نمبر گیم پنجاب حکومت کا مستقبل؟ آئی ایم ایف اور مہنگائی
تفصیلات اور مزید خبروں کے لیے
عمران ریاض خان کا تازہ ترین تجزیہ پڑھیں
پہلے میں آپ کو بتا دیتا
ہوں کہ اس میں کیا کچھ ہے جو میں آپ کو ابھی بتاؤں گا ایک تو پنجاب حکومت کی تبدیلی
کے لیے جو پی ایم ایل این اور پی ڈی ایم کی جماعتیں کر رہی ہیں وہ آپ کو بتاتا ہوں
مونس الہی کا ایک دوست غائب کر دیا گیا ہے اٹھا لیا گیا ہے ایکچولی یہ آدمی کون ہے
اور ریزن کیا ہے اس کو اٹھانے کا اس کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں. اور یہ بندہ ہے
کہاں پہ؟ اس کے بارے میں ابھی میں آپ کو بتاتا ہوں تھوڑا سا اور تیسرا یہ ہے کہ آئی
ایم ایف نے اور شہباز شریف نے دونوں کے لیے کچھ پیغام چھوڑا ہے آئی ایم ایف نے
حکومت پاکستان کے لیے اور شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے لیے کچھ
صورت حال ہے اکنامی کی آپ کے سامنے رکھتا ہوں لیکن سب سے جو
بڑی خبر ہے آج کی وہ یہ ہے کہ جنیوا کانفرنس جو ہوئی ہے پاکستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے حوالے سے اس
میں عالمی برادری نے جو مدد پاکستان کے لیے دی ہے
سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے دس ارب ڈالر سے زائد امداد کا وعدہ کیا گیا
ہے پاکستان کے ساتھ اور یہ امداد پاکستان کو اگلے چند سالوں کے اندر ملے گی میں نے
آپ کو پہلے بھی یہ ایک وی لاگ میں بتایا تھا لیکن یہ اچھی اور بڑی خبر ہے کہ عالمی
برادری نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ان کے لیے بہت بڑے
امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے امید کرتے ہیں کہ یہ پیسہ انہی کے اوپر خرچ ہوگا کیونکہ
اس سے پہلے جو کچھ آیا وہ ان کے اوپر بدقسمتی سے خرچ نہیں ہو سکا لیکن اقوام متحدہ
ہے وہ کوئی نہ کوئی اس کا میکنیزم بنائیں گے اور بنا کر اس کے مطابق چلیں گے
اسلامک ڈیولپمنٹ بینک نے سب سے زیادہ امداد دی ہے چار اشاریہ دو ارب امریکی ڈالرز
ورلڈ بینک نے اس کے بعد دو سو ارب امریکی ڈالرز یورپی یونین نے پانچ سو ملین یورو
دیے ہیں. یو ایس ایڈ سو ملین ڈالرز انہوں نے دیے ہیں فرانس نے تین سو پینتالیس ملین
ڈالر دیے ہیں یو کے نے وعدہ کیا ہے دینے کا ابھی دیے نہیں ہیں یہ وعدہ کیا ہے اور
وہ کس طریقے سے دیتے ہیں این جی اوز کے ذریعے سے اپنی تنظیموں کے ذریعے سے وہ خود
اس کی مانیٹرنگ کرتے ہیں وہ کس طریقے سے دیتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے جرمنی نے
اٹھاسی ملین یوروز دیے ہیں جاپان نے ستتر ملین ڈالر چائنہ نے ہنڈرڈ ملین ڈالر اور
سعودی عرب نے ایک ارب امریکی ڈالر دیے ہیں ایک مرتبہ پھر سعودی عرب نے ایک بہترین
بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک ایک ارب ڈالر انہوں نے دیا ہے ایشین ڈویلپمنٹ
بینک نے ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے تو یہ جی سارے وعدے ہیں یہ لگ
بھگ جو رقم بن جاتی ہے یہ دس ارب سے زیادہ کی رقم تقریبا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ بن
جاتی ہے امید کریں گے یہ سیلاب متاثرین تک پہنچے. پاکستان میں چالیس لاکھ بچے ابھی
تک سیلاب کے آلودہ پانی کے قریب مقیم ہیں یہ ایک یونیسف کی رپورٹ آئی ہے. دیکھیے میں
ایک چیز آپ کو بتاؤں بڑی کلیئرلی پانی نکالنے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ بہت بڑے پیمانے
کے اوپر مشینری بھی شاید استعمال کرنی پڑے بہت بڑے بڑے کٹ لگانے پڑے، پانی کو فلو
کے ساتھ نکالنا پڑے گا اور وڈیروں کو کمپرومائز کرنا پڑے گا خاص طور پہ سندھ کے تو
تب یہ پانی نکلے گا ورنہ جو چالیس لاکھ بچے اس وقت پانی کے نزدیک ہیں ان کے پاس
دوسری کوئی جگہ نہیں ہے رہنے کے لیے ہم نے کیونکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا ویزٹ
کیا ہے بلوچستان میں تو سیلاب کا پانی اتر گیا. خیبر پختونخوا بھی کیونکہ ہائیٹ پہ
ہے وہ بھی پانی اتر گیا پنجاب میں بھی پانی کیونکہ دریاؤں کی طرف بہہ جاتا ہے وہاں
پہ بھی ختم ہو گیا سندھ کے اندر کیونکہ بڑے عجیب طریقے سے سندھ کو بلاک کیا ہوا ہے
بند باندھ باندھ کے. اور وڈیروں نے اپنی زمینیں بچائی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ سے
پانی بہت سارے ایریاز میں اکٹھا ہو گیا ہے اب جب تک یہ پانی نہیں نکلے گا تب تک وہ
بچے وہیں ان کو رہنا پڑے گا انہیں کہیں اور شفٹ نہیں کیا جا سکتا. یہ بڑی بدقسمتی
ہے پاکستان کی سندھ میں سیلاب متاثرین ابھی تک بے گھر ہیں باقی صوبوں کے تمام
متاثرین کہیں نہ کہیں اڈجسٹ ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن جو سب سے زیادہ متاثرہ ابھی
تک صوبہ ہے جنہوں نے کام نہیں کیا وہ سندھ ہے اور باتیں آپ زرداری کی اور بلاول کی
سن لیں تو ایسا لگتا ہے کہ قوم کی ان سے زیادہ کسی کو نہ فکر ہے نہ کوئی ان سے زیادہ
قوم کا درد رکھتا ہے اور نہ کوئی ان سے زیادہ کام کرتا ہے اس قوم کے لیے آئی ایم ایف
اور شہباز شریف کے بیچ میں کیا ایپیسوڈ ہوئی ہے میں آپ کو بتا دیتا ہوں سب سے پہلے
تو شہباز شریف صاحب نے کہا آئی ایم ایف کو کہ رحم دلی دکھائے ہمیں کچھ مہلت دیں. یہ
شہباز شریف نے کہا ہے مشکل ترین شرائط خود انہوں نے تسلیم کی پہلے مفتاح اسماعیل
کے ذریعے اور اب دوبارہ وہ مشکل ترین جو ہیں شرائط ان کے اوپر پھر معاہدہ کرنے جا
رہے ہیں شہباز شریف صاحب لیکن شہباز شریف صاحب نے پریس کانفرنس بھی کی اس پریس
کانفرنس میں کہا کہ سیلاب سے لوگ متاثر ہوئے ہیں. لیکن جو معاہدہ انہوں نے آئی ایم
ایف کے ساتھ کیا وہ سیلاب کے بعد کیا ہے پاکستان میں سیلاب آ چکا تھا اس کی تباہی
آ چکی تھی اس کے بعد انہوں نے ایک معاہدہ کیا ہے اور اب یہ چاہتے ہیں کہ اس کے
اندر آئی ایم ایف مہلت دے تو بالکل پاکستان کو مہلت ملنی چاہیے یہ اچھی بات ہے لیکن
آئی ایم ایف جو ہے اس کے لیے کچھ شرائط رکھتا ہے کچھ چیزیں بنیادی ہیں وہ تو
پاکستان کو کرنی پڑیں گی یعنی اسحاق ڈار کو اپنی ضد چھوڑنی پڑے گی اگر تو آئی ایم
ایف کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانا ہے تو شہباز شریف صاحب نے کہا کہ روس اور یوکرین
کی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر کھانے پینے کی اشیاء کے دام بڑھ گئے ہیں اور ویسے
تو پٹرولیم کا ایک آیا تھا لیکن وہ پٹرولیم کی قیمتیں بھی اب کم ہیں روس اور یوکرائن
کی جنگ عمران خان صاحب کے دور میں اور اس کے شروع کے چند مہینوں میں زیادہ امپیکٹ
ڈال رہی تھی اب اتنا امپیکٹ نہیں ڈال رہی لیکن کیونکہ یورپینز کو یہ سننے میں اچھا
لگتا ہے تو اس لیے شہباز شریف صاحب وہاں پہ جا کے اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور
شہباز شریف نے کہا جی پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کی اچھا یہ
میں حیران ہو جاتا ہوں کہ عمران خان صاحب نے تو ایک بالکل چھوٹا سا کام کیا تھا
اور وہ یہ کیا تھا کہ دس روپے پٹرول کی قیمت کم کر دی تھی اور وہ انہوں نے بتایا
بھی کہ ہم نے پیسہ کیسے مینج کرنا ہے اور اس وقت تمام مالیاتی ادارے کہہ رہے تھے
کہ پاکستان بالکل بہترین چل رہا ہے پاکستان نہ ڈیفالٹ کی طرف جا رہا تھا نہ
پاکستان کو کوئی اور خدشات تھے ڈیفالٹ تو انشاء اللہ پاکستان ابھی بھی نہیں ہو گا
اگر پاکستان یہ پیسہ اکٹھا کر لیتا ہے کہ دوستوں سے مدد لے لیتا ہے اور کچھ پاکستان
کے شہری جو ہیں وہ سخت اقدامات جو ہیں وہ اٹھا لیتے ہیں تھوڑا بوجھ اٹھا لیتے ہیں
تو پاکستان ابھی بھی ڈیفالٹ سے بچ سکتا ہے اور یہ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ یہ
ملک ڈیفالٹ ہوجائے چاہے اثاثے بیچنے پڑ جائیں کیسے بھی پیسے دینے پڑیں اپنے دور
حکومت میں ملک کو ڈیفالٹ کروانے کی سیاسی قیمت کوئی بھی حکومت نہیں چکانا چاہے گی
تو ساری دو حکومت میں ہیں چاہے پیپلز پارٹی
ہے چاہے وہ پی ایم ایل این ہے چاہے وہ ایم کیو ایم ہے چاہے وہ بلوچستان عوامی پارٹی
ہے چاہے فضل الرحمن کی پارٹی ہے چاہے اے این پی ہے ساری حکومت میں ہے تو جب یہ
سارے حکومت میں ہیں تو پھر یہ کیوں چاہیں گے کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے کیونکہ ان سب
کے اوپر الزام آ جائے گا دوسرا یہ جو ایک متنجن بنایا ہے یہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ
نے بنایا ہے اتنی ساری پارٹیاں اکٹھی کر کے حکومت بنا دی تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ
بھی نہیں چاہے گی۔ کہ یہ والی حکومت جو ہے یہ چلی جائے یا اس کے دور کے اندر ملک دیوالیہ
ہو جائے۔ کیونکہ ہر چیز اسٹیبلشمنٹ پر پڑ رہی ہے سہولت کاروں پر پڑ رہی ہے طاقتور
جو مقتدر حلقے ہیں ان کے اوپر پڑ رہی ہے. ہر چیز جو کچھ بھی یہ لوگ کر رہے ہیں.
لوگ برا بھلا اس پی ڈی ایم کی حکومت کو تو کہتے ہیں. لیکن ساتھ ہی ساتھ جو ان
تجربہ کاروں کو لے کر آئے ہیں. لوگ ان کے بھی لتے لے رہے ہیں. ان کے بارے میں کہہ
رہے ہیں کہ تم لوگوں نے یہ کیا کیا ہے اس ملک کے ساتھ جو رجیم چینج کرنے والے بھی
نہیں چاہیں گے کہ اس دور حکومت میں پاکستان جو ہے وہ ڈیفالٹ کرے۔ اس سے ان کو بہت
بڑا نقصان ہو گا۔ اور وہ اس نقصان سے بچنے کی ہر حال میں کوشش کریں گے لیکن اکنامی
کی صورتحال میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں چھوٹی سی دو مثالیں ہیں نمبر ایک اسلام
آباد کے اندر ایک دن میں دوبارہ نان کی قیمت دس روپے بڑھ گئی ہے تندور مالکان نے
ابھی مزید قیمت بڑھانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے یعنی مہنگائی کی غیر معمولی لہر
اسلام آباد میں تندور مالکین نے جو صارفین سے پچیس سے تیس روپے میں ایک نان وہ بیچ
رہے ہیں پچیس سے تیس روپے میں ایک نان بیچ رہے ہیں جبکہ روٹی اسلام آباد میں پچیس
روپے میں فروخت ہو رہی ہے جب یہ روٹی دس روپے کی تھی نا تو مصیبت پڑی ہوئی تھی سب
کو بہت مہنگی ہے پندرہ روپے کی دس روپے کی روٹی بہت مہنگی تھی۔ ابھی پچیس روپے کی
بک رہی ہے سب کو سکون ہے۔ کوئی میڈیا کا بندہ جو ہے ماہیک لے کر شہریوں کے بیچ میں
نہیں جا رہا۔ وہ اس لیے بھی نہیں جا رہے نا وہ سارے میڈیا والے وہ یہ سوچتے ہیں
ماہیک لے کر شہریوں کے بیچ میں جائیں گے تو شہری ہمیں بھی اب گالیاں دیں گے کہ تم
لوگ سارے مل کے عمران خان کو برا بھلا
کہتے تھے اس کی حکومت گرا کے یہ رجیم چینج کر کے یہ حکومت لے کر آئے ہو. ہماری
درگت بن گئی ہے اور تم لوگ اس کے لیے ذمہ دار بھی ہو تو نان اگلے ہفتے سے پینتیس
روپے میں دستیاب ہوگا یہ بھی بتا دیا گیا ہے اور جو اضافہ ہو رہا ہے روٹیوں کی قیمت
میں نان کی قیمت میں لگ بھگ پچہتر فیصد تک کا اضافہ ہو گیا ہے ایک ہی دن میں جو ایل
پی جی کی قیمت ہے پاکستان کے اندر حکومت کا کنٹرول آپ چیک کریں کتنا ہے وہ فی کلو
میں پچاس روپے بڑھا دیے گئے ہیں یعنی اگر آپ چار کلو یا چھ کلو کا سلنڈر بھروا کے
آتے ہیں تو دو تین سو روپے آپ کو زیادہ دینے پڑیں گے. تو پچاس روپے فی کلو اضافہ
کر دیا گیا ہے ایل پی جی کی قیمت میں اور مارکیٹ میں ایل پی جی دو سو پچاس سے دو
سو پچپن روپےفی کلو تک فروخت کی جا رہی ہے. اس وقت گھریلو سلنڈر تین ہزار روپے اور
کمرشل سلنڈر گیارہ ہزار تین سو پچاس روپے تک پہنچ گیا ہے اور آئندہ چوبیس گھنٹوں میں
ایل پی جی کی قیمت میں مزید اضافہ بھی ہو جائے گا بہرحال یہ ایک اچھی بات ہے لیکن
عمران خان صاحب نے بہت پہلے اس کو بھانپ لیا تھا کہ ہمیں رشیا سے گندم اور پٹرولیم
مصنوعات کے معاہدے کرنے چاہیے. اس کے لیے وہ گئے بھی تھے رشیا لیکن موجودہ امپورٹڈ
حکومت نے بہت ڈیلے کیا, بہت تاخیر کی, میں بار بار آپ کو وی لاگز میں بتاتا رہا
بار بار آپ کو کہتا رہا کہ گندم کا ایک بحران آنے والا ہے, اور اس کے لیے ذمہ دار
حمزہ شہباز اور شہباز شریف ہوں گے کیونکہ جب اقدامات کرنے تھے اس وقت یہ دونوں رجیم
چینج آپریشن کے بعد اٹھنے والی آوازوں کو
فاشست انداز میں دبانے پر لگے ہوئے تھے. اس وقت یہ صحافیوں کو اور پولیٹیکل ورکرز
کو گرفتار کر رہے تھے اس وقت انہوں نے پورے ملک میں ایک آپریشن چالو کیا ہوا تھا
تو کسی کی توجہ نہیں تھی تو اب جا کر رشیا سے پہلی گندم کی کھیپ کراچی میں پہنچی
ہے. لیکن اتنی تاخیر ہو گئی ہے کہ پورے پاکستان سے جو مناظر ہم دیکھ رہے ہیں. وہ
انتہائی افسوس ناک ہے عورتیں، بزرگ، بچے پیسے لے کر ٹرکوں کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے
ہیں اور گندم مانگ رہے ہیں بلوچستان میں اور سندھ میں بڑے ہی ڈسٹرب کرنے والے ویژولز
ہمیں دکھائی دے رہے ہیں ایون خیبر پختونخوا کے اندر بھی آٹے کی قلت ہو رہی ہے
پنجاب کے اندر آٹا من مانی قیمتوں کے اوپر بیچا جا رہا ہے تو ہر جگہ پہ اور گلگت
بلتستان میں بھی آٹے کی شارٹیج ہے حکومت نے ان کا کوٹہ بھی کم کیا ہے تو اس ساری
صورتحال کے لیے ذمہ دار یہ حکومت اور اس کی گورننس ہے یہ تو بہت تجربہ کار تھے لیکن
انہوں نے کہاں پہنچا دیا پاکستان کو فرحان نامی بندہ جو اٹھایا گیا ہے مونس الہی
کا دوست احمد فرحان یہ میں نے آپ کو تھوڑا عرصہ پہلے بتایا بھی تھا کہ اس کے حوالے
سے کہانی بھی آپ کو میں نے بتائی تھی مونس الٰہی کا یہ بزنس کے اندر پارٹنر واٹنر
بھی ہے ان کے ساتھ مل کر کام شام بھی کرتا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں یہ مونس الہی
کا فرنٹ مین ہے اور یہ بندہ غائب ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ پرویز الہی پر اور مونس
الٰہی پہ اب دباؤ ڈالا جائے گا کہ مونس صاحب اور پرویز صاحب ہمارے کہنے کے مطابق
چلیں اور عمران خان کو چھوڑیں یا اپنی سیاسی مستقبل کو چھوڑیں ہمارے کہنے کے مطابق
چلیں اس بندے کو گرفتار کر لیا گیا ہے اگر تو یہ بندہ اچانک منظر عام پہ آ جاتا ہے
اور سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ آ گیا ہے تو سمجھیں پھر کوئی نہ کوئی چیز طے ہو گئی
ہے اگر کوئی چیز طے نہ ہوئی تو پھر یہ بندہ بہت ممکن ہے کہ مونس کے خلاف استعمال کیا
جا سکتا ہے اور پرویز الہی صاحب کو باقاعدہ اس کے لیے دھمکی بھی لگائی جا سکتی ہے
کہ جناب عالی جو سمجھ آ رہی ہے آپ کو بات کی وہ اس طرح آپ کریں جیسے سمجھایا جا
رہا ہے آپ کو اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو پھر یہ بندہ ہمارے پاس ہے اور یہ
مونس کا فرنٹ میں ہے اور اس نے فلاں فلاں فلاں فلاں چیزیں جو ہیں وہ تسلیم کر دی ہیں
بہرحال ایف آئی اے نے کہا ہمارے پاس نہیں ہے پولیس نے کہا ہے جی ہمارے پاس بھی نہیں
ہے اب جب یہ اور عدالت کے اندر بھی یہ بیان
آ گیا ہے تو معاملہ یہ ہے پھر اس کو اٹھایا کس نے ہے یہ وہی پرانا وطیرہ ہے اٹھاؤ
لوگوں کو لے جا کر ان کو مارو کٹو ان سے جو ہے وہ پوچھو کہ تم نے کیا کیا ہے اور
لوگوں کے خلاف ان سے انفارمیشن نکلواؤ پھر اس انفارمیشن کو استعمال کرو سیاسی انجینئرنگ
کے لیے تو بظاہر یہ ویسا دکھائی دیتا ہے اور مونس الٰہی نے اپنے ٹویٹ میں بھی اس
سے ملتی جلتی بات کی ہے بہرحال اگر یہ اس نے مونس کے ساتھ مل کے کرپشن کی ہے یا
واقعی میں یہ فرنٹ مین اس لیول کا ہے تو
پھر اس کو ایف آئی اے اٹھائے نا مقدمہ درج کر کے پھر اس کو نیب اٹھائے مقدمہ درج
کر کے یہ یا انٹی کرپشن یا کوئی اور اٹھائے مقدمہ درج کر کے یہ کیا طریقہ ہے کہ ایک
آدمی کو اٹھا کے غائب کر دیا گیا ہے تو ریاست بھی موجود ہے. ریاستی ادارے بھی
موجود ہیں جن کی ذمہ داری ہے وہ بھی موجود ہیں. سارے ڈینایل میں ہیں اور بندہ غائب
ہے. تو یہ تو بنانا پبلک میں ہوتا ہے یہ نارمل ملکوں کے اندر ایسا نہیں ہوتا. کہ
بندہ اٹھا کے غائب کر دیا جائے صرف سیاسی انجینئرنگ مبینہ سیاسی انجینئرنگ جو کہی
جا رہی ہے اس کے لیے اب آ جائیں پرویز الہی صاحب کے بارے میں جو پیغام دیا ہے رانا
ثناء اللہ صاحب نے ایک تو حمزہ شہباز صاحب کو فوری طور پہ کہا گیا کہ آپ پاکستان
واپس پہنچیں جب بھی ان کو وزیر اعلی بنانے
کا ارادہ ہوتا ہے تو پھر ان کو پاکستان پہنچنے کا کہا جاتا ہے اور اگر ان کے وزیر
اعلی بننے کا امکان ہوتا ہے تو وہ پاکستان آ جاتے ہیں ادر وایز وہ پاکستان سے باہر
ہی رہتے ہیں حمزہ شہباز پاکستان میں نہیں آتے پاکستان سے باہر رہتے ہیں لیکن جیسے
ہی ان کو پتہ چلتا ہے کہ ان کا وزارت اعلی کا کوئی چانس بن رہا ہے اور کچھ پولیٹیکس
کرنی ہے تو پھر ان کو پاکستان میں کال کر کے بلا لیا جاتا ہے اتنی حیثیت ہے ان
لوگوں کے سامنے پاکستان کے لیے پرویز الہی استعفی دے دیں ان کے پاس ایک سو چھیاسی
ارکان نہیں ہیں یہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے ویسے تو ان کو آزاد بھی آ کر مل گئے ہیں
اور ایک آدھی اور جماعت نے بھی ان کو کہہ دیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے بھی
دو لوٹے چھوڑ کے باقی لوگ موجود ہیں اور ق لیگ کے اگر دس ہیں تو پھر تو بندے ایک
سو چھیاسی ہو جانے چاہییں لیکن اگر رانا ثناءاللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ ایک سو چھیاسی
نہیں ہے تو پھر ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا جادو چل گیا ہو وہ جو عمران خان صاحب
نے کہا کہ ان کو لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اعتماد کا ووٹ پرویز الہی کو
نہیں دینا ہو سکتا ہے بہت سارے ضمیر جگا دیے گئے ہوں اور آخری وقت میں ان کا پتہ
چل جائے اچھا دوسری جانب جو نون لیگ کی ایک پارلیمانی پارٹی کا انہوں نے ایک اجلاس
بلایا نون لیگ نے اور پیپلز پارٹی نے یہ دو بڑے اتحادی ہیں نون لیگ کے پاس ون سیکسٹی
سیون اراکین ہیں اور سات جو ہیں وہ ہیں پیپلز
پارٹی کے پاس ہیں تو ملا کر ون سیونٹی فور ان دونوں کے بنتے ہیں چار ان کے ساتھ مبینہ
طور پہ آزاد ہیں تو یہ ملا کر ون سیونٹی ایٹ بن جاتے ہیں لیکن وہاں پہ جو حاضری
ہوئی ہے وہ ایک سو پچاس سے بھی کم کی رہی ہے پیپلز پارٹی کے صرف دو لوگ آئے ہیں. یوسف
رضا گیلانی کے بیٹے اور ایک جو مرتضی حسن مرتضی وہ اور علی حیدر گیلانی یہ دو لوگ
آئے ہیں. انہوں نے اپنے پانچ اراکین کو بڑی سختی سے تاکید کی تھی لیکن وہ نہیں آئے
پی ایم ایل این کے اپنے بندے جو ہیں وہ کافی کم تھے ایک سو پچاس سے بھی کم لوگ
ٹوٹل اکٹھے ہوئے ہیں تو مشکلات تو ادھر نون لیگ کے لیے بھی ہیں کیونکہ ان کے لوگ
ناراض ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہے وہ شریف خاندان اپنے گھر لے جاتا
ہے تمام عہدے بھی تمام سہولتیں بھی پارٹی کے عہدے بھی اور حکومت کے عہدے بھی ہمیں
کچھ بھی نہیں ملتا کبھی بھی اور صرف ہمیں قربانی کے لیے رکھا ہوا ہے تھوڑے دن پہلے
انہوں نے یہ شکوے اور شکایتیں کیے بھی ہیں بہرحال مسلم لیگ نون کے ایک سو پینتالیس
کے قریب اور پیپلز پارٹی کے صرف دو ارکان شریک ہوئے ہیں پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ
میں تو صورتحال تو ان کے لیے بھی اتنی اچھی نہیں ہے لیٹ سی آنے والے دنوں میں ہوتا
کیا ہے اب تک کے لیے اتنا ہی۔ اپنا خیال رکھیے گا۔
اللہ حافظ ۔۔
0 Comments