اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے فاریکس ریزرو 4.6 بلین ڈالر تک گر گئے
سینئر صحافی عمران ریاض خان کا تازہ ترین تجزیہ
تفصیلات
سب سے پہلے کچھ پولیٹیکل ڈیویلپمینٹس ہیں وہ آپ تک پہنچا دیتے ہیں اور اس کے بعد پھر ہم جائیں گے کچھ اور خبروں کی طرف اور یہ بہت بڑی خبر ہے یہ پاکستان کے فیوچر کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں لیکن پہلے یہ دیکھ لیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے ایک فیصلہ کیا ہے پہلے یہ پتا چل رہا تھا کہ نو جنوری کو بندے اکٹھے ہوں گے اور اپنے تمام ایم پی ایز کو اکٹھا کرنے کے بعد عمران خان صاحب یہ آرڈر کریں گے کہ دس تاریخ کو اعتماد کا ووٹ لیں وزیر اعلی پنجاب اور جب گیارہ کو عدالت کے سامنے جائیں تو بولیں ہم نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے اور اس کے بعد اسمبلیاں تحلیل کر دیں. لیکن ابھی کچھ صورتحال بدلی ہے. صورتحال بدلنے کی جو وجہ سمجھ آ رہی ہے. ایک تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اب بھی ان کے لوگوں کو نیوٹرل رہنے کے لیے کہہ رہی ہے یا اسٹیبلشمنٹ اب بھی ان کے لوگوں پہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ پرویز الہی کے لیے اعتماد کا ووٹ نہ کریں یہ عمران خان صاحب کے لیے تھوڑی مشکل صورتحال ہے اور کیونکہ اسٹیبلشمنٹ دباؤ ڈالے تو دو چار پانچ بندے تو لے ہی جائے گی اور اتنے بندے لے جا کر پھر پرویز الہی صاحب اعتماد کا ووٹ نہیں لے پائیں گے لیکن حمزہ شہباز پھر بھی وزیر اعلی پنجاب نہیں بن سکتے وجہ یہ ہے کہ رن آف الیکشن میں بھی حمزہ شہباز کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ان کی سیٹیں بھی بہت کم ہیں جب تک یہ پوری ق لیگ وہ نہیں لے جاتے تب تک وہ وزیراعلی نہیں بن سکتے. ممکن نہیں ہے. ان کے آزاد لوگ ان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں. تو عمران خان صاحب کو یہ بتایا گیا کہ عدالت کے ساتھ اس کو مشروط کر دیا جائے کیونکہ ق لیگ کا بھی یہ سوچنا ہے اور پرویز الہی صاحب پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے اور اس کو اناوینس بھی کر چکے ہیں انہوں نے عمران خان صاحب کو مشورہ بھی دیا میرے خیال میں عمران خان صاحب نے پرویز الہی صاحب کا مشورہ مان لیا ہے نہ مانتے تو پرویز الہی صاحب نے پھر بھی اپنی منوا لینی تھی کیونکہ اس وقت گیم پرویز الہی کے ہاتھ میں ہے. عمران خان کے ہاتھ میں نہیں ہے. اگر عمران خان کے ہاتھ میں ہوتی تو عمران خان اسی طرح اسمبلیاں توڑ دیتے یا توڑوا دیتے. جیسے عمران خان صاحب نے قومی اسمبلیاں توڑ دیں تھیں اور صدر پاکستان کو فوری طور پہ تحلیل کرنے کے لیے لکھ کر بھجوا دیا تھا سمری میں تو ایک تو یہ خبر ہے دوسرا یہ ہے کہ شیخ رشید یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان صاحب نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اور نو جنوری سے موجودہ پی ڈی ایم حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو رہی ہے یہ انہوں نے دعویٰ کیا ہے انہوں نے کہا کہ شریف برادران سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے بیرون ملک ملاقاتیں کر رہے ہیں واقعی مریم نواز نے اگر آپ ان کا ٹویٹر کا اکاؤنٹ دیکھیں اور اس کے اوپر فوٹو دیکھیں تو وہ ایک بچے کو پیار کر رہی ہیں اور انہوں نے وہ فوٹو لگائی ہوئی ہے سیلاب متاثرین کی دوبارہ وہ کبھی سیلاب متاثرین کے لیے نہیں گئیں نہ انہوں نے ان کے لیے بات کی نہ انہوں نے ان کے لیے فنڈنگ کی وہ یورپ میں موجود ہیں وہ وہاں پہ لوگوں سے فنڈ کرنے کے لیے کہہ سکتی ہیں انہوں نے ٹکے کا کام نہیں کیا سیلاب متاثرین کے لیے مریم نواز نے یہاں سے جانے کے بعد نواز شریف نے بالکل کام ہی نہیں کیا اس سے پہلے بھی نہیں کیا اس کے بعد بھی نہیں کیا سیلاب متاثرین کے لیے شہباز شریف اور بلاول شروع میں سیلاب متاثرین کے لیے گئے اور رپورٹیں بنا کر عالمی اداروں کو بھیجی. ہمیں امداد چاہیے. اور اس کے بعد غائب ہوگئے. کئی مہینے تک شہباز شریف اور بلاول نے مڑ کر سیلاب متاثرین کو پوچھا بھی نہیں. لیکن ابھی جب ایک ڈونر کانفرنس کا ایڈیا آیا. کہ اس سے کچھ اور پیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں تو فوری طور پہ آپ نے دیکھا کہ شہباز شریف دوبارہ بلوچستان چلے گئے اور بلاول دوبارہ سندھ چلے گئے یعنی ان دونوں پولیٹیکل پارٹیز نے دوبارہ پیسے اکٹھے کرنے کا طریقہ کار یہ ڈھونڈا کہ لوگوں کی میزریز، لوگوں کی بری حالت لوگوں کی غربت سیلاب میں لوگوں کی تباہی اس کو دنیا کے سامنے بیچتے ہیں اور بیچ کے پیسے اکٹھے کرتے ہیں کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے جو پیسہ اکٹھا کیا میں چیلنج کرتا ہوں کہ بلاول یا شہباز شریف میرے ساتھ چلیں میں دکھاتا ہوں کہ ان کی حکومتوں نے کوئی ٹکے کا کام نہیں کیا کسی کو گھر بنا کر نہیں دیا. کسی کا انفراسٹرکچر بحال نہیں کیا. کسی کا پانی نہیں نکالا. کسی کو خوراک نہیں فراہم کی. کہیں پہ میڈیکل کی فیسیلیٹی نہیں دی. یہ تو اللہ تعالی بھلا کرے پاکستان کی عوام کا. کہ پاکستان کی عوام نے اپنے پیاروں کا ہاتھ تھام لیا اور ابھی دیکھیں کافی دن گزر گئے ہیں لوگوں کا وہ جوش اور جذبہ ٹھنڈا ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم لوگ لگاتار کام کر رہے ہیں ہم تو بہت چھوٹا موٹا سا کر رہے ہیں لوگ بہت زیادہ کام کر رہے ہیں بہت ساری تنظیمیں بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور وہ اب تک لگی ہوئی ہیں اور اسی بھروسے پہ کچھ نہ کچھ کر کے لوگ سرواایو کر رہے ہیں اور ابھی جو آٹے کی لائنوں کے اندر بیچارے پہلے ہی لوگ متاثر ہیں اور اس کے بعد آٹے کی لائنوں کے اندر کس طرح وہ لگے ہوئے ہیں کس طرح دھکے کھا رہے ہیں آٹا تھوڑا ہے کھانے والے زیادہ ہیں لوگ پیسے لے کر کھڑے ہیں آٹا مل نہیں رہا. من مانی قیمتوں کے اوپر بیچا جا رہا ہے. آج ایک شخص کی جو ہے وہ جاں بحق ہو گیا. یہ مغیث علی جرنالسٹ ہیں. اور انہوں نے اس کو ٹویٹ بھی کیا ہے تصویر کو. آدمی کی لاش پڑی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ آٹا پڑا ہوا ہے۔ یعنی یہ آٹا حاصل کرتے ہوئے اس شخص کی جان چلی گئی ہے۔ انہوں نے لکھا اپنے ٹویٹ میں میرپورخاص میں ایک شہری سستا آٹا لینے کے دوران جان کی بازی ہار گیا یا اللہ رحم کر ایک طرف عیاش حکمران تو دوسری جانب غریب عوام بلاول نے پوری دنیا کا ٹور کیا ہے سیلاب کے دوران اور کوئی مدد نہیں لا سکے وہ اور اگر انہوں نے مدد لی بھی تو وہ کہاں گئی کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے میں نے خیمے بھی نہیں دیکھے پورے سندھ کے اندر. جو بیرونی امداد کے طور پہ آئے تھے بلکہ ڈیروں کے اوپر پڑے ہیں سامان. آٹا صرف وہ بانٹا گیا جو گیلا ہو گیا تھا کسی وجہ سے. اور وہ ڈلیاں بن گئی تھی وہ آٹا بانٹ رہے تھے ایک. جگہ پہ ہم نے دیکھا. میں نے صحافیوں کو جو میرے ساتھ گئے تھے ان کو میں نے کہا دو دن تک گاڑیاں لے کے گھومو اور دیکھو اگر کہیں پہ گورنمنٹ یا کوئی نظر آئے دادو میں کوئی نظر نہیں آیا انٹیریئر سندھ کے اندر کئی شہروں میں ہم نے اسی صورتحال کا جائزہ لیا اسی صورتحال کا ہم نے ہم گواہ بنے ہیں اس کا اور ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے ان ساری چیزوں کا تو شیخ رشید یہ کہہ رہے ہیں کہ الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے اور یہ اس بنیاد پہ کہہ رہے ہیں کہ اپریل میں نو جنوری سے شروع ہو کر اپریل میں ختم ہو جائے گی انہوں نے کہا کہ میں نئے سال میں لال حویلی سے اپنی تقریر کر رہا ہوں جب میں ٹی وی پہ نظر آتا ہوں تو مخالفین چینل بدل دیتے ہیں اور شیخ رشید نے کہا کہ پاپڑ والے فالودے والے یہ ساری چیزیں انہوں نے کی لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ الیکشن کا ٹائم آگیا ہے. حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب الٹی گنتی شروع کر دیں یہ ان کا دعوی ہے. لیکن پاکستان تحریک انصاف نے فی الحال ذرائع کے مطابق نو جنوری کو اعتماد کا ووٹ شاید وہ نہیں لے گی لیکن اب بھی اگر ان کے بندے پورے ہو جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ان کے بندوں کے اوپر سے اٹھ جاتا ہے تو وہ اعتماد کا ووٹ لے کر بھی چلے جائیں گے ورنہ معاملہ عدالت کے اندر تو ہے ہی دوسری جانب مریم نواز صاحبہ کو جو عہدہ دیا گیا ہے وہ ایک بہت بڑی مصیبت بن گئی ہے پی ایم ایل این کے اندر لیکن لوگ مان جائیں گے آہستہ آہستہ سارے چوہدری نثار علی خان جیسے غیرت مند اور بہتر لوگ نہیں ہوتے اور سب کی خودداری اتنی زیادہ نہیں ہوتی جتنی چوہدری نثار علی خان صاحب کی تھی کہ انہوں نے نواز شریف صاحب کو صاف کہا تھا کہ میں بچوں کے انڈر کام نہیں کر سکتا اور میں بچوں کے زیر نگرانی کام نہیں کر سکتا اور میں سیاست کے اندر میرا ایک قد ہے ایک عمر میں نے یہاں پہ کام کیا ہے تو اب میں بچوں کے جو ہے حکم نہیں مان سکتا تو انہوں نے وقت پہ بغاوت کر دی تھی. ابھی ہلکی پھلکی بغاوت پارٹی کے اندر شروع ہوئی ہے. کیونکہ مریم نواز کو دو عہدے دیے گئے ہیں. یہ جیو نیوز نے رپورٹ کیا ہے ویسے. چیف آرگنائزر بھی بنایا گیا ہے. نون لیگ کا سینیئر نائب صدر جو پہلے خاقان عباسی صاحب تھے شاید شاہد خاقان عباسی صاحب اب یہ مریم نواز صاحبہ جو ہیں نون لیگ کا سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مقرر کرنے پہ پارٹی میں جو ہے وہ تجربہ کار قیادت جو ہے اس میں بے چینی پائی جاتی ہے اور نون لیگ کے بہت سارے لوگ اب افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ جناب سارا کچھ ہی اپنے خاندان میں لے جاتے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز یہ تینوں اہم ترین اور طاقتور ترین عہدوں پہ ہیں۔ اور حمزہ شہباز پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ہے۔ الیکشن کرواؤ تو وہ وزیر اعلی کا بھی امیدوار وہی ہوتا ہے تو تمام اہم عہدے چاہے پارٹی کے ہیں چاہے حکومت کے ہیں وہ سارے شریف خاندان اپنے پاس رکھتا ہے خواجہ آصف ہیں تنویر تنویر حسین صاحب ہیں چودھری تنویر شاہد خاقان عباسی ہیں احسن اقبال ہیں ایاز صادق خواجہ سعد رفیق راجہ ظفر الحق اور بہت سارے اور لوگ ہیں وہ بیچارے سینیئر لوگ ہیں. سینیئر ترین لوگ ہیں. لیکن اس کے باوجود مریم نواز جس نے ابھی سیاست شروع کی ہے. ان کو اہم ترین عہدے دے دیے ہیں. اب پارٹی میں بے چینی تو ہونی ہے. دوسری جانب پارٹی کے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جنید صفدر کو بھی لایا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا کا ہیڈ اس کو بنا دیا جائے گا اور وہ پھر ان لیڈرز کے اوپر بھی احکامات جاری کرے گا. تھوڑے عرصے کے بعد اور وہ بھی ہمارے لیے ایک نئی مصیبت بن جائے گی. تو پی ایم ایل این کی جو اندرونی سیاست ہے اس میں جمہوریت کی کوئی گنجائش یا جگہ موجود نہیں ہے اب آجائیں جی اس خبر کی طرف جس نے ہلا کر رکھ دیا ہے سب کو پورے پاکستان کو اور وہ خبر ہے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر یا پاکستان کے قومی خزانے میں پڑا ہوا پیسہ پاکستان نے میں نے آپ کو پچھلے ہفتے بتایا تھا کہ یو اے ای کے یا متحدہ عرب امارات کے جو کمرشل بینکوں سے پیسے لیے ہوئے ہیں وہ پیسے ان کو واپس کرنے ہیں کیونکہ پاکستان کی اکنامی کی صورتحال دیکھتے ہوئے وہ پاکستان کو توسیع نہیں دے رہے اس قرضے میں تو ایک ارب ڈالر سے زیادہ وہ پیسے تھے میں نے آپ سے کہا تھا کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں وہ پیسے واپس دینے پڑیں گے خبریں آ رہی ہیں اور وہ پیسے پھر واپس دے دیے ہیں پاکستان نے اور اب پاکستان کے جو قومی خزانے کے اندر زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں وہ چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالرز رہ گئے ہیں ساڑھے چار ارب ڈالرز عمران خان صاحب کے دور حکومت میں یہ بہت زیادہ بڑھ گئے تھے اور پی ڈی ایم کی حکومت آنے سے پہلے یہ سولہ اعشاریہ دو ارب ڈالر تک تھے اور سولہ اعشاریہ دو ارب ڈالر سے لے کر چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر تک پاکستان آٹھ مہینوں کے اندر پہنچ گیا ہے اور پاکستان کے پاس اب مجموعی جو ذخائر ہیں وہ تقریبا دس ارب ڈالر کے ہیں پرائیویٹ یعنی کمرشل بینکس کے اور جو پاکستان کا قومی خزانہ ہے اس کو ملا کر اور یہ بہت کم ہیں یہ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے اچھا اس سے اب بچنے کے لیے حکومت نے ایک بڑا عجیب و غریب کام شروع کر دیا ہے وہ میں پہلے آپ کو خبر پڑھ کے سناتا ہوں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں یہ کر کیا رہے ہیں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت نے ڈیفالٹ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومتی اثاثہ جات کو تیزی سے فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے. کچھ اصول ہوتے ہیں کچھ ضابطے ہوتے ہیں کچھ قاعدے ہوتے ہیں. جن کے تحت نجی کاری کی جاتی ہے یا اثاثے فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان سب کو ختم کر کے اثاثے اب من مرضی سے بیچ دیے جائیں گے فوری طور پہ یعنی اونے پونے بھی بیچنا چاہیں تو بیچ سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے جمعہ کے روز فیصلہ کیا اور یہ باقاعدہ فیصلہ کروایا گیا ہے کہ دو پاور پلانٹس قطر کو یعنی قطر کی حکومت کو براہ راست فروخت کر دیے جائیں۔ یعنی اس کے اندر یہ وہ جو بیڈنگ ہوتی ہے کہ آپ آ جائیں آپ آ جائیں۔ مختلف لوگ آئیں لیکن نہیں۔ قطر کو براہ راست دو پاور پلانٹ پاکستان کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کو بھیج دیے جائیں یہ پاور پلانٹ چار سال قبل حکومت کی نجکاری فہرست میں شامل تھے. یعنی اسے نجکاری میں شامل کرنا تھا۔ اور امیدیں حکومت سے وابستہ تھیں۔ کہ اسے اپنی پروموشن سے ایک ارب پچاس ملین ڈالر ملیں گے۔ تاہم اب موجودہ حکومت نے قطر کی نجکاری کے بجائے براہ راست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں جمعرات کو نجکاری کمیشن کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ جس میں دو پلانٹس کو نجکاری کی فہرست سے نکالنے کا کہا گیا تھا۔ جناب، ہم ان دونوں پلانٹس کو براہ راست فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی کے مطابق فروخت کریں گے، انہیں عمل سے اور نجکاری کی فہرست سے نکال دیں گے۔ عام طور پر پرائیویٹائزیشن کمیشن بورڈ کے اجلاس کے بعد پریس بیان جاری کیا جاتا ہے لیکن اس بارے میں بڑی خاموشی ہے۔ انہوں نے پریس کو کوئی خط یا خبر یا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ اور چپ کر کے یہ دو پاور پلانٹ بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب یہ پاور پلانٹ مہنگے لگ رہے تھے نا پاکستان میں تب بھی بہت سارے لوگوں کی جیبوں میں کمیشن جا رہے تھے اور اب جب یہ اس طریقے سے بیچے جا رہے ہیں کہ سارے رولز پس پشت ڈالے جا رہے ہیں تو تب بھی آپ کو اندازہ ہے کہ کیا ہو سکتا ہے پاکستان کی جو بزنس کونسل ہے اس نے ایک اڈیا دیا ہے اور ان کا اڈیا یہ ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ چین سے بات کرے پیرس کلب سے بات کرے اور جہاں جہاں بھی پاکستان نے قرضہ دینا ہے وہاں پہ پاکستان یہ کہے کہ ہماری حالت کو دیکھتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آپ پاکستان کے قرض معاف کریں یا ان کے اوپر جو سود ہے کم سے کم ان کو معاف کیا جائے اور ری شیڈول کیا جائے پاکستان دنیا سے کھل کر جا کر بات کرے لیکن بات کرے گا کون؟ اسحاق ڈار, شہباز شریف، ان کی تو بات ہی کوئی نہیں سنتا. آرمی چیف وہ نئے آئے ہیں. اور انہی کو بھیج دیا سعودی عرب سے بات کرنے کے لیے وہ گئے ہیں. وہ چائنا بھی جائیں گے شاید ان سے بھی بات کریں گے تو آرمی چیف کا کام یہ نہیں ہے جس کے اندر ان کو دھکیل دیا جاتا ہے ہر دور حکومت کے اندر اور بعد میں یہی آرمی چیف آپ کو بتا رہے ہوتے ہیں میں وہاں سے پیسے لایا میں اس ملک سے پیسے لایا میں اس ملک سے پیسے لایا تو وہ پھر پولیٹیکس کے اندر اپنی انٹرفیرینس کو جائز سمجھتے ہیں کہ جب ملک کو چلانے کے لیے میں سارا کچھ کر رہا ہوں تو ملک کے فیصلے میں کیوں نہ کروں یہ آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ بھی بچارے کے ساتھ ایک زیادتی ہوتی ہے کہ آپ اس کے اوپر اضافی ذمہ داریاں ڈال دیتے ہیں جو اس کے کرنے کا کام نہیں ہوتا۔ اگر یہ پیسہ آ بھی جاتا ہے فرض کریں اگر کچھ پیسہ آرمی چیف گئے ہوئے ہیں۔ میں شبر زیدی صاحب سے بات کر رہا تھا انہوں نے بتایا کہ اگر کچھ پیسہ سعودی عرب دے دیتا ہے، چائنہ دے دیتا ہے یا کوئی دو تین چار ارب ڈالر تک بھی پاکستان کو مل جاتے ہیں پھر بھی پاکستانیوں کے حالات تو بہتر نہیں ہوں گے مہنگائی تو کم نہیں ہوگی. مشکل فیصلے اور یہ ساری چیزیں پھر بھی کرنے پڑیں گے. لیکن یہ جو حکومت ہے اس کا پولیٹیکل کیپیٹل اتنا کم ہے کہ یہ مشکل فیصلے کر ہی نہیں سکتے اب. اب وہ ڈار صاحب ڈالر کو روک کر بیٹھے ہوئے ہیں اپنی طرف سے چالاکی کی ہوئی ہے پاکستان کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے اور حالات لگاتار خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں کمرشل بینکوں کا فیصلہ جو ہے وہ ڈار صاحب کا پول اس نے کھول دیا ہے لیکن ڈار صاحب کا اپنا کام چل رہا ہے مثال کے طور پہ یہ دیکھیں ایک اور خبر ہے میرے پاس کہ احتساب عدالت نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے تمام بینک اکاؤنٹس اور اثاثے بحال کر دیے یعنی پاکستان کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹ ہر چیز فارغ ہو رہی ہے وہ ڈاؤن جا رہا ہے پاکستان جب جب نیچے گیا ہے ڈار صاحب تب تک اوپر آئے ہیں آپ نے کبھی غور کیا ہے جب جب ڈار صاحب کا اقتدار آیا ڈار صاحب نے ترقی کی اور بلندی کی طرف گئے اور پاکستان تب تک نیچے گیا ہے پاکستان کی ترقی جو ہے وہ کرتا ہوا ترقی کرتا ہوا ڈار صاحب نے ہمیشہ ڈبویا ہے ملک اور احتساب عدالت نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے تمام بینک اکاؤنٹس اور تمام اثاثے بحال کر دیے اسحاق ڈار صاحب کو ان کو لانے والوں کو سب کو بہت بہت مبارکباد اب یہ ذرا خبر آپ سنیں ملک میں اس وقت مہنگائی کمر توڑ ہے. کھانے پینے کی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں. لوگوں کا تو جینا محال ہو گیا ہے. مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔. ایک سال کے دوران مختلف شہروں میں آٹا اور چکن سو فیصد مہنگا ہو گیا ہے چالیس روپے والا پیاز دو سو پچاس روپے کلو سے اوپر چلا گیا ہے چاول کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں چکی کے آٹے کی قیمت ایک سو ساٹھ روپے کلو ہو گئی ہے مارکیٹ میں گندم باون سو روپے فی من پہ پہنچ گئی ہے اس کے علاوہ مرغی کے گوشت اور انڈے کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے انڈے دو سو اسی روپے درجن ہو گئے ہیں مرغی کے گوشت کی سرکاری قیمت اس وقت پانچ سو چہتر روپے کلو ہو گئی ہے اور بعض دکاندار مرغی کا گوشت چھ سو بیس روپے کلو میں بیچ رہے ہیں یاد رکھیے گا ابھی آپ کو تیل کے معاملے کے اوپر بھی، یعنی خوردنی تیل جو ہوتا ہے، گھی، تیل، کوکنگ آئل ان کے اوپر بھی آپ کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا. کیونکہ پاکستان کے پاس ڈالر ہی نہیں ہے. پاکستان اب کرے گا کیسے؟ جماعت اسلامی نے تو اعلان کر دیا ہے جی کہ یہ کمر توڑ مہنگائی جو ہے اس کے خلاف اب ہم نکلیں گے اور کام کریں گے. اور احتجاج کریں گے لیکن شہباز شریف صاحب نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط مکمل کرنے کے لیے ہم پرعزم ہیں. یعنی آئی ایم ایف کے پروگرام پہ عمل درآمد کے لیے شہباز شریف صاحب پرعزم ہیں. اور اور ڈار صاحب کا بیان آپ کو یاد ہے انہوں نے کیا کہا انہوں نے کہا آئی ایم ایف وہ شرائط نہ رکھے جن کو پوری نہیں یعنی ڈار صاحب کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہم پوری نہیں کر سکتے. وہ کہتے ہیں آئی ایم ایف ہمارے ساتھ زیادتی کر رہا ہے. اور آئی ایم ایف کے اندر ڈار صاحب کو جرمانہ بھی ہو چکا ہے ماضی میں غلط بیانی کے اوپر غلط اعداد و شمار دینے کے اوپر تو اب یہ جو شہباز شریف صاحب کا دعوی ہے شہباز شریف صاحب کہہ رہے ہیں آئی ایم ایف کی ساری باتیں مانیں گے. ڈار صاحب کہہ رہے ہیں میں آئی ایم ایف کی باتیں نہیں مانوں گا. تو ایسے تو یہ ملک نہیں چلے گا۔ اور اس طریقے سے تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تو ناظرین اب یہ اثاثے بیچیں یا کچھ بھی کریں۔ ان کے کیے کی قیمت اس ملک کو اب چکانی پڑے گی۔ پاکستان کی قوم کو پاکستان کی جو پی ڈی ایم کی حکومت بنی امپورٹڈ اس رجیم چینج آپریشن کے بعد جو سہولت کاروں نے کیا، اس کی قیمت یہ سارے چکائیں یا نہ چکائیں. پاکستان کی قوم کو بدقسمتی سے چکانی پڑے گی. اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا, اللہ حافظ۔۔
0 Comments