مائنس عمران خان، جے آئی ٹی پر دباؤ پھر ناکام، کس ایم پی اے کو 1.35 ارب روپے کی پیشکش کر دی؟

 

پاکستان کی تازہ ترین خبروں پر عمران ریاض خان کا خصوصی تجزیہ

  

سب سے پہلے تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے بھی ٹویٹ کر کے ایک خبر کی کنفرمیشن کر دی ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق میرے خلاف قتل کی سازش کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی جس کو جے آئی ٹی کہتے ہیں اس کے اراکین پر جے آئی ٹی کے نتائج سے فاصلہ اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے یعنی جس نتیجے پر وہ جے آئی ٹی پہنچی ہے ان نتائج سے کچھ اراکین کو کہا جا رہا ہے کہ آپ دور ہٹ جائیں اور آپ ان سے اختلافات کریں اور اس سے میرے اس یقین پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کرنے کے پیچھے طاقتور حلقے ہی کار فرما تھے کیونکہ جو لوگ دباؤ ڈال رہے ہیں جے آئی ٹی کے اوپر عمران خان صاحب کا یہ ماننا ہے کہ بار بار مداخلت کیوں کی جاتی ہے جب عمران خان صاحب کے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا فوری طور پر ویڈیو نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی طاقتور لوگ تھے اس کے پیچھے کارفرما تھے کس طریقے سے پورا نظام یرغمال بنا کس طریقے سے ڈی پی او کا موبائل استعمال ہوا کس طریقے سے ڈی پی او نے بعد میں تفتیش میں تعاون کرنے سے ہی انکار کر دیا. کس طریقے سے سی ٹی ڈی کے اندر ویڈیو بنی. کس طریقے سے سی ٹی ڈی نے بھی بعد میں تفتیش میں یا تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا کس طریقے سے جو پہلی انکوائری رپورٹ ہے اس کو فوری طور پہ پہنچایا گیا ڈی پی او کے پاس اور وہاں سے پھر کہیں اور اور وہاں سے وائرل ہو گئی یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو عمران خان صاحب کے شک کو پختہ کر رہی تھیں پھر ایف آئی آر نہیں ہونے دی گئی پھر جب ایف آئی آر ہوئی تو وہ کس طرح کی ہوئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ جی میں آپ مجھے ٹرانسفر کر دیں میں ایف آئی آر نہیں کرتا یہ حالات عمران خان صاحب کو بتا رہے تھے کہ پنجاب حکومت سے وہ کہیں زیادہ طاقتور لوگ ہیں جو اس کیس کو کوور اپ کر رہے ہیں اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں ابھی جب جے آئی ٹی ایک عمران خان صاحب کی تحقیقات کے لیے پنجاب میں بنی۔ تو اس کے اندر ایسے آفیسرز کو شامل کیا گیا جو نارملی دباؤ میں نہ آئے اور ٹھیک رپورٹنگ کرے۔ تو ان آفیسرز نے ایک انکوائری رپورٹ بنائی اور عدالت میں جمع کروائی۔ اس کی بنیاد پہ عمران خان صاحب نے ایک پریس کانفرنس کی اور پورے پاکستان میں رولا پڑ گیا۔ اب ان لوگوں پہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے آفیسرز پہ جو جے آئی ٹی کا حصہ ہے کہ جناب آپ اپنے آپ کو جو جے آئی ٹی کی تحقیقات ہیں ان سے دور کر لیں یا جو نتیجے پہ جے آئی ٹی پہنچی ہے اس نتائج سے اپنے آپ کو فاصلے پر لے جائیں آپ یہ کہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے اب ان کے اوپر دباؤ ڈالا جا رہا ہے دباؤ بلوا کر ڈالا گیا ہے دو مختلف جگہوں پہ جو میں نے آپ کو پہلے بتایا ہے اور وہ دباؤ لگاتار ڈالا جا رہا ہے چار لوگ دباؤ کے اندر ہیں اب ایک خبر بھی اس کی تصدیق کرتی ہے اس بات کی اور وہ خبر جو ہے وہ ایک میڈیا میں چھپی بھی ہے خبر کہتی کیا ہے اس کو آپ سنیں گے آپ کو ایڈیا ہو جائے گا کہ واقعی میں اب گیم شروع ہو گئی ہے میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں یہ گیم شروع کر دی جائے گی اور اس قسم کی خبریں آئیں گی اور اس کے بعد پھر جے آئی ٹی کے ممبرز یہ کہنے پر ان کو مجبور کیا جائے گا جناب دیکھیں یہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ہم سے زبردستی لکھوائی گئی ہے ہم تو یہ کہنا نہیں چاہتے تھے حملہ آور اکیلا ہی تھا حملہ آور زیادہ نہیں تھے اب اس طرح کی چیزیں میں نے آپ سے کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں ہوں گی ابھی ذرائع کے حوالے سے خبریں لگوائی جا رہی ہیں ایک میڈیا میں یہ خبر لگی ہے اور بھی میڈیاز میں لگی لیکن میں ایک میڈیا سے آپ کو پڑھ کے بتا دیتا ہوں. عمران خان پر حملے کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے معاملے پر جے آئی ٹی کے چار ممبران میں نے آپ کو چار ممبران کا کہا تھا نا کہ چار لوگوں کے اوپر دباؤ ہے چار ممبران اور سی سی پی او لاہور کے مابین اختلافات سامنے آئے ہیں. یہ کہا جا رہا ہے ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی میں سی سی پی او لاہور نے انٹی کرپشن کے ایک افسر کو تفتیش سونپ دی ہے انٹی کرپشن میں تعینات انور شاہ ملزم سے اس کیس کی تفتیش کر رہے ہیں ملزم سے جے آئی ٹی کے کسی ممبر کو تفتیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس پر جے آئی ٹی کے چار ممبران نے موجودہ تفتیش سے اختلاف کر دیا حالانکہ جو جے آئی ٹی ہے اس کی رپورٹ ہی مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ تمام کے پاس حقائق موجود نہ ہوں اور ایسا نہیں ہوتا کہ سب نے جا کے کوئی ٹراچر کرنا ہوتا ہے اس کے اوپر یہ تو تحقیقات ہیں کسی کی کوئی ڈیوٹی ہے کسی کی کوئی ڈیوٹی ہے کوئی فرانزک کو سمجھتا ہے کوئی کسی اور معاملے کو سمجھتا ہے تو سب اپنی ایک مشترکہ ایپرٹ کے ساتھ ایک رپورٹ تیار کرتے اور ہر جے آئی ٹی کے اندر ایک ممبر ایسا ہوتا ہے جو تمام ڈیٹا کو کمپائل کر رہا ہوتا ہے وہ کہیں جائے یا نہ جائے ساروں کی انفارمیشن کو اکٹھا کر رہا ہوتا ہے تاکہ جے آئی ٹی فاینلی کسی نتیجے پر پہنچ جائے پھر جے آئی ٹی کے چار ممبران نے محکمہ داخلہ اور آئی جی پنجاب کو اس بارے میں آگاہ کر دیا ہے اب میں نے آپ کو بتایا تھا ابھی ان کو بلوایا گیا ہے جن ممبران نے اختلاف کیا اب ان کے نام آگئے ہیں جو یہ نام خبر میں آئے ہیں جی میں آپ کو نہیں بتا رہا کہ کن پہ دباؤ ہے لیکن یہ خبر میں آئے خرم شاہ نصیب اللہ احسان اللہ چوہان اور ملک طارق محبوب تو واضح رہے کہ ملزم نوید کو گزشتہ روز جوڈیشل کر دیا گیا ہے اس کو جیل بھجوا دیا گیا ہے میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ اب عمران خان صاحب کی جو جے آئی ٹی ہے ان کے ممبرز کے اوپر اب دباؤ ڈالا جائے گا اور دباؤ ڈال کر ان کا جو موقف ہے جو جے آئی ٹی کے اندر موقف تھا اس کو بدلنے کی کوشش کی جائے گی بدل بھی دیں گے مجھے پتہ ہے بدل دیں گے سب جانتے ہیں کہ یہ بھی بیچارے اسی نظام کے اندر کام کرتے ہیں بیوروکریٹ ان کو وہی کہنا پڑے گا جو انہیں کہا جائے گا اسٹیبلشمنٹ کا یا نظام کا ان کے اوپر جب دباؤ آئے گا تو ٹھیک ہے لیکن لوگ حقائق جانتے ہیں اور لوگوں کو چیزوں کی سمجھ آ رہی ہے الیکشن کو بہت زیادہ بھی آگے لے جائیں نا یہ والی امپورٹیڈ حکومت وہ الیکشن کو آگے اس لیے لے جا رہے ہیں کہ عمران خان صاحب کی مقبولیت نیچے آ جائے اور امپورٹیڈ حکومت کی مقبولیت بڑھ جائے اب اس کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں ایک عمران خان صاحب باہر نہ نکل پائیں ان کے اوپر حال ہی میں گولیاں چلائی گئی ہیں اور اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ جب دوبارہ وہ باہر نکلیں گے دوبارہ ان کے اوپر گولیاں چلائی جائیں گی۔ اور اس طرح کی خبریں بہت زیادہ آ رہی ہیں ان کو پوائزن کرنے کی ان کے اوپر گولیاں چلانے کی یہ ساری خبریں بار بار آ رہی ہیں مخالفین کو یہ لگتا ہے کہ اگر عمران خان صاحب کو مار بھی دیا گیا تو پھر بھی تھوڑے عرصے کے بعد حالات سنبھل جائیں گے جیسے بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے بعد سنبھل گئے تھے اب معاملہ یہ ہے کہ بہت بھی کھینچ تان کے یہ لے جائیں عمران خان صاحب کی جیسی ٹانگ ٹھیک ہو گئی وہ چلنا پڑنا شروع کر دیں گے وہ خیبر پختونخواہ جائیں گے وہ پنجاب میں پھریں گے وہ سندھ میں جائیں گے وہ بلوچستان کا بھی ویزٹ کریں گے اور دوبارہ اپنی مقبولیت کو اوپر لے جانا شروع کر دیں گے یہی ان کے لیے مومینٹم بنانا مشکل نہیں ہے دیکھیے نو مہینے ہو گئے ہیں اس حکومت کو آئے ہوئے اور نو مہینوں کے اندر یہ حکومت کچھ ایسا نہیں کر پائی کہ اپنی مقبولیت کو بڑھا لے اور عمران خان کی مقبولیت کو کم کر دے۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت پی ڈی ایم کی حکومت کی کم ہو جاتی ہے اور عمران خان کی بڑھ جاتی ہے تو ایسی صورتحال میں اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگلے چھ یا سات مہینے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کم ہو جائے گی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کی مقبولیت بڑھ جائے گی۔ اب اسی ایک سوچ کے ساتھ اس الیکشن کو کھینچنا چاہتے ہیں بہت بھی کھینچیں تو یہ اپنی حکومت کو جولائی تک کھینچ لیں گے لیکن ایک بات یاد رکھیے گا اگر یہ جولائی تک جاتے ہیں تو ان کو ایک بجٹ اور دینا پڑے گا اور پھر یہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے دو بجٹ دیے ہیں ایک دو ہزار بائیس کا اور ایک دو ہزار تئیس کا اور اگر یہ دوبارہ بجٹ دے دیتے ہیں تو پھر ان کے پاس یہ بہانہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ سارے الزامات ماضی کی طرح عمران خان صاحب کے اوپر ڈال دیں۔ مثال کے طور پہ عمران خان صاحب کی مقبولیت کم کرنے کے لیے ان کے اوپر دہشت گردی کے مقدمے کروائے گئے سارا کا سارا میڈیا ان کے اوپر چھوڑ دیا گیا اور توشہ خانہ اور گھڑی والی کہانیاں آڈیوز ان کی نکالی گئیں ویڈیوز نکال کے آڈیوز نکال کے ان کو وائرل کیا گیا اداروں سے لڑانے کی ایک بڑی زبردست کوشش کی گئی توہین عدالت نے ملک سے غداری بغاوت یہ سارے الزامات ان کے اوپر لگائے گئے. اور الیکشن کمیشن کی بھی توہین ہو رہی ہے جی انہوں نے بھی اب وہ گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا ہے لٹ سی کہ وہ گرفتار کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے گولیاں تک ماری گئی عمران خان کو لیکن ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی گرفتاری کی کوششیں بھی بار بار کی گئیں ملک کی ہر برائی عمران خان صاحب کے کھاتے میں ڈالی گئی چاہے وہ مہنگائی ہے چاہے کچھ بھی ہے لیکن جتنا زیادہ تاخیر کرے گی یہ حکومت الیکشن میں اتنا زیادہ الزام ان کے اوپر آتا جائے گا بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو مانتے تھے کہ عمران خان صاحب کے فیصلوں کی وجہ سے یا ان کی پالیسیز کی وجہ سے اس حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے بعض بہت سارے لوگ اس بات کو مانتے ہیں لیکن لیکن اب نہیں مانتے اب انہیں یہ لگتا ہے کہ نو مہینے ہو گئے ہیں اس حکومت کو اب یہ وہ بہانہ نہیں کر سکتی اب یہ خود ڈیلیور نہیں کر پا رہے اور آپ یہ سوچیے کہ جو باقی تھوڑے سے لوگ رہ گئے ہیں کیا چھ مہینے کے بعد وہ مان رہے ہوں گے کہ ڈیڑھ سال آپ نے حکومت کر لی تو ڈیڑھ سال حکومت کرنے کے بعد، "یہ کیسے ممکن ہے" کہ آپ کہیں کہ عمران خان ذمہ دار ہے سارے حالات کے لیے جس نے صرف دس روپے پٹرول سستا کیا تھا اور ڈار صاحب نے تو یہاں پہ لسٹ ہی مار دیا ہے بہرحال امداد کے پیسے سے بعض لوگوں نے یہ بات کرنا شروع کی ہے کہ جو امداد کا پیسہ آ رہا ہے اس پیسے کی وجہ سے پاکستان کے اندر ڈالر مستحکم ہو جائے گا اکنامی سٹیبل ہو جائے گی اور پاکستان جو ڈیفالٹ کی طرف خدانخواستہ بڑھ رہا تھا وہ رک جائے گا تو ایسا نہیں ہے پاکستان ڈیفالٹ کی طرف لگاتار بڑھ رہا ہے اور ہو سکتا ہے ابھی نہ وہ اس دور حکومت میں نہ ہو نگران حکومت میں ہو جائے نگران حکومت میں نہ ہو اگلی حکومت میں ہو جائے لیکن یہ جو پالیسیز چل رہی ہیں جب تک ان کو نہیں بدلا جائے گا جب تک کہ پاکستان کے اندر معیشت کا دوبارہ سے بوم نہیں آئے گا تب تک یہ خطرہ پاکستان کے اوپر منڈلاتا رہے گا پاکستان کے اندر سے کوئی خزانے تو نکلتے نہیں ہیں تو جب خزانے نہیں نکلتے تو پھر آپ کے پاس رہ جاتا ہے صرف یہ کہ قوم محنت کرے ٹیکس دے اور وہ پھر آپ قرضے اتارے تو اس کے لیے یہ کام کرنا پڑے گا اور جو پیسہ امداد کے طور پہ ملا ہے یا قرض کے طور پہ ملا ہے کیونکہ زیادہ پیسہ قرض کے طور پہ ملا ہے بہت سستا قرضہ پاکستان کو مل گیا ہے لیکن یہ پیسہ پروجیکٹس کی صورت میں آئے گا اور دو سے تین سال میں پاکستان پہنچے گا ایسا نہیں ہے کہ ابھی جہاز میں بھر کے پیسہ پاکستان آ جائے گا یا دنیا جو ہے وہ اس پیسے کو پاکستان کی بینک اکاؤنٹس کے اندر فوری طور پر منتقل کر دے گی تھوڑا بہت ہو بھی سکتا ہے لیکن زیادہ پیسہ نہیں آئے گا اور اکنامی، مہنگائی، حالات، معیشت یہ چیزیں ایسے ہی رہیں گی۔ ان کو بدلنے کے لیے حکومت کو کام کرنا پڑے گا، گورننس دکھانی پڑے گی۔ اب پی ٹی آئی کے لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ سارا آن لائن سیشن تھا جن میں کوئی بڑا لیڈر شامل نہیں ہوا تو پھر آپ کو پاکستان میں کرنا چاہیے تھا سیلاب زدہ علاقوں سے بجائے اس کے کہ آپ اتنے کروڑوں روپے خرچ کر کے اتنا بڑا ٹبر لے کے اتنے سارے لوگوں کو لے کے اور آپ پہنچ گئے جنیوا میں اور وہاں پہ قیام بھی کر رہے ہیں خرچہ بھی کر رہے ہیں کانفرنس بھی کر رہے ہیں. اس کو آپ پاکستان سے بھی کر سکتے تھے اور اقوام متحدہ کی ٹیم کو پاکستان میں بلواتے سیلاب زدہ علاقوں سے آپ یہ کرتے تو شاید اس کا امپیکٹ بھی کچھ اور ہوتا لیکن یہ ان کا کہنا ہے حکومت کی اپنی ایک سوچ ہے اس کے مطابق حکومت چلی ہے پنجاب حکومت کے اندر اب ایک نیا گیم شروع ہو گیا ہے اس میں فواد چوہدری صاحب نے عمران خان صاحب کے مانیس کرنے کی ہم بات کر رہے تھے تو انہوں نے ایک بڑی زبردست بات کی انہوں نے کہا عمران خان کو مانیس کرنا ہے تو مارشل لاء لگا دیا جائے ملک کے اندر بس یہی ایک طریقہ ہے کہ آپ مانیس کر سکتے ہیں تمام پولیٹیکل پارٹیز کو ہی ماینس کر دیں گے جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوں گے اور سیاسی استحکام کے لیے صاف اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے یہ بات تو سارے ہی کر رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے کلیم کیا کہ پنجاب کے اندر ان کے پاس ایک سو اٹھاسی اراکین موجود ہیں۔ یہ کون ہے بھلا دیکھیں پی ٹی آئی کے پاس اپنے ون ایٹی لوگ ہیں اچھا ایک سو اسی پی ٹی آئی کے پاس ہیں دس جو ہیں وہ ق لیگ کے پاس ہیں تو ملا کر ہو جاتے ہیں ایک سو نوے ایک آزاد امیدوار عمران خان صاحب کو آکر مل، ملال وڑائچ تو یہ ملا کر ہو جاتا ہے ایک سو اکیانوے اب اس میں سے جو تین نکلیں گے نا وہ پی ٹی آئی کے ہیں ان میں سے ایک آپ کو یاد ہو گا مسعود مجید یہ رحیم یار خان سے پاکستان تحریک انصاف کا ایم پی اے تھا مبینہ طور پہ چالیس کروڑ روپیہ لے کے ترکی شفٹ ہو گیا اور پھر یہ واپس نہیں آیا اس کے گھر کے باہر بہت احتجاج بھی ہوا تھا تو یہ لوٹا ہو گیا تھا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ممبر اسمبلی تو ہے لیکن یہ موجود نہیں ہے اور یہ پی ٹی آئی کو ووٹ کرنے والا نہیں ہے دوسرا جو ہے وہ دوست مزاری یہ ڈپٹی سپیکر تھا پاکستان تحریک انصاف کا بعد میں یہ لوٹا ہو گیا تھا ادھر چلا گیا تھا تو یہ بھی نہیں تیسری جو خاتون ہیں مومنہ وحید یہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں اور یہ بھی اب ووٹ نہیں کریں گے ان تین لوگوں کو اگر آپ نکال دیتے ہیں تو ایک سو اکانوے میں سے کم ہو کر ایک سو اٹھاسی ہو جاتے ہیں دو پھر بھی باقی ہیں لیکن فواد چوہدری صاحب نے ایک بڑا سیریس الیگیشن لگایا انہوں نے کہا کہ ہمارے پانچ ایم پی ایز کو ایک ارب بیس کروڑ روپے کی آفر کی گئی ہے یہ فواد چوہدری صاحب نے الیگیشن لگایا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ آفر موجود ہے ہمارے پانچ ایم پی ایز کے لیے اگر پانچ ایم پی ایز ٹوٹ جاتے ہیں یعنی دوست مزاری پہلے ہی ٹوٹے ہوئے ہیں اور مسعود مجید پہلے ٹوٹے ہوئے ہیں مومنہ وحید کو لے گئے ہیں پانچ اور توڑ دیتے ہیں تو پھر کسی صورت بھی پرویز الہی اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے لیکن کیا اس کے بعد حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب بن جائیں گے وہ بھی نہیں بن پائیں گے تو ہوگا کیا ہوگا یہ کہ جب یہ دونوں وزیر اعلی پنجاب نہیں بن پائیں گے تو رن آف الیکشن ہوگا اور اگر اس میں حالات خراب ہو جاتے ہیں تو پھر کوشش کی جائے گی کہ پنجاب میں گورنر راج لگا دیا جائے اور یہ کوشش رانا ثناء اللہ صاحب کے بیان سے ظاہر ہے انہوں نے کہا پنجاب میں گورنر راج کا امکان پیدا ہو گیا ہے رانا ثناء اللہ صاحب نے یہ کہا اور یعنی یہ پنجاب کی بات وہ کر رہے ہیں پی ٹی آئی پر تنقید کر رہے ہیں اور عمران خان صاحب نے معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے یہ بھی کہہ رہے ہیں باقی ساری چیزیں کہہ رہے ہیں لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ پرویز الہی صاحب نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا اور مونس الٰہی واپس آئیں اور بات کا جواب دیں۔ منی لانڈرنگ انہوں نے کی ہوئی ہے ویسے ان کے اوپر کیسز چل رہے ہیں۔ چوہدری فیملی کے اوپر اچھی بات ہے کیسز چلنے چاہییں۔ قانون کے مطابق چلنے چاہییں۔ سب کو بلا کر پوچھنا چاہیے کہ بھائی پیسہ اور مال کیسے بنایا؟ پرویز الہی کو بھی بلانا چاہیے۔ ان کے گھر والوں کو بھی بلانا چاہیے۔ جن جنہوں نے پیسہ بنایا جن جن کے اکاؤنٹوں کے اوپر پیسہ آیا ان سے پوچھیں جناب پیسہ کیسے آیا اور کہاں سے آیا؟ اور اگر وہ جواب نہیں دے سکتے تو انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور پیسہ ان سے برآمد کیا جائے۔ یہ تو قانونی طریقہ ہے لیکن ان طریقوں کو زیادہ تر پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ بڑی زیادتی ہے یعنی چوہدری برادران کے خلاف کیسز تھے چنگے پلے وہ پھر پچھلے کئی سالوں میں چلے ہی نہیں چلائے ہی نہیں گئے اور اب پولیٹیکل انجینئرنگ کرنی ہے تو اب چلائے جا رہے ہیں کیسز چلنے چاہیے لیکن سیاسی انجینئرنگ کے لیے نہیں چلنے چاہیے اچھا جی جنیوا میں جو ڈار صاحب کے مذاکرات ہوئے ہیں آئی ایم ایف کے ساتھ اس کے اوپر بڑی بات چیت ہو رہی تھی کہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا شہباز شریف نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ تین دن کے اندر جو ہے وہ آئی ایم ایف کے لوگ پاکستان آ جائیں گے اور ہمارا ان کے ساتھ پلان چل جائے گا آگے بڑھ جائیں گے ہم لیکن ایسا ہوا نہیں وزارت خزانہ کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز جنیوا میں پاکستان کے بارے میں بین الاقوامی موسمیاتی کانفرنس کے موقع پر آئی ایم ایف مشن کی سربراہ ناتھن پورٹر سے مذاکرات کیے اچھا یہ جو آئی ایم ایف کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوئے ہیں اس کے لیے کچھ ایسا ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ اسحاق ڈار صاحب کو کوئی کامیابی ملی ہو یعنی ان مذاکرات میں اسحاق ڈار کی معاونت کے لیے وزارت خزانہ سے کوئی عہدیدار موجود نہیں تھا وزارت خزانہ کا بندہ ہی نہیں تھا البتہ وزیر اقتصادی امور ایاز صادق اور ایک اور سیکرٹری اقتصادی امور کاظم نیاز ان کے ساتھ موجود تھے ان کا کوئی کام نہیں ہے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے کا اور وزارت خزانہ کے لوگ ہوتے ہیں جو لوگ ڈیل کرتے ہیں بہرحال ڈار صاحب ان کے ساتھ ملے ہیں اور میرے خیال میں ملاقات صرف اور صرف سیلاب کی بارے میں تھی کیونکہ آئی ایم ایف کے اور پاکستان کے معاہدے کے بارے میں ہوتی اور اس قسط کے بارے میں ہوتی یا اس ڈیل کے بارے میں ہوتی تو ضرور کوئی نہ کوئی اعلامیہ جاری ہوتا ایسا کچھ نہیں ہوا دونوں فریقوں نے آئی ایم ایف مشن کے دورہ پاکستان کی تاریخ کا اعلان کیے بغیر گزشتہ چار ماہ میں ہونے والے مذاکرات کو صرف مثبت انہوں نے قرار دیا کہ مذاکرات ہمارے ہوتے رہتے ہیں اچھی بات ہے تو ڈار صاحب ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گئے ہیں اور جو مقصد یہ لے کر گئے تھے کہ جناب ہم جو نواں پروگرام ہے اس کے جائزے کے لیے مذاکرات کریں گے تو یہ نہیں ہو پایا اور ان کا مقصد یہ تھا کہ ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹالا جائے لیکن ڈار صاحب کے اندر وہ کیپیسٹی نہیں ہے وہ کیپیسٹی نہیں ہے جس کی موجودگی میں وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھا سکے ویسے تو وہ کہتے ہیں کہ پچیس سال کا میرا تجربہ ہے تو ناظرین اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا۔

اللہ حافظ۔