مزید استفعے منظور، باقی کتنے بچے؟ اگلا منصوبہ کیا؟
ہوشیار! حکومت نے آئی ایم ایف کی 4 شرائط مان لیں
مریم نواز کے اختیارات پر ن لیگ میں بے چینی
سینئر صحافی عمران ریاض خان کا تجزیہ
میں عمران خان ہوں جیسا کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ مزید استعفے منظور کیے جائیں گے آپ کو پچھلے وی لاگ میں میں نے بتا دیا تھا سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تو منظور کر لیے گئے ہیں پینتیس مزید اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہوئے ہیں اور ان کے استعفے منظور کرنے کے بعد اب حالیہ جو استعفے منظور ہوئے ہیں وہ ستر ایک اور گیارہ پہلے تو اس طرح کل اکاسی اراکین قومی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف سے جن کا تعلق تھا ان کے استعفے منظور ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان کے پچاس لوگ باقی ہیں جن کے استعفے منظور ہونے ہیں پچاس میں سے جو بیس ہیں وہ کیونکہ منحرف اراکین ہیں اس طرف چلے گئے ہیں اور ابھی بھی اگر روکنا ہے تو ایک مرتبہ پھر استعفے منظور کرنے پڑیں گے میری اطلاع کے مطابق پیر والے دن غالبا جو مجھے پتا چلا ہے اس میں منڈے کا دن آ رہا ہے منڈے والے دن سپیکر مزید استعفے منظور کر لیں گے پاکستان تحریک انصاف کے اور اس طرح پاکستان تحریک انصاف کا یہ موقع ختم ہو جائے گا کہ وہ اپنا اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے مقابلے میں بنا سکیں دیکھیں شہباز شریف کو اور ان کے سہولت کاروں کو ہر حال میں راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر برقرار رکھنا ہے کیونکہ نگران حکومت میں وہ چاہتے ہیں کہ وہی ہو جو طاقتور حلقے چاہتے ہیں شہباز شریف صاحب کیونکہ بڑی شاندار قسم کی بوٹ پالش کر کے اقتدار میں آئے ہیں سب جانتے ہیں کیسے ان کی یہ ڈیل ہوئی تو اس کے بعد شہباز شریف صاحب ہر وہ بات مانتے ہیں جو انہیں کہی جاتی ہے تو نگران حکومت جو ہے وہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی مرضی سے بنے پنجاب کی بھی اور وفاق کی بھی اور پنجاب کی نگران حکومت کا معاملہ اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ نہ یہ فیصلہ حمزہ شہباز اور پرویز الہی میں ہو سکا اور بڑے ہی معقول نام دیے تھے پرویز الہی صاحب کی جانب سے اور داعی پارلیمانی کمیٹی جو بیٹھی وہ کسی نتیجے کے اوپر پہنچی چھ لوگ بیٹھے لیکن حکومتی اراکین کا یہ کہنا ہے راجہ بشارت وغیرہ کا کہ ہمیں تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اپوزیشن بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے اور جو اپوزیشن نے نام دیے تھے ان دونوں کے اپنے کارنامے الگ قسم کے یعنی اگر دونوں لوگوں کی آپ دیکھیں تو پی ڈی ایم کے نامزد کردہ دو لوگ ہیں ایک محسن نقوی بغیر لائسنس کے نیوز چینل چلانے کا ان کے اوپر الزام رجیم چینج آپریشن کے اندر بڑا اہم کردار ادا کرنے کا الزام پھر بہت ساری فیک نیوز ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے احد چیمہ کے اوپر منی لانڈرنگ کا الزام ہے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات ہیں گرفتار بھی رہ چکے ہیں اور مختلف قسم کے ان کے اوپر بھی الزامات موجود ہیں تو کنٹروورسیز ہیں دونوں لوگوں کی جو دیے گئے ہیں شہباز شریف صاحب کی یا حمزہ شہباز کی جانب سے اور پی ڈی ایم کوشش کر رہی ہے ان کو بنایا جائے ایکچولی اس کے پیچھے کوئی اور ہے اور میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ محسن نقوی صاحب کے لیے بہت ضور لگایا جا رہا ہے دو بندے جو ہیں وہ وہاں پہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی موجود ہیں اب فیصلہ کرنا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اگر تو یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے حق میں آتا ہے تو پھر پی ایم ایل این کو اور پی ڈی ایم کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اس کے اوپر تنقید کرے اور وہ یہ کہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اگر یہ فیصلہ پی ڈی ایم کے حق میں آتا ہے تو عمران خان صاحب کو پھر موقع مل جائے گا وہ یہ کہیں گے کہ دیکھیں الیکشن کمیشن ہمارے ساتھ ہمیشہ زیادتی کرتا ہے ان کی بات مانتا تو پھر مان لی ان کی بات تو یہ معاملہ اب یہاں تک پہنچ گیا ہے سیاستدان اس پہ کنسینز پیدا نہیں کر پائے اور مجھے نہیں لگتا کہ پی ڈی ایم سنجیدہ بھی ہے کسی قسم کے کنسینز کے لیے جس طریقے سے انہوں نے بھونڈے طریقے سے استعفے منظور کیے ہیں یعنی نو مہینے تک استعفے پہلے منظور نہیں کیے اور ان استعفوں کے اوپر عمل درآمد ہونے نہیں دیا اور اب جب استعفے کے بجائے وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم قومی اسمبلی میں آ کر اپنا اپوزیشن لیڈر بنانا چاہتے ہیں تو فوری طور پہ منظور کرنا شروع کر دیے تو مزید استعفے بھی منظور کیے جائیں گے پیر والے دن اور اس طرح اسمبلی کا ایک بہت بڑا حصہ خالی ہو جائے گا اور پھر کروائے جائیں گے ضمنی انتخابات ضمنی انتخابات کو پہلے بھی پاکستان میں ڈیلے کیا گیا ہے بار بار اس مرتبہ پھر ڈیلے کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن پھر بھی بہت بڑا خرچہ ہوگا پاکستان میں ضمنی انتخابات کی صورت میں اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں نہیں لڑتیں تو عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو اپنے لوگوں کو الیکشن لڑوا دیں یا خود لڑ لیں لیکن یہ ایکسرسائز ایک جمہوری ایکسرسائز ہے یہ ہونی چاہیے اور جہاں پہ پی ڈی ایم پھنس گئی ہے یہ بہت بہت عجیب و غریب صورتحال ہے میں آپ کو صورتحال ابھی بتا دوں گا جیسے آپ کو میں نے پہلے بتا دیا تھا نا کہ استعفے منظور ہونے والے ہیں وہ ہو گئے ہیں مزید بھی آپ کو بتا دیا ہونے والے ہیں وہ بھی ہو جائیں گے لیکن میں آپ کو ایک اور چیز بتاتا ہوں جو آنے والے دنوں میں ہو گی آئی ایم ایف نے کچھ شرائط رکھی ہیں موجودہ حکومت کے سامنے یہ چار بڑی شرائط ہیں ان چاروں بڑی شرائط کو منظور کرنے کا موجودہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے چار شرائط ہیں کیا اور جو ذرائع سے خبر باہر آئی ہے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں جو رضامندی ظاہر کی ہے حکومت نے حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف اپنا وفد جو ہے وہ پاکستان میں جلد از جلد بھیجے وہ آ کر جائزہ لیں ہم ان کو دکھاتے ہیں کہ ہم نے ان کی چاروں شرائط مان لی ہیں اور اس کے بعد جا کر وہ ہمیں پیسوں کا اجراء کریں ہمیں پیسے دے دے ہمیں مزید قرض دے دیا جائے اب وہ چار شرائط کیا ہیں جو آئی ایم ایف نے کہی ہیں کہ فوری طور پہ آپ مانیں ہم آپ کو اپنا وفد بھیجتے ہیں وہ وفد آ کر جائزہ لے گا کہ کیا واقعی وہ شرائط مانی گئی ہیں تو اس کے بعد پھر ہم آپ کو قسط جاری کر دیں گے اور چاروں اہم شرائط کے اوپر حکومت پاکستان نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اب یہ شرائط کیا ہیں اور کیا ان شرائط کو پورا کرنے کے بعد یہ حکومت انتخابات میں جا سکتی ہے اگر پورے پاکستان میں انتخابات نہیں بھی ہو رہے فرض کریں یہ ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں یا چلیں ضمنی انتخابات کو بھی چھوڑیں پورے پاکستان میں انتخابات نہیں ہو رہے صرف خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں انتخابات ہو رہے ہیں دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے اوپر تو اگر یہ انتخابات ہو رہے ہیں دو صوبائی حکومتیں بننے کے لیے اور یہ والے چار مشکل فیصلے حکومت کر لیتی ہے تو کیا اس حکومت کو ووٹ پڑیں گے ووٹ تو ان کو ابھی بھی نہیں پڑ رہے ایٹی پرسنٹ الیکشن وہ ابھی ہار جاتے ہیں ان کے امیدواروں نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا ہے اور خاص طور پہ نون لیگ کے اندر بہت زیادہ مخالفت پیدا ہو چکی ہے اور ان کی پارٹی کے اندر دھڑے بننا شروع ہو گئے ہیں مفتاح اسماعیل شاہد خاقان عباسی اور دیگر کچھ لوگ وہ کچھ اور زبان بول رہے ہیں اور مریم نواز کے انڈر کام نہیں کرنا چاہتے وہ میں اس کے اوپر آتا ہوں بعد میں لیکن آپ یہ پہلے چار بڑے مطالبات آئی ایم ایف کے آپ دیکھ لیں ان میں پہلا مطالبہ یہ ہے کہ جو ڈالر کی قیمت کو اسحاق ڈار صاحب نے زبردستی دبا کر رکھا ہوا ہے اور اس کا جو ایکسچینج ریٹ ہے اس کے اوپر کنٹرول کر رہے ہیں بینکوں پر دباؤ ڈال کر کیوں کہ انٹر بینک میں اندر اس وقت ڈالر جو ہے وہ دو سو ستائیس اٹھائیس کے اندر رکھا ہوا ہے انہوں نے زبردستی لیکن ایکچولی جو ڈالر کی پرائس ہے جو اوپن مارکیٹ میں ہے وہ کوئی دو سو ستر روپے کے قریب ہے تو اسی کے بیچ میں کہیں پہ ڈالر کی اصل قیمت ہے جو دو سو ساٹھ کے لگ بھگ لگتی ہے تو اس پہ جو ہے وہ مارکیٹ کی بنیاد کے اوپر ڈالر کی قیمت ہونی چاہیے یا شرح تبادلہ وہاں پہ ہونا چاہیے آئی ایم ایف کی پہلی شرط یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں اور انٹر بینک کے اندر ڈالر کی قیمت کے اندر فرق نہیں ہونا چاہیے اور اگر یہ کریں گے تو یہ دو سو ساٹھ روپے سے اوپر کا ڈالر ہو جائے گا یہ شرط باندھ لی ہے پاکستان نے میری اطلاع کے مطابق تو اب ڈار صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ میں دو سو کے بھی نیچے لے آؤں گا ڈالر پہلے تو کہہ رہے تھے سو روپے کا کروں گا پھر کہتے تھے ایک سو تیس کا کروں گا پھر کہتے تھے دو سو کے انڈر لے آؤں گا پھر کہتے تھے میں نے سوا دو سو پہ روکا ہوا ہے تو اب ان کو یہ ڈالر ڈھائی سو سے اوپر لے جانا پڑے گا اسحاق ڈار صاحب کو پہلی شرط یہ ہے اگر تو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ان سے پیسہ لینا ہے تو دوسری شرط یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا جائے اور گردشی قرضے یہ سارا معاملہ اس کا حل کر کے دیا جائے اور بتایا جائے کہ کس میکنیزم کے تحت پاکستان ان گردشی قرضوں سے جان چھڑائے گا اور بجلی کی قیمت آئی ایم ایف کے کہنے کے مطابق بڑھائے گا اور یہ بجلی کی قیمت پہلے ہی پاکستان میں تین گنا ہو چکی ہے تو یہ مزید کئی گنا بڑھنے والی ہے ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے تیسری جو شرط ہے آئی ایم ایف کی وہ یہ ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے فوری طور پہ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اندر بھی لیوی لگائی جائے اس پہ بھی اضافہ کیا جائے تو یہ گیس اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ یہ تیسری بڑی شرط ہے جو پاکستان نے قبول کر لی ہے اور آئی ایم ایف کا جب وفد آئے گا تو وہ اس کا جائزہ لے گا اگر وہ یہ ہوتا ہوا دیکھے گا تو جا کر رپورٹ کرے گا پھر پیسے ملیں گے ورنہ نہیں ملیں گے اور جو چوتھی شرط ہے وہ یہ ہے کہ اضافی ٹیکسز مزید عائد کیے جائیں ابھی تو کوئی دو سو ارب کا ٹیکس پاکستان لگا رہا ہے فروری میں تو آئی ایم ایف کے مطابق مزید ٹیکسز لگانے کی پاکستان کو ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا خسارہ کم ہو یہ چار مشکل ترین شرائط ہیں اگر پاکستان ان کو مانے گا آئی ایم ایف کا وفد آئے گا وہ آ کر ان کا جائزہ لے گا اس کے بعد جا کر وہ بتائے گا کہ جی ٹھیک ہے انہوں نے یہ کر دیا اب آپ ان کو پیسے دیں اب ٹیکنیکلی ذرا اس کو آپ سمجھیں کہ یہ چار چیزیں حکومت پاکستان مان جاتی ہیں بجلی مہنگی گیس مہنگی پیٹرول مہنگا اور اس سے مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا آپ اس بات کو جانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جو ہے وہ ڈالر بھی بہت زیادہ مہنگا اور نئے ٹیکسز بھی لگ جاتے ہیں تو کیا پاکستان کے لوگ اسی حکومت کو ووٹ ڈالیں گے یا پی ڈی ایم کی حمایت میں اضافہ ہوگا پنجاب میں اور خیبر پختونخوا میں تو اس کا صاف جواب ہے ایسا نہیں ہوگا اسی لیے ان کے لوگ الیکشن لڑنا نہیں چاہتے ناراضگی شروع ہو گئی ہے کوئٹہ کے اندر پہلا ایک ایک کانفرنس ہو رہی ہے جس کا نام رکھا گیا ہے ری ایمجنگ پاکستان یعنی پاکستان کے بارے میں دوبارہ سے غور و فکر کیا جائے اس میں نون لیگ کے شاہد خاقان عباسی صاحب جائیں گے پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر صاحب جائیں گے مفتاح اسماعیل صاحب بھی جائیں گے اور ایک پریزینٹیشن وہ بھی دیں گے کہ معیشت کیسے ڈوب گئی اور کیا ہوا مفتاح اسماعیل صاحب اپنے منہ سے کہہ رہے ہیں کہ جب پنجاب کا ضمنی انتخاب ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف نے کچھ پچہتر فیصد اسی فیصد کامیابی حاصل کی اور پی ایم ایل این جو ہے وہ بری طرح ناکام ہوئی دھاندلی کے باوجود تو اس کے بعد مفتاح اسماعیل صاحب کا یہ کہنا ہے کہ نون لیگ گھبرا گئی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی تک گھبرائے ہوئے ہیں وہ کوئی بھی الیکشن لڑنا نہیں چاہتے اور گھبرا کے انہوں نے اقدامات ایسے اٹھا لیے کہ سارے کے سارے اختیارات مریم نواز کو نواز شریف صاحب نے دینی ہیں مریم نواز صاحبہ کے بارے میں میں آپ کو ایک دو چیزیں بتا دوں کہ پارٹی کے لوگ مریم نواز کے انڈر میں کام نہیں کرنا چاہتے یہ پرابلم آ رہی ہے پارٹی کی جو سینیر قیادت ہے جو سینیر لوگ ہیں خواجہ سعد رفیق آج کل اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں خواجہ آصف آج کل جو ہیں وہ بھی تھوڑا سا ساتھ میں شاہد خاقان عباسی صاحب ہیں وہ بھی مفتاح اسماعیل پہلے ہی پریشان ہیں کہ پہلے ان کو عہدے سے ہٹایا گیا بڑے غلط طریقے سے اس کے بعد سلمان شہباز ان پہ چھوڑ دیے گئے سلمان شہباز نے ان کو جوکر قرار دے دیا اپنے ہی وزیر خزانہ کو حالانکہ شہباز شریف ان کے والد جو ہیں وہ وزیر خزانہ کا شکریہ ادا کرتے رہے ہیں تو شاہد خاقان عباسی صاحب نے یہ کہا کہ سلمان شہباز نے جو کہا ہے مفتاح اسماعیل کو جوکر یہ نامناسب ہے اور غلط ہے وزیر خزانہ نے جو بھی فیصلے کیے وہ وزیراعظم کی ہدایات کے اوپر کیے ہیں تو شاہد خاقان عباسی صاحب کی بھی وزیر خزانہ پہلے رہ چکے ہیں مفتاح اسماعیل تو اس لیے ان کو اس چیز میں مزید شاید برا بھی لگا ہے اب مریم نواز کو نون لیگ کی تنظیم سازی کا جائزہ لینے کا بھی مکمل اختیار دے دیا گیا ہے یعنی پی ایم ایل این کے اندر جو لوگ دو دو تین تین دہائیوں سے کام کر رہے ہیں وہ چند سال پہلے سیاست میں آنے والی مریم نواز ان کے مستقبل کا ان کی سیاست کا اور ان کے عہدوں کا فیصلہ کرے گی اور اس کا جائزہ لے گی یہ ہوتا ہے بڑے آدمی کے گھر میں پیدا ہونے کا فائدہ یہ ہوتا ہے موروثی سیاست کا فائدہ کہ آپ کے بچے بڑے ہو جائیں اٹومیٹیکلی لیڈر بن جاتے ہیں بلاول آٹومیٹک لیڈر مریم آٹومیٹک لیڈر بہت سارے اور بچے ہیں وہ لیڈر پیدا ہو رہے ہیں لیڈر ہی بنتے چلے جا رہے ہیں اور یہ موروثی سیاست ایسے ہی چل رہی ہے کوئی انہوں نے محنت نہیں کی کوئی انہوں نے کام نہیں کیا کچھ سیاست کے اندر نہیں کیا بس آئے اور آ کے موجیں لگ گئی ہیں ادھر شہباز شریف صاحب نے ایک بڑا تاریخی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے پندرہ رکنی کفایت شعاری کمیٹی قائم کر دی ہے یعنی یہ پندرہ بندے بیٹھیں گے سرکار کا خرچہ کریں گے اور یہ سوچیں گے کہ خرچہ کم کیسے کرنا ہے یہ پندرہ بندے بٹھا دیے شہباز شریف صاحب نے یہ سوچنے کے لیے کہ پیسے کم کیسے کرنے ہیں? تو میاں صاحب آپ ویسے ہی کسی عام آدمی سے پوچھ لیں آپ کو ایک بندہ بتا دے گا سب سے پہلے تو اپنی کبینیٹ آپ کریں جی سیونٹی پرسنٹ فارغ آپ نے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنائی ہے آپ کے پاس اسی کے قریب وزراء ہیں آپ ان کی تعداد کم کر کے چالیس پہ لے آئیں تیس پہ لے آئیں بیس پہ لے آئیں کفایت شعاری ہو جائے گی آپ سرکاری افسران سے بڑی بڑی گاڑیاں لے کر ان کو نارمل گاڑیوں میں ٹریول کرنے کا کہیں کفایت شعاری ہوجائے گی آپ لوگ جو بیس بیس تیس تیس پچاس پچاس گاڑیوں کے قافلے میں گھومتے ہیں آپ دو دو تین تین گاڑیوں میں گھومنا شروع ہو جائیں کفایت شعاری ہو جائے گی میاں صاحب آپ جب دنیا کے اندر ٹریول کرنے کے لیے جاتے ہیں تو آپ پچاس ساٹھ لوگوں کا ساتھ کنبہ پورا ٹبر لے کر جاتے ہیں صحافیوں کو بھی بندے بھی سیاستدان بھی پتا نہیں کس کس کو? پوری کی پوری کابینہ آپ کے ساتھ ہوتی ہے آپ دو تین بندے جانا شروع ہو جائیں کمرشل فلائٹ میں کفایت شعاری ہو جائے گی آپ جب بیرون ملک جاتے ہیں تو لیویش ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی بجائے ہوسٹلز میں اور نارمل جگہوں کے اوپر ٹھہرنا شروع کر دیں تو کفایت شعاری ہو جائے گی پاکستان کی اور یہ جو آپ نے مراعات دی ہوئی ہیں بہت بڑی بڑی بیوروکریٹس کو بڑے بڑے افسران کو اور خود اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں ان سب کو آپ چھوڑ دیں کفایت شعاری ہو جائے گی تو میاں شہباز شریف صاحب جب آپ نے اخراجات کم کرنے ہوں کفایت شعاری کرنی ہو تو آپ کو سب سے پہلے وزیراعظم ہاؤس کا جو بجٹ ہے جس کو آپ نے بہت زیادہ بڑھا دیا ہے پہلے سے اس کو کم کرنا پڑے گا پھر ہو گی کفایت شعاری یہ پندرہ رکنی کمیٹی بنا کے کفایت شعاری نہیں ہو گی بلکہ یہ پندرہ رکنی کمیٹی بھی کھائے گی پیئے گی ملے گی پیٹرول خرچ کر کے آئے گی پھر ان کی میٹنگ کے لیے بہت سارے لوگ اور بیٹھیں گے پورا ایک نظام کام کرے گا یہ بھی آپ کے اوپر ایک بوجھ بنے گی تو شہباز شریف صاحب جو ہیں وہ اس قسم کے سٹنٹ کرنے سے باز نہیں آ رہے اور لگاتار کرتے جا رہے ہیں جبکہ ان کی پارٹی کے اندر اختلافات بڑھتے بڑھتے مزید بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اب سینیئر لوگ آہستہ آہستہ یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ یہ گھر کی پارٹی ہے ہمارا اس میں کیا لینا دینا اور ان کے فیصلوں سے ہمیں ہمیشہ نقصان ہوتا ہے یہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اپنا اور اپنے گھر کے بارے میں سوچ کر کرتے ہیں دوسری جانب ایک آخری خبر میں آپ کو دے دوں اس وی لاگ میں اور اس کے بعد پھر اگلے وی لاگ میں کچھ اور امپورٹنٹ چیزیں میں آپ کو بتاؤں گا پیٹرول کے حوالے سے ایک اچھی خبر نہیں ہے اور خبر یہ ہے کہ بینکوں کا آئل کمپنیز کی پیٹرول امپورٹ ایل سیز کھولنے سے انکار آئندہ مہینے پٹرول کی قلت پیدا ہو جانے کا بھی خدشہ پیدا ہو رہا ہے ایک طرف تو دو صوبے الیکشن میں جا رہے ہیں دوسری جانب اگر پیٹرول کی قلت پیدا ہو جاتی ہے یعنی انڈسٹریز ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ ایل سیز اگر نہ کھلی تو فروری کے آغاز سے پیٹرول کی قلت ہو سکتی ہے دس دن سے ایل سیز کھلوانے کی ہم کوششیں کر رہے ہیں اور ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی ڈیزل کی سپلائی بڑھنے کے سبب ڈیزل مناسب مقدار میں کہیں نہ کہیں موجود ہے لیکن پھر بھی یہ قلت حکومت کے گلے پڑ سکتی ہے انتخابات سے پہلے تو صورت حال اب تک کی یہ ہے کچھ چیزیں اور آپ سے شیئر کرتا ہوں اگلے وی لاگ میں تب تک کے لیے اپنا خیال رکھیے گا اپنے اس چینل کا بھی۔
اللہ حافظ ۔
0 Comments