سابق وزیراعظم عمران خان کا تازہ بیان، سیاست میں کیا ہو رہا ہے؟

 عمران ریاض خان کا خصوصی تجزیہ

  

 آج نو جنوری ہے اور جنیوا میں پاکستان ڈونر کانفرنس ہم تو کہہ رہے ہیں لیکن ایکچولی وہ ڈونر کانفرنس نہیں ہے لیکن وہاں پہ کچھ چیزیں طے پائیں گی پاکستان جو ہے وہ کلایمیٹ چینج سے افیکٹڈ ممالک کے اندر سرفہرست جو دس ممالک ہیں ان میں سے ایک ہے اور بڑے خوفناک سیلاب کا پاکستان نے سامنا بھی کیا ہے اور نہ صرف سیلاب کا سامنا کیا ہے بلکہ اپنی بری ایڈمینسٹریشن کی وجہ سے اور اپنے طبقاتی نظام کی وجہ سے یعنی بلوچستان میں تو پانی فورا نکل گیا ہے۔ پنجاب سے بھی تقریبا نکل گیا سندھ میں کیونکہ وڈیروں نے بند باندھے ہوئے ہیں اور اپنی زمینیں محفوظ رکھتے ہیں وہ اور وہاں پہ کلچر بالکل وڈیرازم کا ہے تو وہاں غریبوں کی زمینیں اب تک ڈوبی ہوئی ہیں دادو کے اور بہت سارے علاقوں کے لوگوں کو آپ ملیں اور ان سے پوچھیں تو وہ بتاتے ہیں کہ وہ ڈوبے نہیں ہیں ان کو ڈبویا گیا ہے پھر وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کو اب تک جو وہ ڈوبے ہوئے ہیں اس کے پیچھے بھی موجودہ حکومت ذمہ دار ہے اور وہ حکومت سے اس کے لیے گلے اور شکوے بھی کرتے رہتے ہیں بہرحال اس کے بارے میں جو پاکستان جنیوا کے اندر ایک پاکستان اور اقوام متحدہ مل کر ایک پروگرام کر رہے ہیں یہ ہے کلایمیٹ ریزیلینٹ پاکستان اور اس میں شہباز شریف صاحب بھی جا رہے ہیں بلاول بھی جا رہے ہیں کچھ اور پاکستان کے سیاستدان ہیں وہ بھی وہاں پہ موجود ہوں گے نواز شریف وغیرہ بھی وہاں سے آئے ہوئے ہیں تو وہ ملاقات وغیرہ تو کریں گے لیکن اب اس میں اب مجھے جو اطلاع ملی ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی موقف بھی پیش کیا جائے گا۔ اور اس میں پنجاب کا اور خیبر پختونخوا کا موقف نہیں رکھا گیا۔ خیبر پختونخوا بہت بری طرح ہٹ ہوا ہے کیونکہ اوپر دریائے کابل سے لے کے نیچے دریائے سندھ تک اور پھر آگے جو اٹک سے پڑے گئے علاقے ہیں مثال کے طور پہ ڈی آئی خان بہت بری طرح ہٹ ہوا تھا ٹانک بہت بری طرح ہٹ ہوا تھا اور نوشہرہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پہ سیلاب نے تباہی مچائی تھی اور یہاں کے لوگ بھی بہت بری طرح متاثر ہوئے تھے لیکن ان کا موقف نہیں رکھا جائے گا پنجاب کے اندر کچھ اضلاع بہت بری طرح ہٹ ہوئے تھے جو جنوبی پنجاب کے ہیں راجن پور اور اس سے ملحقہ علاقے ڈی جی خان اور دیگر علاقے جو ہیں بہت بری طرح متاثر ہوئے تھے پنجاب میں بھی تو اور وہاں بہت سارے گھر جو ہیں وہ تباہ ہو گئے ہیں بہت بڑے پیمانے پہ نقصان ہوا ہے لوگوں کا فصلوں کا بھی اور جانوروں کا بھی اور انسانوں کا بھی لیکن اس کا بھی نہیں رکھا گیا صرف بلوچستان اور سندھ کا رکھا گیا اس کا ریزن یہ ہے کہ وہاں دو جگہ پہ حکومت موجود ہے وفاقی حکومت کے کنٹرول والی تو وہ چاہیں گے کہ وہ جو پیسہ ملے وہ اس کو اپنے کنٹرول میں رکھے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی جو صوبائی حکومتیں ہیں ان کے ساتھ اس کو شیئر نہ کیا جا سکے ایک چیز میں آپ کو بتا دوں کہ بلاول نے بالکل فراموش کر دیا تھا سیلاب زدہ علاقوں کو شروع میں وہ تھوڑے دن کے لیے آیا اور پھر اس کے بعد بلاول چلا گیا بلاول نے پوری دنیا کا ٹور کیا سیر کی فیفا ورلڈ کپ دیکھا بہت سارے ملکوں میں گھومتے پھرتے رہے. بہت انجوائے کیا اور اپنی انٹرن شپ پوری کی لیکن سیلاب متاثرین کو دیکھنے کے لیے واپس نہیں آئے اسی طرح شہباز شریف صاحب جو ہیں انہوں نے اپنے وہ بھائی کو ملنے کے لیے بھی گئے اور ہر طرح کے آفییرز کے اندر وہ رہے پاکستان میں پوری سیاست کرتے رہے پنجاب کی حکومت کو بار بار بدلنے کی کوشش کی بہت کچھ شہباز شریف صاحب نے بھی کیا لیکن سیلاب متاثرین کو دیکھنے دوبارہ نہیں گئے تو اب یہ ہوا کہ کیونکہ ان کو پیسے اکٹھے ہونے کی امید ہو رہی تھی اور ان کو لگ رہا تھا کہ شاید دنیا ہمیں پیسے دے گی تو اس کے لیے پھر فوری طور پہ دونوں نے ایک ایک وزٹ کیا بلاول نے سندھ کا دورہ کیا اور شہباز شریف نے بلوچستان کا کیا ایک ایک دن اور کئی مہینوں کی چھٹی کے بعد یعنی مہینوں تک یہ سیلاب متاثرین کا پتہ لینے کے لیے نہیں گئے اور بالکل سیریس ایفرٹ کوئی نہیں کی گئی ابھی تک سیلاب متاثرین کو کوئی مدد نہیں پہنچی ان کے گھر نہیں بنائے گئے ان کی نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا ان کا انفراسٹرکچر جو ہے وہ بحال نہیں کیا گیا ایون سندھ کے اندر تو زمینوں پر سے پانی تک نہیں ان کا نکالنے کا بندوبست ہوا تو ایسے میں جب ان کو ایڈیا ہو گیا کہ اب پیسے اکٹھے ہونے والے ہیں تو پھر دو صوبوں کو انہوں نے فوکس کیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے نہ کرنا پڑے اور ایسا لگتا ہے کہ سندھ اور کیونکہ مجھے کسی نے اطلاع دی ہے یہ اور یہ کنفرم بھی ہو جائے گی آنے والے وقت میں کہ بلوچستان اور سندھ جو ہے ان کو فوکس کیا گیا ہے اور اسی لیے ان دونوں نے ایک ایک دورہ کیا وہاں پہ اور وہاں پہ کچھ بڑے بول بولے کچھ تصاویر بنائی ہیں اور کچھ دوبارہ سے فیکٹس اکٹھے کیے ہیں اور اب ایک ڈیٹا لے کر گئے ہیں کہ لوگوں سے امداد لی جائے اس وقت عالمی میڈیا کے اندر یہ خبریں چھپ رہی ہیں میں نے الجزیرہ پہ بھی پڑھی ہے کہ پاکستان کی بدترین اکنامی جو ہے اس وقت اور اکنامک کی جو بد ترین صورتحال ہے اس کی وجہ سے پاکستان کے آرمی چیف جو ہیں وہ سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں اس وقت غالبا وہ یو اے ای بھی جائیں گے اور باقی جگہوں پہ بھی جائیں گے۔ تو یہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پی ڈی ایم کا ایک تحفہ ہے کہ عالمی سطح کے اوپر پاکستان کے آرمی چیف کو یہ پذیرائی مل رہی ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف اس موجودہ اکنامک کرایسس میں پیسے مانگنے کے لیے ملکوں کے پاس جا رہے ہیں دنیا کا کوئی آرمی چیف کسی دوسرے ملک سے پیسے مانگنے نہیں جاتا۔ یہ ترہ امتیاز پاکستان کے آرمی چیف کو ہمیشہ سے حاصل رہتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے سیاست دانوں پہ کوئی اعتبار نہیں کرتا اور دوسرا دنیا کو یہ پتہ ہے کہ فیصلے سیاستدانوں نے پاکستان میں کرنے ہی نہیں ہوتے یہ اتنے جوگے ہی نہیں ہیں یہ فیصلے نہیں کرتے اور یہ اس قابل نہیں ہیں بہرحال وہ کہیں اور ہی بات کرتے ہیں انڈیا نے کئی مرتبہ اس بات کا گلہ کیا تو بتاؤ پاکستان میں بات کرنی کس سے ہے کیا سیول حکومت سے کرنی ہے یا اسٹیبلشمنٹ سے کرنی ہے تو انڈینز کو بھی یہ پرابلم رہا اور بہت سارے اور لوگوں کو بھی یہ پرابلم رہا اور ہمارے عرب دوست عرب بھائی جو ہیں وہ تو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کس سے بات کرنی ہے تو وہ نارملی انہی سے بات کرتے ہیں جہاں ان کو بات کرنی ہوتی ہے عمران خان صاحب نے وائرل اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ایک بڑا ڈیٹیل پوائنٹ آف ویو دیا ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں عمران خان صاحب نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج بھی پولیٹیکل انجینئرنگ ہو رہی ہے کراچی میں خواتین کنوینشن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کی تاریخ میں ایسے وقت آتے ہیں جسے تاریخ فیصلہ کن کہتی ہے اور آج پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران ہے ایک آدمی کے فیصلے سے وہ بحران آیا ہے جس کی پیشن گوئی میں نے سات مہینے پہلے کر دی تھی انہوں نے کہا ہم آج جس جگہ کھڑے ہوئے ہیں اس میں جنرل باجوہ کا ہاتھ ہے بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی پولیٹیکل انجینئرنگ ہو رہی ہے ایم کیو ایم کو اکٹھا کیا جا رہا ہے بلوچستان عوامی پارٹی کو پیپلز پارٹی میں دھکیلا جا رہا ہے اور جنوبی پنجاب میں امیدواروں کو ان کے فون آ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو مضبوط کریں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ خدا کے واسطے پولیٹیکل انجینئرنگ نہ کرے۔ شفاف الیکشن اور مضبوط حکومت کے قیام کے علاوہ اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے انہوں نے کہا تھا پاکستان نوے کی دہائی میں کافی آگے چلا گیا تھا نا نوے کی دہائی سے پہلے تو جب یہ کرپٹ خاندان آ کر اوپر بیٹھا تو پھر نوے کی دھائی کے بعد بھارت ہم سے آگے نکل گیا پاکستان اس وقت ملک کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہا ہے نکلنے کا طریقہ صاف اور شفاف انتخابات ہیں لیکن عمران خان صاحب کا دوبارہ سے یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں ہو رہی اور وہ سیاسی کردار ادا کر رہی ہے تو ایک فارمولا ہے اس کے بارے میں آج کل بات ہو رہی ہے کہ خیبر پختونخواہ میں کوشش کی جائے گی کہ قبائلی علاقے میں پی ٹی ایم کو الیکشن جتوایا جائے۔ اور اس کے لیے علی وزیر کو ابھی رہا نہیں کیا جائے گا بالکل الیکشن کے قریب ان کو باہر چھوڑا جائے گا یا ہو سکتا ہے ان کو جیل سے الیکشن لڑوایا جائے تاکہ ان کی زیادہ مقبولیت ہو اور پھر پی ٹی ایم کو وہاں پہ کچھ سیٹیں دلوائی جائیں گی قبائلی علاقہ جات میں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اگر فری اینڈ فیئر الیکشن ابھی ہو جائے تو پی ٹی آئی جو ہے وہ کلین سویپ کر جائے گی لیکن پی ٹی ایم کے جیتنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے کچھ علاقوں میں فضل الرحمن کے جیتنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے اے این پی کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے دوبارہ سے اور سوات اور اس کی سراوونڈنگ کے اندر مالاکنڈ ڈویژن میں جماعت اسلامی کا فیکٹر بھی مضبوط کیا جا رہا ہے تاکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کچھ کم ہو سینٹرل پنجاب میں پی ایم ایل این کو مضبوط کیا جائے گا اور چوہدری نثار علی خان کو بھی تگڑا کیا جا رہا ہے جبکہ جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ مل کر کچھ جنوبی پنجاب کے قریب اپنا ایک نیا ہایڈ اوٹ بنا رہے ہیں یعنی ایک نیا مورچہ سنبھال رہے ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے روایتی سیاسی خاندانوں کو شامل کروایا جا رہا ہے دوسری جانب بلوچستان کے اندر زرداری صاحب کو کچھ تحفے دیے گئے ہیں جبکہ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے دھڑے اکٹھے کر کے ایک مضبوط گروپ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ ساری چیزیں عوامی امنگوں کے خلاف ہیں یہ ساری چیزیں پاکستان کی عوام کی خواہشات کے خلاف ہیں لیکن یہ ساری چیزیں پاکستان کے اندر کی جا رہی ہیں اور ابھی عمران خان صاحب نے ایک الزام لگایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی بھی سیاسی انجینئرنگ کر رہی ہے ایک اور چیز ہے جو بڑی ڈسٹربنگ ہے اسحاق ڈار صاحب نے جب سے یہ کہا ہے پاکستان میں لوگوں میں بہت زیادہ ہلچل مچ گئی ہے بے چینی ہے پاکستان میں خاص طور پہ سرمایہ داروں میں جن کے پاس پیسہ موجود ہے کہ یہ ڈار صاحب نے کیا سٹیٹمنٹ دیا ہے کہ ہمارے جو ریزرو ہیں یا ہمارے جو زرمبادلہ کے ذخائر ہیں وہ چار ارب ڈالر نہیں ہیں وہ دس ارب ڈالر ہے اس کا مطلب سب لوگ یہ لے رہے ہیں کہ ہمارا جو پیسہ پڑا ہوا ہے بینکوں میں ڈار صاحب کی نظر اب اس پیسے کے اوپر ہے اور یہ اسی طرح کرنے والے ہیں جیسا انہوں نے انیس سو اٹھانویں میں کیا تھا ۔ اسد عمر صاحب نے کہا کہ از ہی فار رہیل، کہ واقعی میں کیا وہ یہ کہہ رہا ہے ، اسحاق ڈار صاحب یہ کلیم کر رہے ہیں کہ جو وہ شہریوں کے پیسے پڑے ہوئے ہیں بینکوں میں وہ بھی ملک کے پیسے ہیں۔ نو دے ڈونٹ، نہیں یہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ان شہریوں کے پیسے ہیں جو اس کے مالک ہیں۔ یا یہ ان شہریوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اس کے مالک ہیں۔ اگین وہ یہی بات کر رہے ہیں کہ جب تک کہ ڈار فریز نہیں کر دیتا ڈالر اکاؤنٹس کو جیسا کہ اس نے کیا انیس سو اٹھانوے میں۔ انیس سو اٹھانوے میں ڈار صاحب نے یہ کیا تھا اور ڈالر اکاؤنٹس سارے فریز کر دیے تھے شہریوں کے پیسوں کے اوپر جو ہے وہ قبضہ کر دیا تھا۔ اور یہ ایٹمی دھماکوں کے بعد کیا گیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے بہت سارے تگڑے لوگوں کے پیسے پاکستان سے نکلوا دیے گئے تھے۔ اب ایک طرف تو قوم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ قربانی دیں اور دوسری طرف خبریں بہت عجیب عجیب آ رہی ہیں ابھی کچھ اور میڈیا نے بھی وہ خبر اٹھا کر چلائی ہے کہ بڑی جو بی ایم ڈبلیو مرسڈیز قیمتی لگژری گاڑیاں جو ہیں ان کی امپورٹ کے لیے باقاعدہ جو ہے وہ ایل سیز اوپن کر دی گئی ہیں اور اوپن کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے مختلف سوشل میڈیا کے اوپر اور دیگر میڈیا کے اوپر یہ خبریں میں نے دیکھی ہیں وہاں پہ سکرین شاٹس تو اب معاملہ یہ ہے کہ اگر اتنی قیمتی گاڑیاں منگوانے کے لیے ایل سیز کھولی جا سکتی ہیں تو تاجروں کے کاروبار کے لیے کیوں نہیں کھولی جا سکتیں؟ دوائیوں کے میٹیریل کے لیے کیوں نہیں کھولی جا سکتیں؟ جو آپریشن تھیٹرز میں استعمال ہونے والا سامان ہے اس کے لیے کیوں نہیں کھولی جا سکتی جو ضروری چیزیں ہیں یعنی پولٹری سے ریلیٹیڈ ہے کھانے پینے سے ریلیٹیڈ ہے ان چیزوں کی ایل سیز کیوں نہیں کھولی جا سکتیں تو یہ پاکستان کو الٹا نقصان کرنے کی جو پالیسی ڈار صاحب کی ہمیشہ سے رہی ہے وہی پالیسی ہمیں ابھی بھی دکھائی دے رہی ہے مثال کے طور پہ ایک اور خبر آئی ہے اس وقت پاکستان کے اندر اکنامک صورتحال بری ہے یہ سب مانتے ہیں لگاتار ڈاؤن جاری ہے لیکن اس کے باوجود حکومتی اخراجات بڑھ رہے ہیں وفاقی حکومت کی شاہ خرچیاں بڑھ چکی ہیں دیکھیں اسی کے قریب تو ان کے منسٹرز ہیں اتنے تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے جتنے منسٹر اس حکومت نے بنائے ہیں اور جتنے زیادہ منسٹرز اتنی بری کارکردگی یہ دکھا رہے ہیں وفاقی حکومت کی شاہ خرچیوں کے اوپر ایک رپورٹ ہے میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ عوام کو کفایت شعاری کا درس دینے والی وفاقی حکومت نے اپنے اخراجات کی مد میں اربوں روپے اڑا دیے۔ دستاویزات کے مطابق موجودہ حکومت کے بجٹ اخراجات چھبیس اعشاریہ ایک فیصد بڑھ گئے ہیں۔ جولائی تا اکتوبر جاری اخراجات چونتیس اعشاریہ چار فیصد بڑھے ہیں۔ یعنی گزشتہ سال یہ اخراجات ایک دو ہزار ایک سو اکہتر ارب روپے تھے جب کہ موجودہ سال میں یہ اخراجات اٹھائیس سو ارب روپے تک بڑھ گئے ہیں اور یہ جو اضافہ ہے یہ چھبیس اعشاریہ ایک فیصد کا اضافہ ہے جبکہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا ون پواینٹ فایو پرسنٹ بڑھ گیا ہے ۔ اچھا اب یہ تو فیکٹس اینڈ فیگرز ہیں نہ جو پاکستان کا میڈیا بیان کرتا ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو پاکستان کے ادارے بتاتے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت بھی بہت عجیب کام کرتی ہے پاکستان کے تمام اخبارات کے اندر انہوں نے عجیب طریقے سے اشتہار چھاپ دیے ہیں اور بڑے بڑے آدھے صفحے کے اشتہار دے دیے ہیں. اور ان اشتہاروں کے اوپر اپنی معاشی کارکردگی بتا دی ہے اور جو کارکردگی بتائی ہے اس کا بھی کوئی سر اور پاؤں نہیں ہے تو یہ اتنے کروڑوں اربوں روپیہ میڈیا کو دینے کی بجائے لوگوں کو آٹا فراہم کر دیں یہ ایک تصویر دیکھیں آپ یہ بیچارہ شخص گھر سے آٹا لینے آیا ایک تو شہید ہو گیا نا پرسوں کی خبر ہے انتقال ہوگیا بیچارے کا گھر کے بچوں کے لئے رزق لینے آیا تھا چھ بچیوں کا والد تھا وہ اور اب یہ دیکھیں یہ نوجوان سستا آٹا لینے آیا تھا اور اس کا سر پھاڑ دیا پولیس نے یہ حالات ہیں بندوقوں کے سائے کے اندر آٹا فراہم کیا جا رہا ہے وہ بھی لوگ پیسے لے کر آتے ہیں پھر بھی خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ہم سردی میں صبح چھ بجے سے آ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ شام ہو جاتی ہے۔ باپردہ خواتین جو ہیں ان کو انہوں نے لائنوں میں لا کر کھڑا کر دیا ہے جیسا کہ بلاول نے کہا تھا آپ کو یاد ہے نا ویلکم ٹو پرانا پاکستان تو میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اور پی ڈی ایم کے تمام سہولت کاروں کو یہی کہنا چاہتا ہوں۔ کہ ویلکم ٹو پرانا پاکستان۔ تینک یو ویری مچ سر۔ اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا۔

اللہ حافظ۔