے ہیں. اور وہی سارا ڈیٹا دہشت گردوں تک پہنچ چکا ہے اب یہ بڑی الارمنگ چیز ہے اس کے اوپر جو ہے وہ گورنمنٹ کو اور اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کی فوری طور پہ ایکشن لینا چاہیے اور چیک کرنا چاہیے کہ لوگوں کا ڈیٹا کون پہنچا رہا ہے ایسے عناصر تک جو اس ڈیٹا کی بنیاد کے اوپر ڈیمانڈز کر رہے ہیں کہ ہمیں پتا ہے کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے ہمیں یہ چاہیے اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا، اللہ حافظ