عمران خان مذاکرات کے حق میں تھے لیکن پی ڈی ایم اس موقع کو اچھا اقدام نہیں سمجھ رہی ہے۔ پاکستان کو فی الوقت مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔ 


 پاکستان میں اب ایک نئی جنگ شروع ہونے والی ہے اور اس دفعہ یہ جنگ اتنی زیادہ خطرناک ہوگی کہ لوگ پچھلی بڑی بڑی جنگوں کو بھول جائیں گے پاکستان کے اندر اس وقت رانا ثناء اللہ جو وزیر داخلہ ہیں انہوں نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیا تھا کہ افغانستان دشمن ملک ہے اور یہ بیان دینے کے بعد امریکہ اور بھارت میں کتنی خوشیاں ہوئیں یہ آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں رانا ثناء اللہ نے بیان دیا ہے کہ اب ہم ایئر سٹرائیک کرنے جا رہے ہیں افغانستان میں انہوں نے کہا کہ اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ہینڈ اوور نہیں کریں گے تو ہم ایئر سٹرائک کریں گے دیکھیں دو چیزیں یہاں پر ذہن میں رکھ لیجیے گا. اس وقت اگر آپ یہ کام کرنے جا رہے ہیں سب سے پہلے ہمارا کنسرن ہے ٹی ٹی پی کا وہ بالکل جینین کنسرن ہے اور آپ کو یہ کنسرن بات چیت کے ذریعے حل کرنا پڑے گا کیونکہ جہاں تک آپ بات کر رہے ہیں افغانستان کی جنگ کی تو عمران خان نے ٹرمپ کو یہ بات بتا دی تھی کہ یہ گیارہ سو سال سے افغان لڑتے آ رہے ہیں۔ تو آپ یہ بھول جائیں کہ آپ ان پر جنگ مسلط کریں گے یا ان کے ساتھ لڑائی کریں گے تو یہ چپ کر کے بیٹھ جائیں گے جو بھی مسئلہ ہو وہ بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے ٹرمپ کو یہ بات سمجھ آگئی تھی اس نے اپنی فوجیں نکلوا لیں اب ہم وہ غلطی کرنے جا رہے ہیں امریکہ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم افغان طالبان کے ساتھ لڑ پڑیں اس کے بدلے وہ کوئی ہمیں سہولیات کر جائے آئی ایم ایف کے امداد دے دیں یہ وہ لیکن اس سے ہماری جو اکانومی کا نقصان ہوگا وہ آپ سوچ نہیں سکتے ہمیں کرنا کیا ہے ہمیں کرنا یہ ہے کہ اپنا مغربی بارڈر سکیور کر کے ان سے بات چیت کرنی ہے جب آپ وہاں پر سٹرایک کریں گے تو ہو گا کیا? اس کے بعد معاملہ یہ ہو گا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کھلا چھوڑ دیں گے. اور ان کو کہیں گے کہ جاؤ جا کر حملے کرو. وہ سب سے پہلے آئیں گے آپ کی باڑ توڑنے کے لیے. اور وہ اپنے تمام جنگجو لے کر بارڈر کے اوپر آ جائیں گے. اور اور وہاں پر آپ کی اتنی بڑی لڑائی شروع ہو جائے گی اتنی بڑی لڑائی شروع ہو جائے گی کہ آپ پچھلی بیس سال کی لڑائیوں کو بھول جائیں گے دیکھیے اللہ کا شکر ہے ہماری فوج ہماری پورے کے پورے معاملات ہم اتنے قابل  ہیں کہ ہم یہ چیزیں کر سکتے ہیں لیکن اس جنگ کا کوئی خاتمہ نہیں ہے. آخر کار آپ کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنا ہے. اگر امریکہ اتنے وسائل کے ساتھ یہاں پر کامیابی نہیں حاصل کر سکا. تو ہمیں کس بے وقوف نے کہا ہے کہ ہم جا کے لڑیں. آپ یہ دیکھیں کہ بھارت نے چائنا کے ساتھ اپنے معاملات طے کیے اور یہاں تک کہ کہ چائنہ نے ان کا علاقہ فتح کر لیا اس کے باوجود انہوں نے لڑائی نہیں کی ایسا نہیں ہے کہ انڈیا بالکل لڑ نہیں سکتا وہ لڑ سکتا ہے چائنہ کے مقابلے کا تو وہ ہے نہیں لیکن ایسی بھی بات نہیں ہے کہ وہ لڑ نہیں پائے لیکن انہوں نے مذاکرات کیے ہم یہاں پر کام کیا کیا ہے کیونکہ وہاں پر حکومت ہی ایک یہاں پر جس بندے کی حکومت تھی جو کہتا تھا کہ میں نے آرمی کو آپریشن نہیں کرنے چاہے امریکہ اور دے پیسہ دے کچھ بھی دے میں نے جو بھی کام کرنا ہے وہ صرف اور صرف بات چیت کرنی ہے عمران خان کے دور میں افغان طالبان بڑے خوش تھے کیونکہ امریکہ کو عمران خان نے انکار کیا تھا. اب پرابلم یہ ہے کہ جو حکومت عمران خان کو ہٹا کر چور دروازے سے آدھی رات کو امریکہ کی مرضی سے لائی گئی ہے. اس میں اتنی کیپیبلٹی نہیں ہے اور وہ لانے کا مقصد بھی کیا تھا. کہ بہت سارے کہ بہت سارے معاملات اب آپ جب جنگ کریں گے تو وہ ٹی ٹی پی کو کھلا چھوڑ دیں گے وہ کہیں گے کہ ٹھیک ہے جاؤ جا کر حملے کرو پھر جب وہ جا کر بڑی جنگ شروع کریں گے تو بتائیے کیا ہمارے اس وقت اتنے وسائل ہیں کہ ہم دو طرف بارڈر کی جنگ کو لڑ سکتے ہیں دیکھیے ہماری فوج اور ہماری ائیرفورس اس میں جتنی کیپبلٹی ہے اللہ کا شکر ہے ساری دنیا کو پتہ ہے وہ ہم نے آلریڈی دکھایا ہے بھارت کو. لیکن پرابلم یہ ہے کہ یہ دشمن ڈفرنٹ ہے یہ آپ کے اندر گھسا ہوتا ہے ان کے سلیپر سیلز ہوتے ہیں ان کی واپسی پر بھارت کھڑا ہے امریکہ کھڑا ہے اب امریکہ ہمیں ایک طرف کہتا ہے ان کے ساتھ لڑائی کرو خود ان سے واپس کر رہا ہے تو آپ اندازہ کیجیے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں یہ بات سب کو پتہ ہے کہ ٹی ٹی پی کا سی آئی اے کے ساتھ کیا گٹھ جوڑ ہے اب آپ ان کے خلاف سٹرایک کرتے ہیں. دیکھیں اشرف غنی دور کے اندر سٹرایک  ہو تو سمجھ آتی ہے. یہاں پر وہ دوستانہ حکومت آپ کی تھی جس کو آپ کہتے ہیں کہ افغان طالبان ہمارے اپنے ہیں بھائی ہیں. آپ یہ دیکھیے کہ افغان طالبان کے اندر جو گروپس ہیں اس وقت وہ حاوی ہوئے پڑے ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے والے گروپ نہیں ہیں۔ یعنی ان کے اندر پاکستان کے لیے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ دیکھیے خاص طور پر یاد رکھیے ملا برادر گروپ ہو یا ان میں آپ کو ملا یعقوب گروپ حقانی گروپ جس کو ہم کہتے ہیں وہ اس وقت گروپ تھوڑا سا پیچھے ہٹ گیا ہے. اس کی وجہ کیا ہے? اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر عورتوں کی یونیورسٹی کی تعلیم کو بین کر دیا ہے. یہاں تک کہ افغان طالبان کے جو میں گروپ ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو لیکن اس کے بعد وہ گروپ اس وقت حاوی آیا ہے جو جنگجو ہے جو سخت ہے جو لڑنے والا ہے اب صورتحال وہاں پر یہ پیدا ہو گئی ہے کہ جب وہ گروپ آ گیا تو اس نے پاکستانیوں کو بھی نہیں چھوڑنا وہ گروپ چاہے گا کہ جو جنگ انہوں نے افغانستان پر مسلط  کیا وہ پاکستان پر شروع کر دیں گے تو امریکہ بائیس سال میں اتنے وسائل سے نہیں جیتا تو ہم یہاں پر اپنا بیڑا غرق کرنے کے لیے کیوں تیار بیٹھے ہیں آپ بتائیے کہ آپ ایک جنگ افورڈ کر سکتے ہیں آپ جنگ کریں گے اس کے بعد وہ حملے کریں گے ملک کے اندر جوف و حراس پھیلے گا، جو ملک میں خوف و حراس پھیلے گا ظاہر سی بات ہے اس میں شہادتیں ہوتی ہیں لوگوں کی اور اور یہ کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے بہتر نہیں ہے نہ تو آپ کا سرمایہ دار آئے گا ویسے ہی آپ کے ملک کے اندر سارے کے سارے سرمایہ دار بھاگ رہے ہیں آپ یہ دیکھیں یہ پیپر یہ ایک اور آپ کی فیکٹری بند ہو رہی ہے یعنی ہر طرح کی فیکٹریز بند ہو رہی ہیں پاکستان میں کیونکہ جو  رجیم چینج ہوئی ہے اس کے جو اثرات ہیں مسئلہ کیا ہے مسئلہ یہاں پر یہ آ رہی ہے کہ آپ کو بیٹھ کر بات چیت کرنی ہے لیکن بیٹھ کر بات چیت وہ کرتے ہیں جو عوام کا نمائندہ ہو عمران خان کے دور میں بات چیت ہوتی تھی ان  سے بات چیت کر کے میں افغانستان سے آپ جانتے ہیں اس وقت افغان طالبان کے تین گروپ یہی جو آج حاوی ہیں وہ کہہ رہے تھے نہیں امریکہ کا ہم نے قبرستان بنا کر بھیجنا ہے ان کی ہڈیاں تابوتوں میں جانی چاہیے یہاں تک گفتگو ہو رہی تھی تو اس وقت عمران خان نے کہا کہ ان کی اتنی درخواست ہم نے ان سے کی ہم نے ان سے بات چیت کی امریکہ کو یہاں سے نکلوایا وہ گروپ تیار نہیں تھے یہاں تک بات چیت ہو گئی تھی کہ امریکہ افغانستان نکلنے سے پہلے پچاس ارب یا سو ارب ڈالرز یہاں پر ادا کر کے جائے گا ہرجانہ کے طور پر اس پر بات مزید آگے سو سال تک چلی جاتی. لیکن صورتحال یہ تھی کہ عمران خان نے منایا. ٹرمپ کو ساتھ رکھا. ٹرمپ نے کہا میں عزت سے لے کر جاؤں گا. ٹرمپ کو بھی فارغ کر دیا ان کی اسٹیبلشمنٹ نے. اور امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بھی فارغ کر دیا. اب اب اس کے بعد وہ چاہتے ہیں جنگ ہو اب آپ یہ سوچیے کہ اگر آپ اس جنگ میں کود پڑتے ہیں تو آپ افورڈ کر سکتے ہیں ملک کے اندر پھر ایک اور جنگ. یہ بات چیت کے ذریعے مسئلے حل کرنے والے ہیں. یہاں پہ ٹیبل ٹاک کرنی تھی. اور وہاں پر ہو نہیں رہی. اس کی وجہ یہ کہتے ہیں جی افغان طالبان مان نہیں رہے. او بھائی اس کی وجہ یہ ہے. وہ وہ ہم پر الزام لگاتے کچھ سیریس قیادت ہو تو بات چیت ہو. کل کو وہ کہہ رہے ہیں اب ہم افغانستان کے اندر یہ بات بالکل اہم ہے. وہ کہہ رہے ہیں جی امریکہ کو اڈے نہیں دیے عمران خان کو ہٹایا تو اب ان سے وہ بات چیت یعنی کرتے نہیں ہیں۔ حنا ربانی یا دیگر جاتے ہیں۔ تو ان سے وہ بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ حنا ربانی وہاں پر گئی۔ بات چیت کرنے کے لیے۔ تو آپ دیکھ لیں وہاں پر کوئی خیر ہی نہیں تھی۔ یہ اصل میں جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس میں آپ کو بری طرح نقصان پہنچانے کی تیاری ہے آپ کے ملک میں کونے  کونے میں مایوسی ،  ڈپریشن کا ماحول ہو گا ہمارے یہاں پر حملے وہ تمام چیزیں آپ بتائیے آپریشن اور وہ  تمام چیزیں اس کیلئے وسائل چاہیے ،  آپ کے ملک کے اندر   لوگوں کے  پاس ٹیکس دینے کو  پیسے نہیں ہے، آی ایم ایف کہہ رہا ہے آپ اپنا بجٹ بڑھاے، ٹیکس کرے۔ عوام کا کاروبار  چل  نہیں رہا، نوکریاں ان کے پاس نہیں ہے ، فیکٹریاں بند ہو رہی ہے ، دیکھیں عوام سے زیادہ تو تاجر ٹیکس دیتے ہیں جو فیکٹریز چلاتے ہیں خاص طور پر۔  تو وہ اگر ٹیکس نہیں دے پاتے ، آپکی ملیں کام نہیں کر رہی تو آپ ٹیکس کہاں سے لے گے ، ٹیکس نہیں ہوگا تو جنگی اخراجات آپ نے کہاں سے لینا  ، ڈالر کا ریٹ وہ 260 کا مارکیٹ میں نہیں مل رہا تو یہ ان کو شرم نہیں آ رہی یہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ یہاں کوئی ایسی ، یا یہ سوچ رہے تھے کہ امریکہ پیسے دیں دے گا ہمیں جم کے ۔ امریکہ سو ارب ڈالر بھی دے تو اس کے بعد بھی آپ اگلے دن بھیک مانگ رہے ہونگے کیونکہ آپ کی کوئی صلاحیت  ہی نہیں ہے آپ یہ سوچ رہے ہوں وہ فلاح! اوں بھائی آپ کو ان سے بات چیت کرنی ہے عوام کا بھیڑا غرق ہو جائیگا چاہیے امریکہ سو ارب ڈالر بھی دیں دے آپ اس ملک کے اندر، لوگ ملک چھوڑ کے جانا چاہیے گے، آٹھ لاکھ بندہ پہلے چلا گیا 2022 میں مزید اگلے سال آپ  چاہیے گے کہ 80 سال کہ لوگ بھی ملک چھوڑ کے چلے جائیں 1 کروڑ بندہ ملک چھوڑ کر چلا جایں۔ ٹیبل ٹاک کرنی پڑے گی آپ کو آپ ٹیبل ٹاک کرے عوام کو اعتماد میں لے بتائیں  ہو کیا رہا ہے وہاں پر کیا مسلہ ہے جب تک ٹیبل ٹاک آپ نہیں کریں گے اور یہ جو حکومت آئی ہے ان میں تو قابلیت ہی نہیں ہے بات چیت کرنے کی ، اگر کرنی ہوتی تو عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر ملک کو سٹیبل نہ کر لیتے  ، تو  اپنا ملک اس سے سٹیبل نہیں ہو رہا تو انہوں نے افغانستان کے ساتھ جا کر کیا کام کرنا ہے۔