بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

السلام و علیکم۔

  دو ہزار بائیس 2022ختم ہو گیا ہے اور اب   آپ دیکھیں گے کہ لوگ سارے جن کے ضمیر 

جاگے ہیں وہ آگے بڑھ کر انکشافات کرتے پھریں گے ۔ مصطفی نواز کھوکھر اب  میدان میں آئے 

ہیں اور انہوں نے  کلیئرلی بتایا ہے کہ اب  وہ کھل کر  بولیں گے اور جو ناانصافیاں  ہوتی رہی وہ اس پر

 آواز اٹھائیں گے اور انکشافات کریں گے۔ سب سے پہلے انہوں نے چنا ہے جنرل باجوہ کو،  انہوں 

نے کہا ہے کہ جب پی ڈی ایم  بنی  نہیں تھی تو ہم جیایچکیو جایا کرتے تھے باجوہ سے ملاقات ہوتی 

تھی،  یعنی یہ ساری پی ڈی ایم  کی جو تشکیل تھی وہ باجوہ کی مرضی سے فوجی ہاوس کے اندر  ہوا کرتی تھی ۔


 باجوہ  نے عمران خان کے ساتھ زیادتی کی اور اس پورے تحریک و عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے 

پیچھے باجوہ کا ہاتھ ہے یعنی عمران خان کا تختہ الٹنے والا باجوہ تھا اور انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ 

جنرل باجوہ کے خلاف اس پورے کھیل میں ثبوت موجود ہے لیکن میں اگر کچھ بول  دوں گا،  میں 

کچھ انکشافات کر دوں گا تو نہ تو  ٹی وی چینل چلا  سکیں گے،  اپ ڈیپ کر دیں گے آپ کو اجازت 

نہیں ہوگی لہذا میں آپ کو کلئیرلی ایک بات کہنا  چاہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ آج بھی نیوٹرل نہیں ہے ۔

 سو  لہذا اس  صورتحال میں عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ باجوہ کی مرضی سے تھا  اور باجوہ 

نے ہی عمران خان کا تختہ الٹنے میں مدد دی۔انہوں نے کہا کہ آج تو ہم لوگ بات کر رہے ہیں  

ایک ڈیڑھ سال بعد ایم کیوایم بھلے  آپ کو بات کرتے نظر آئیں گے کہ عمران خان کے خلاف 

ایم_ کیو_ ایم کو کیسے استعمال کیا گیا تھا  اور باجوہ نے ایم_ کیو_ ایم کا استعمال کرتا ہے عمران خان کو 

سخت سزا دی یعنی اس کا تختہ الٹا۔ انہوں نے کہا کہ جب  میں چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی حیات بلوچ ، صاحفیوں، علی وزیر  اور محسن داوڑ سمیت سندھ کے شاہد  کے بیٹے کے اغوا کے معاملے کا

 نوٹس لیا،  اور بہت ساری چیزیں ایسی تھی کہ جس پر شاید اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں تھی،  میرے 

اوپر دباؤ  تھا اور  کہا جاتا تھا کہ ان چیزوں کو نہ چھیڑے۔ انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو  وہاں 

پارٹی کے کچھ ارکان کے ووٹ سے اپوزیشن لیڈر بنایا گیا تو میں نے اعتراض اٹھایا، انہوں نے کہا  

یہ سارے کا  سارا جو کام تھا وہ باجوہ نے کیا، اسٹیبلشمنٹ اس وقت کرتی رہی کام  بیٹھ کر ۔ انہوں 

نے کہا  جو سیاستدان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کو تیار نہیں تھے،  بات کرنے کو تیار نہیں تھے،  بیٹھنے کو تیار نہیں تھے ، وہ باجوہ کو توسیع دینے کے لیے بارہ منٹ میں تاریخی قانون سازی کر بیٹھ

ے ۔ باجوہ اس وقت جاوید چودھری سمیت دیگر جگہوں سے کہہ رہا ہے کہ جی وہ میں نہیں 

اکسٹینشن چاہتا تھا  وہ تو  عمران خان نے خود دی۔


 اب  آپ سوچیں مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہے کہ  اسٹیبلشمنٹ کی  طرف سے اثر و رسوخ تھا۔  اگر 

جوابات میں آپ کو بتا دوں کہ کیا کچھ ہوا تھا تو آپ چلا  نہیں سکتے پھر آپ میڈیا پر ڈیپ  کر دیں 

گے، کاٹ دیں گے  تو آپ میں اگر اتنی ہمت نہیں ہے تو میں آپ کو کلیئر لی بتا دینا چاہتا ہوں کہ 

بلاول پر دباؤ تھا  عاصمہ جانگیر کانفرنس ان کو دیا گیا  بیان واپس لے لیا۔ انہوں نے کہا بلاول نے  

کوئی غلط بات نہیں کی جو اداروں کے بارے میں  آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے ورڈ use کیا تھا 

کہ پاکستان کے ٹاپ لوگوں کے بارے میں کہ وہ  عاصمہ جہانگیر نے جو بات کی تھی کہ ڈفر  ہے تو 

اس پر  بلاول نے جو بات کی اس پر  بیان  واپس لے لیا تو اس لئے مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ  ان 

پر دباؤ تھا ، پھر انہوں نے کہا کہ جی پورے ثبوت موجود ہیں کہ عمران خان کے خلاف ان لوگوں 

نےکیسے  کام کیا اور آج انہوں نے عمران خان کے حق میں کلیئر لی بات کہ دی ہے  کہ عمران خان 

کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔  اب ایک  چیز غور کی ہے کہ 2023    جب سٹارٹ ہوا ہے لوگ 

جب  2022 میں سلیبریٹ کرتے تھے آخری سورج جا رہا ہوں تو اسکی  تصاویر آتے تھے ۔ 

لوگوں نے یہ کام نہیں کیا  نہ صرف پاکستانی بلکہ اوورسیز لوگوں نے بھی یہ کام نہیں کیا۔  اس

 کی وجہ کیا ہے، اس کی  سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ مایوس ہوگئے اب لوگوں کو آپ جتنی 

مرضی کوشش کر لےاپ امید نہیں دلا  سکتے  کیونکہ ان کو پتہ چل گیا ہے کہ پچھتر سال سے 

ہمارے ساتھ دھوکا ہوتا رہا ہے،  فراڈ  ہوتا رہا  ہے اور ہمیں بے وقوف بنایا جاتا ہے۔  اور آپ  

لوگوں کو جنریشن ٹو  جنریشن پاگل بنائیں گے تو لوگوں کا دل تو ٹوٹے گا ۔ اب مصطفی نواز کھوکھر

 کی جانب سے بات یے، اب دیکھیے گا  لوگ کھل  کر سامنے آئیں گے جس طرح مثال کے طور پر 

عالیہ  لطیف کھوسہ نے بات کی  اور یہ لطیف کھوسہ نے جو گفتگو کی ہے اصل میں انہوں نے  بالکل 

ٹھیک بات کی انہوں نے کہا کہ سارے کھیل کرنے والے یہ لوگ تھے پھر انہوں نے پاکستان 

کے ایٹم بم کے بارے میں بھی کہا  کہ یہ حکومت آئی ایم ایف کے ان سب کو بھیج دیں گی۔ 

انہوں نے کہا بکھ  جانا ہے۔  آپ دیکھئے کہ صورتحال میں کوششیں کی جا رہی ہے کہ  پی ٹی آئی کے 

اندر جو چند اراکین ہے وہ  کوشش یہ کر رہے ہے  کہ 3 ان لوگوں کو امیڈیٹلی  پارٹی کے اندر لے 

کر آئیں ۔ ایک چودھری نثارکو، ایک  مصطفیٰ نواز کھوکھر کو اور لطیف کھوسہ کو، لیکن پی ٹی آئی کے 

اندر ایک گروپ ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ  عمران خان کو یہ غلطی نہ کرنا 2018 والی کہ وہ سب 

باجوہ کے کہنے پر آپ نے بہت سارے لوگوں کو پارٹی میں شمولیت دی ۔  کچھ لوگ آپ کی پارٹی 

میں ایجنٹ بن کر آتے ہیں اور وہ زرداری سمیت نواز شریف اور باجوہ  جیسے لوگوں کا کام کر رہے 

ہوتے ہیں اور آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا ۔ تو لہذا  اس صورتحال میں کوئی غلطی نہ کرنا، یہاں تک تو 

مصطفی نواز کھوکھر نے بات کیا اور پی ٹی آئی کے اندر  لوگ ہے۔ آپ  یہ دیکھیں  کہ جاوید چوہدری 

اس وقت باجوہ اور  فیض کا ترجمان جو بنا ہوا  ہے وہ  کیا باتیں کر رہا  ہے۔  دیکھیں جی! کہ عمران خان 

کو این _ آرو  دیا ہے جنرل فیض نے  ۔  پھر اس کے بعد زرداری کو بھی  این_ آرو  دیا ہے جنرل فیض 

نے عمران خان کے کہنے پر اور باجوہ کا حکم تھا ۔ اصل میں  جاوید چوہدری انجانے میں ہی سہی لیکن 

ایک چارج شیٹ بناتا جا رہا ہے باجوہ کے   خلاف۔ اور دیکھی

 ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے  کہ وقت آنے پر جس طرح وہ انصار عباسی کے خلاف وہ جج نے کہا کہ 

بھئی میں نےتو  ایسی بات اس  کو کئی  نہیں،اور بعد میں جھوٹا ثابت ہوا ۔ یہ  چوہدری کے ساتھ بھی 

یہ  صورتحال ہوگی یہ بھی عین موقع کے اوپر  جب  حالات اس طرف جائیں گے تو  ان کے ساتھ بھی  یہ کام ہوگا۔

  اس وقت  جو معاملات چل رہے ہیں ملکی  سطح پر۔  ایک بات  آپ کو کھل  کے سمجھ آگئی ہے کہ 

عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے الیکشن ہی کروانا ہے   ۔ ان لوگوں نے عمران خان کے ساتھ آپ 

یقین کیجیے اتنی زیادتی کی ، اتنی زیادتی کی جیسے باجوہ کو ایکسٹینشن مل گئی تھی اس کے بعد اس نے 

فیصلہ کرلیا کہ اب عمران خان کو اس نے  چھوڑنا نہیں ہے اور آج باجوہ  کہتے ہے کہ  مجھے اعتماد  میں  

نہیں لیا گیا یہ  جو جب اکسٹینشن اس کو  کرنی تھی مجھے اعتماد میں لیے بغیر اس نے سارا کام کیا اور 

مصطفی نواز کھوکھر کہتا ہے جو کہ سینیٹر رہ چکا ہے۔ اس نے کہا یہ  سارے کا سارا کام باجوہ کی مرضی 

سے ہوا تھا اور جی ایچ کیو کے اندر جو  ملاقاتیں تھی ، اس نے کہا میں خود  بھی گیا  ملاقات کرنے کے 

لئے۔ وہاں پر  ا بہت ساری باتیں ہوتی تھی۔  ملاقاتیں ہوئی تھی اس کے بعد یہ سارے کا سارا معاملہ سامنے آیا ۔ اب آپ بتا دیں کہ کس طرح عمران خان ان پر بھروسہ کرسکتا ہے یعنی آپ

  سوچیئے،  ایک ملک کا وزیراعظم تھا ۔ اب آپ  دنیا کے اندر دیکھیں   وہ  ٹیکنالوجی کی بات کر رہے 

ہیں لوگوں نے سلیبریٹ کیا 2023  کی آمد کو اور سارا کچھ ۔ آپ کہا پر  کھڑے ہیں آپ کے 

ملک میں کوئی ایک خیر کی خبر بتا دے دیں، ایک خیر کی خبر بتا دیں  کہ آپ  کوئی ایک امید کی بات 

بتا دے کہ  یار یہ ملک کے اندر   ٹھیک ہونے  جا رہا  ہے۔  ان لوگوں نے اصل میں عمران خان کے 

ساتھ وہ  زیادتیاں کی آپ سوچئے میڈیا ان کے کنٹرول میں۔ 

باجوہ نے  کس طرح میڈیا کو کنٹرول کر کے اس کا نظارہ آپ کو ملتا  ۔ جاوید چوہدری اس کے لیے 

کالم بر کالم  لکھتے   جا رہا ہے آپ یہ سوچیں انصار عباسی اس پر گفتگو کر رہا ہے کامران شاہد گفتگو 

کررہا ہے یہ جو جتنے  منصور علی خان سمیت یہ سارے کے سارے  آج ہی آن بورڈ ہے

 تو سوچیں ریٹائر ہونے کے بعد یہ آن بورڈ ہے تو اس وقت کیا تھے۔ سوچ لے ایک بات کہ ق  

لیگ والے آج آن بورڈ ہے  اور یہ بات چیت کر رہے ہیں کہ جی  وہ باجوہ کے خلاف باتیں سنیں 

گے تو جب وہ اقتدار میں تھا، پاور میں تھا  تو انہوں نے  کیا کچھ کیا۔  ان لوگوں نے جو حالات پیدا کی 

ہے اس کے بعد پوری دنیا کا اعتماد ہم پر آٹھ گیا۔ چائنہ اور سعودی عرب سمیت وہ  کہہ رہے ہیں 

کہ  آپ کی کیا  پالیسی ہے ۔ سال پہلے کوئی اور بندہ ہوتا ہے، سال بعد کوئی اور آجاتا ہے ، آپ کی 

پالیسی نہیں ہے  ، آپکے ملک کا وزیراعظم کام نہیں کرتا اور آپ نے کوئی پالیسی ڈھنگ کی بنائی 

نہیں ۔ یہاں تو آپ 15 یا 20 سالہ  نجم سیٹھی کو دیکھ لیں اس نے آکر کرکٹ کے دھجیاں اڑانا 

شروع کر دی ، وہی چمچے سارے دو نمبر لوگ آگئے اور رمیز راجہ کو کہہ رہے ہیں کہ میری جان کو 

خطرہ تھا  اور مجھے آی جی نے آکر کہا کہ آپکی جان  لے سکتے ہیں لوگ  لہذا گاڑی کا استعمال کرے جو 

بلٹ پروف ہوں  تو آپ سوچیے جو میچ فکسنگ کے خلاف ہوں ۔ لہذا رمیز راجہ  جیسا بندہ اس کو 

فارغ کیا جا سکتا ہے تو عمران خان کی صورتحال کیا تھی ۔ یہ اصل میں مافیاں ہے جو کرنے والے 

لوگ تھے وہ باجوہ ٹائم خود مافیا تھا مافیا کا حصہ نہیں تو وہ خود  مافیا   تھا جنہوں نے عمران خان کے ساتھ 

یہ  کام کیا۔