عمران خان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ الٰہی کے ساتھ 

وقفہ قائم کرنا کس طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے۔


تفصیلات کے لیے حقیقت ٹی وی کا تجزیہ پڑھیں 


عمران خان نے بڑا مزیدار کام کیا کہ انہوں نے اصل میں اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہوا تھا ان کو پتا تھا انہوں نے اسمبلی کب ڈیزالو کرنی ہے کب بندے پورے کرنے ہیں اب تو جو حقیقت ٹی وی نے آپ کو خبر دی تھی دیکھ لیجئے رانا ثناء اللہ نے بھی وہ بات کہہ دی کہ تیرہ چودہ بندے ہمارے پاس آئے تھے انہوں نے آ کر ہمیں کہا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اسمبلیاں ڈیزالو کرنے کے لیے ہم پرویز الہی کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے آپ بے فکر رہے نمبرز پورے ہیں اب حقیقت ٹی وی نے جب آپ کو سب سے پہلے خبر بریک کی کہ اصل میں ان کے ساتھ ہاتھ ہوا تھا عمران خان نے بندے بھیجے تھے انہی کے پاس وہ ان کی پلاننگ تھی ان کو بتا سکے تاکہ یہ کوئی اور ورکنگ ہی نہ کر سکے تیرہ چودہ بندے توڑنے تھے اب اس میں یہ سارے سکون میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ٹھیک ہے نمبر پورے ہوں گے نہیں وہ سارے کے سارے ان کو ٹریپ کر رہے تھے وہ بیوقوف ان کو بنا رہے تھے اور اس کے بعد وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہو گئے عمران خان نے اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہوا ہے اب آگیا ہے بڑا اہم مرحلہ دیکھیے گورنر نے چوبیس گھنٹے گزر گئے آل موسٹ اور اس  کے بعد اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر اگر وہ نہیں کرتا تو یہ اسمبلی ڈیزالو ہو جائے گی اعتزاز احسن نے کلیئر لی کہا ہے کہ بھائی اپنی عزت بچائیں اور خود آپ اس کو اپروو کر دیں نہیں تو ویسے ہی ڈیزالو ہو جانی ہے لیکن اگلا جو معاملہ بڑا مزیدار ہے وہ یہ ہے کہ اب آنی ہے ہماری کیئر ٹیکر سٹ اپ کی ہوتا کیا ہے کہ وزیراعلی پنجاب اور حمزہ شہباز شریف انہوں نے بیٹھ کر طے کرنا ہے وہ تین نام دیں گے تین یہ دیں گے اتفاق جس پر ہو گا وہ بنے گا کیئر ٹیکر وزیراعلی یعنی عبوری آپ دیکھیں پچھلی دفعہ تو ساری جگہوں پر باجوہ نے اپنے بندے رکھے ہوئے تھے جنرل باجوہ نے جس کے اوپر ہاتھ رکھا وہی آیا وہی سب کچھ ہوا اس دفعہ نون لیگ کے ہاتھ میں ان کی تو ورکنگ ہی نہیں پی ٹی آئی نے تو سوچا ہوا ہے بندے کون سے دینے ہیں اب حمزہ شہباز ہے ملک سے باہر ان کو تو پتا نہیں تھا کہ اسمبلی اس طرح ڈیزالو ہو جائے گی ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا اب معاملہ یہ ہے کہ اگر حمزہ شہباز نہیں آتے یا اگر سب سے پہلے کہ آجائیں تو بہتر ہے بیٹھ کر یہ نام دیں ان میں سے کوئی ایک فاینالایز کر لے تو معاملہ آگے جائے اور پی ٹی آئی اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ ضمنی انتخابات عمران خان کہتے ہیں میں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی شکست دی تھی حمزہ تھا اس وقت وزیراعلی سب کو دی تو وہ فرق ہی نہیں پڑتا کہ بندہ کون ہے پھر بھی اس کے باوجود اگر حمزہ کے ساتھ فائنل ہو جاتا تو ٹھیک ہے ادر وایز نون لیگ کا پلان کیا ہے پلان یہ ہے کہ اگر یہ سارے کا سارا معاملہ کلیئر ہوجاتا ہے یعنی حمزہ نہیں آتے اور نہ نہیں آتا پھر جا کے سپیکر کے پاس سپیکر آگے لے کر جائے گا پارلیمانی کمیٹی میں جس میں اپوزیشن کے بھی نمائندے ہیں جس میں حکومت کے بھی اور سارے ہیں اگر اس میں بھی نام فائنالائز نہیں ہوتا تو پھر الیکشن کمیشن دے گا نہ اب نون لیگ اور پی ڈی ایم والے یہ چاہ رہے ہیں الیکشن کمیشن باجوہ کا بندہ بیٹھا ہوا ہے اور جنرل باجوہ نے جو بندہ وہاں پر بٹھایا اس نے نون لیگ کی فیور کرنی ہے دیکھیں یہی چیز آپ کو کہیں نہ کہیں کریڈٹ دینا پڑے گا اور یہ چیزیں بہتر ہو رہی ہیں جنرل عاصم منیر کے آنے کے بعد آپ کو اسٹیبلشمنٹ بیک فٹ پر جاتی ہوئی نظر آئی ہے یعنی چیزیں آپ کو پہلے سے بہتر ہوتی نظر آئی ہیں جس طرح فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کی سپیچ کاٹی نہیں جا رہی وہ باجوہ پر تنقید بھی کر رہے ہیں پروگرامز بہت سارے ہو رہے ہیں چیزیں ہو رہی ہیں اور ہرڈلز پیدا نہیں ہو رہی باوجود اس کے انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا رول پہلے سے بہتر ہے لیکن پھر بھی ہمارے مظفر گڑھ کے ایم پی ایز اور کچھ لوگوں کو دھمکیاں نامعلوم نمبروں سے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف اس کا نوٹس لے اب اگر غور کریں تو چیزیں بہتر آئیں ہیں پرویز الہی کو کہا جاتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے بندے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتے اسٹیبلشمنٹ نے کہیں نہ کہیں آپ کو چاہے تھوڑا ہو زیادہ ہو اپنے آپ کو کچھ نیوٹرل کیا ہے اور اس کی جھلک آپ کو نظر آئی ہے کہ پرویز الہی نے بڑے آزاد فیصلہ کیا یعنی جو مرضی آپ کر لیں پرویز الہی دیکھیں چاہے ان کو پتا ہے کہ عمران خان کا ٹکٹ بکے گا جو بھی ہو گا لیکن الیکٹنٹ وہ کرتے ہے  انہوں نے نہیں کیا کچھ نہ کچھ چیزیں بہتر رہیں چاہے آپ پانچ دس فیصد ہی کہہ لے۔ اب اس صورتحال کے اندر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ساکھ بحال کرنی ہے کسی بھی طرح کرنی ہے اور عمران خان اب اس لیول پر پہنچ چکے ہیں کہ اب اسٹیبلشمنٹ وہ کہتے ہیں جی جس کو چاہے وہ وہ آ کر بنے اب وہ ٹائم ختم ہو گیا انہوں نے کہا کہ اب عوام کا ری ایکشن آ گیا اب یہ کیا چاہیں گے یہ اصل میں چاہیں گے نون لیگ والے کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے اور کوئی بندہ ایسا آئے جو پنجاب کے اندر ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو یا ہو دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے الیکشن کمیشن تک معاملہ جائے گا تو پی ٹی آئی والے پہلے ہی کہیں گے کہ ہم تو اس بندے کو مانتے ہی نہیں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دیکھیں عمران خان اس بار ورکنگ الریڈی کر کے رکھی ہے انہوں نے اس کا توڑ نکال کر رکھا ہے تو معاملہ یہاں تک آئے گا تو کیا ہو گا اصل میں کہیں کوئی ایسا نام اگر نون لیگ کی جانب سے آ جاتا ہے جس پر ذرا اعتماد بھی ہو تھوڑی سی فضا کم بھی ہو تو اب وہ ہواؤں کا رخ وہ لیول نہیں رہا آپ اب جو مرضی کر لیں عمران خان نے جو پریکٹس دیکھے ہیں ان کو تیاری ہو گئی تھی ضمنی انتخابات میں باجوہ پوری طرح اس کے خلاف تھا حمزہ خلاف تھا سارے خلاف تھے الیکشن کمیشن خلاف تھا اس کے باوجود وہ ضمنی انتخابات جیت گیا تو یہاں پر تو معاملہ ہی بڑا ڈیفرنٹ ہے اس دفعہ تو آپ اگر کوئی ایسا بندہ آ بھی جاتا ہے کہ وہ کچھ کرنے کی کوشش کرے وہ نہیں کر پائے گا تو عمران خان اس بات پر ایزی ہیں لیکن انہوں نے تحفظات کا اظہار کرنا ہے اپنی پوری ورکنگ کر کے انہوں نے رکھی ہوئی ہے لیکن پرابلم یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے تو ورکنگ کی نہیں ہے دیکھیں ورکنگ وہ کر دو جس کو پتہ ہونے کیا جا رہا ہے آپ جانتے ہیں کہ ہوا کیا تھا کہ جب چوہدری پرویز الہی نے اعتماد کا ووٹ لیا انہوں نے ایوان میں ایک ایسی بات کہہ دی جس سے تاثر ان کو یہ ملا کہ وہ بھی رمضان سے پہلے تو اسمبلیاں ڈیزالو کرنا نہیں چاہتے یہ سارا پلاننگ کا حصہ تھا عمران خان نے پوری پلاننگ کر کے رکھی ہوئی تھی جس طرح انہوں نے اپنے بندے بھیجے ان کے پاس اور انہوں نے کوئی ورکنگ ہی نہیں کی نواز شریف کو انہوں نے کہا ان کے ایک سو اکہتر بندے یہی تو صورتحال تھی کہ سارے صحافی کہہ رہے تھے کہ ایک سو اکہتر کامران شاہد نے کیوں کہا جنرل باجوہ اس کا سورس ہے اور دیکھیں باجوہ اب فارغ ہو چکا ہوا ہے آپ اس کے اوپر رہیں گے جی باجوہ آپ کو خبر دے گا او باجوہ نے ڈیسایڈ نہیں کرنا اگر دو سال تک باجوہ الیکشن نہ لڑے یعنی ان کے اس جو بھی معاملات ہیں ان میں جو بھی فوج سے جاتا ہے وہ دو سال تک کوئی بھی سیاسی ایکٹیویٹی میں نہیں جا سکتا ورنہ آپ دیکھیں ویسے تو وہ بہت بڑا سیاسی بندہ ہے اس کو بڑا شوق تھا پنجاب میں وزیراعلی لگانے کا خیبر پختونخواہ میں لڑائی ہوئی تو اس کی عمران خان سے اسی لیے ہوئی تھی کہ بھائی پنجاب کے اندر علیم خان میرا بندہ لگاؤ اور مٹھو صابر کے تھرو ہو تاکہ سارا مال بٹورا جائے اب یہ جو اصل میں معاملہ سامنے آیا ہے کہ ہونا یہ چاہیے کہ ایک دفعہ اس کو چانس دیں آئیں نا ذرا الیکشن کے اندر باجوہ پتہ چل جائے گا سو ووٹ بھی اگر اس کو اس کا گھر والے نے اس کو ووٹ دیں گے چار پانچ لوگوں کے علاوہ اس کو کسی نے ووٹ نہیں دینا لیکن  پرابلم یہ ہے کہ دو سال تک یہ نہیں آ سکا دو سال بعد بھی لوگ اس سے یحییٰ خان سے زیادہ اس سے نفرت کرتے ہیں تو وہ تو ٹائم ختم ہو گیا اب آپ جو مرضی کر لیں ان کو اصل میں ہر بڑی پڑی ہوئی ہے مریم نواز بلیم کر رہی ہیں سارا کچھ شہباز شریف کے اوپر کہ اصل میں اصل میں مریم اور نواز شریف نے پوری طرح کہا تھا کہ شہباز شریف آپ یہ حکومت نہ لے اس وقت خواجہ آصف کا بھی یہی کہنا تھا کہ عمران خان فارغ ہو گیا ہے تو ہمیں کام یہ کرنا چاہیے کہ ہم سیدھا عوام میں چلے جائیں کیونکہ اگر ہم عوام میں جاتے ہے  تو عوام میں جا کر ہمیں فائدہ یہ ہوگا سب سے بڑا کہ عمران خان کو ہم کہیں گے دیکھو اس نے مہنگائی کی ہے اور نون لیگ کی کریڈیبلیٹی کچھ نہ کچھ تھی جو شہباز شریف نے چونکہ زرداری نے اصل میں باجوہ تو چاہ رہا تھا اکسٹینشن تو اس نے شہباز شریف کو کہا کہ نہیں نہیں آپ کو آنا چاہیے یہ نہ ہو کہ پھر عمران خان آ جائے اور وہ آ کر مجھے فارغ کر دے مجھے اکسٹینشن نہ دیں وہ تو الگ بات ہے کہ عمران خان نے گیم  ہی ساری الٹ دی اور اکسٹینشن چھوڑی ہے اب وہ گھر بیٹھ کر اس وقت عمران خان کو میسیج بھیج رہا ہے بھائی میں بڑا دکھی ہوں تو مجھ پر تنقید کرنا بند کرو تو یہ اصل میں ان کا معاملہ تھا اب عمران خان نے توڑ نکال کر رکھا ہے ان کی ورکنگ پوری ہے کہ بندہ کون آئے گا اور کیسے انہوں نے گیم کرنی ہے عمران خان کی تیاری پوری ہے دیکھیں آپ ایک چیز جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اس کی فتح کیسے ہوتی ہے یہ سارے آپ نے صرف جب بھی مانگنا ہے ساتھ اللہ کا مانگنا ہے اور دل سے نیت صاف ہو ٹربلز آنی ہے وہ آپ کو ہلا کر رکھ دے گی لیکن آپ اینڈ پر فتح یاب ہوگئے تو اللہ پاک جب بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں آپ کی نیت کے معاملات ہوتے ہیں یعنی آپ کے دل میں نیت ہی نہیں ہے بدنیت ہمیں اس کو نقصان پہنچاؤں گا تو آپ کے ساتھ وہی ہوگا جو باجوہ کے ساتھ ہوا ہے جو ان سب کے ساتھ ہوا ہے تو اللہ پاک نے جب آپ کی مدد کرنی ہوتی ہے تو وہ آپ کی نیت کو بھی دیکھتا ہے تو آپ دیکھیے گا کہ پنجاب میں دو تہائی اکثریت پلیٹ میں رکھ کر ملے گی اور اس وقت اسٹیبلشمنٹ بھی یہ سمجھتی ہے کہ عوام کا مینڈیٹ تسلیم کرنا اسی میں ان کی بھی ساکھ کی بحالی کی چیزیں سامنے آ رہی ہیں ۔۔