پرویز الٰہی کا اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار

 کپتان بھی بڑا فیصلہ کر لیں


تفصیلات کیلئے

 سینئر صحافی عمران ریاض خان کا تجزیہ پڑھیں


 میں نے آپ سے پہلے کئی مرتبہ کہا ہے کہ چوہدری فیملی جو ہے پرویز الہی صاحب اور مونس الہی صاحب وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ووٹ ملے۔ پاکستان تحریک انصاف کا اور سپورٹ ملے۔ اسٹیبلشمنٹ کی لیکن پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی ان کی سپورٹ ہے ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان صاحب کا رستہ روکتی رہی ہے گزشتہ آٹھ مہینوں میں اور ابھی تو ایڈیا نہیں ہے

 

کسی کو کہ اسٹیبلشمنٹ کا اونٹ جو ہے وہ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کسی کو ایڈیا نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ بات تو پکی ہے کہ پاکستان میں انتخابات کو تاخیر کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور لگاتار کی جا رہی ہے پرویز الہی ویسے تو عمران خان صاحب کے ساتھ ہیں لیکن ان کی یہ خواہش ہے کہ ان کی وزارت اعلی جتنی لمبی ہوتی چلی جائے اتنا بہتر ہے اس سے ان کو دو فائدے ہوں گے نمبر ایک عمر کے اس حصے میں ان کو وزارت اعلیٰ ملی ہے وہ چاہتے ہیں کہ وزارت اعلی جتنی لمبی ہو جائے جتنی زیادہ دیر تک ان کو ان کی فیملی کے پاس یہ اقتدار رہے ان کے پاس یہ اقتدار رہے پنجاب کی حکمرانی رہے اتنا زیادہ اچھا ہے وہ چاہتے ہیں زیادہ دیر تک وزیر اعلی پنجاب رہے دوسرا پاکستان تحریک انصاف کی ان کو بھی یہ امید ہے کہ مقبولیت کم ہو جائے.

 

 کیونکہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف جو ہے اس کی مقبولیت بہت زیادہ ہے. اور فیوچر میں اگر پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہوتی ہے یا مقبولیت پاکستان تحریک انصاف کی گرتی ہے تو ق لیگ دوبارہ اس پوزیشن میں آ جائے گی کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر الحاق کر کے پنجاب میں حکومت بنائے اور اگر اسی پوزیشن میں دوبارہ آ جاتی ہے تو پرویز الہی دوبارہ وزیر اعلی پنجاب بھی بن سکتے ہیں ان دو امیدوں کے اوپر پرویز الہی صاحب نہیں چاہتے کہ اسمبلیاں تحلیل ہوں. ان کی خواہش ہے کہ اسمبلیاں چلتی رہیں.

 

 ابھی تھوڑے دن پہلے آپ نے مونس الہی اور پرویز الہی کو یہ کہتے ہوئے سنا اور وہ بار بار ان باتوں کی گرنٹی بھی دیتے رہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے. ہاں ہم اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے. ہم اعتماد کا ووٹ لیں گے اور اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے. عدالت میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہم اپنا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا جو حق ہے جو آئینی حق ہے. اس کو سرینڈر کرنے جا رہے ہیں اس دن پوری پاکستان تحریک انصاف حیران تھی پریشان تھی. لیکن اس دن پرویز الہی صاحب خوش تھے کہ کم سے کم گیارہ تاریخ تک تو اب اسمبلیاں تحلیل نہیں کرنی پڑیں گی.

 

 انہوں نے باقاعدہ لکھ کر اپنا آئینی حق سرینڈر کر دیا عدالت کے سامنے اور اب کہتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے. تو معاملہ یہ ہے کہ اگر اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے. تو پھر تو اسمبلیاں بھی نہیں توڑیں گے. تو عدالت کیا کہے گی? ویسے میری دانست میں اگر یہ معاملہ عدالت کے سامنے جاتا ہے. اور انصاف آئین اور قانون کے مطابق ہوتا ہے تو عدالت کہے گی کہ جی گورنر نے آپ کو کہا ہوا ہے جائیں اور جا کر اعتماد کا ووٹ لیں اور پرویز الہی صاحب کو پھر اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا الٹیمیٹلی لینا پڑے گا آج نہیں لیں گے تو کل لینا پڑے گا تھوڑے دن کے بعد لینا پڑے گا اب یہ ڈیپینڈ کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پرویز الہی صاحب کی اس خواہش کو کتنا لمبا اور کھینچ سکتی ہے عمران خان صاحب کو جب بھی ملتے ہیں مونس الٰہی یا پرویز الہی وہ کہتے ہیں جو آپ کہیں گے وہی ہم کریں گے یہ میں کنفرم کر رہا ہوں آپ کو کہ دونوں باپ بیٹا یہی کہتے ہیں کہ جو آپ کہیں گے وہی ہم کریں گے

 

 لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ اسمبلیاں تحلیل ضرور کروا دیں خان صاحب. لیکن پھر اس کے بدلے میں اس بات کو انشور کریں. کہ پاکستان میں الیکشن ہوں اگر آپ اسمبلیاں بھی تحلیل کروا دیں اور پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن بھی نہ ہوں تو یہ ایک بڑی کمزور بات ہو جائے گی اور ہمارے خلاف چلا جائے گا یہ معاملہ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں پہ جو نگران حکومتیں بنیں گی وہ پی ایم ایل این کی قریبی لوگ ہوں گے اور وہ آپ کے لیے مشکلات پیدا کر دیں گے اور ڈراتے ہیں یہ کہہ کر کہ پچیس مئی کو یہ ہو گیا تھا.

 

 وہ ہو گیا تھا وہی حالات دوبارہ پیدا ہو جائیں گے. تو اس طریقے سے عمران خان صاحب کو قائل کرنے کی لگاتار کوشش کی جا رہی ہے دوسری جانب عمران خان صاحب ووٹ پورے کرنے کے چکر میں کیا اعتماد کا ووٹ جب لیا جائے تو بندے پورے ہونے چاہیں دس بندے ق لیگ کے ہونے چاہیں اور اٹ لیسٹ جو ہے وہ ون ایٹی سکس ون ایٹی سیون بندے جو ہیں کیونکہ ایک سو نوے ٹوٹل پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں اب ایک سو نوے میں سے جو ہیں وہ مومنہ وحید کے بارے میں اب اطلاع دی گئی ہے عمران خان صاحب کو یہ کہا گیا ہے کہ مومنہ وحید سے بات چیت چل رہی ہے

 

 اور وہ پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ ڈالیں گی اور پاکستان تحریک انصاف کے حکم کے مطابق ووٹ ڈالیں گی. یہ کہا گیا ہے عمران خان صاحب کو اور یقین دلایا گیا ہے پارٹی کے کچھ لوگوں کی جانب سے جن سے مومنہ وحید صاحبہ رابطے میں ہیں. مومنہ وحید صاحبہ جو ہیں وہ ان کے تعلقات دوسری طرف زیادہ ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے شاید دباؤ میں بھی وہ جلدی آ سکتی ہیں اور مشکل ہے لیکن پی ٹی آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں انہوں نے عمران خان صاحب کو یقین دلایا کہ ان کو ہم منا لیں گے دو لوگ تو بالکل نہیں آئیں گے ایک تو ترکی چلے گئے ہیں ان کو سیٹل کر دیا گیا ترکی کے اندر رحیم یار خان سے پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے تھے نکل لیے تھے

 

 اور دوسرے جو ڈپٹی اسپیکر ہوا کرتے تھے جنہوں نے حمزہ شہباز کو وزیر اعلی بنا دیا تھا آہ وہ جو ہیں مزاری صاحب دوست مزاری وہ بھی نہیں ووٹ ڈالیں گے دو یہ الگ کر دیں ایک مومنہ کو کر دیں تو یہ پاکستان تحریک انصاف کے رہ جاتے ہیں ون سیونٹی سیون اور اگر اس میں ق لیگ کے مل جائیں ٹوٹل جو ق لیگ کے اپنے ہیں ووٹ دس تو یہ ون ایٹی سیون ہو جاتے ہیں ، ون ایٹی سکس چاہیے اب ایک آزاد امیدوار بھی آکر مل لیے اور انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ یقین دہانی کرائی عمران خان صاحب کو کہ جناب ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے ساتھ مل کر ہم ووٹ ڈالیں گے یہ آزاد امیدوار ہیں بلال وڑائچ یہ پہلے حمزہ شہباز صاحب کو انہوں نے ووٹ ڈالا تھا

 

اور ووٹ ڈالنے کے بعد انہوں نے وزارت بھی لی تھی اب یہ پاکستان تحریک انصاف کے کہنے پہ ووٹ ڈالیں گے اور پھر پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑنا چاہتے ہیں تو وہ ان کی خواہش ہے اور ان کو پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت زیادہ ہے تو اس طرح اگر یہ ایک اور بھی مل جاتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کے تین بھی نکلے تو ایک سو اٹھتر پھر بھی بچتے ہیں اور دس ق لیگ کے ملیں تو ون ایٹی ایٹ پھر ہو جاتے ہیں. ون ایٹی سکس چاہیے. اور اگر مومنہ کو واپس لے آتے ہیں تو ون ایٹی ناین ہوجاتے ہیں. دو لوٹے نکال کے. تو اس طرح پاکستان تحریک انصاف کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لے پائیں گے گو کہ ان کے لوگوں کو رابطہ کیا جا رہا ہے اب عمران خان صاحب نے ایک پیغام مزید دے دیا ہے کیونکہ پرویز الہی صاحب اور کچھ عمران خان صاحب کی پارٹی کے وزراء ہیں وہ بہت ڈرے ہوئے ہیں اور سہمے ہوئے ہیں. وہ پرویز الہی صاحب کو یہ کہتے رہتے ہیں کہ پرویز الہی صاحب توسی اسمبلیاں نہ توڑنا اور یہ سٹ اپ چلنے دیں.

 

ہماری وزارتیں بھی ملوث ہیں۔ آپ وزیر اعلیٰ بھی بن چکے ہیں۔ ماحول کو ویسے ہی رہنے دیں۔ کہیں نئی ​​لڑائی میں پڑو تو ہو جائے گا، ہو جائے گا۔ اب یہ کمزور لوگ ہیں۔ ہر سیاسی میں مضبوط اور کمزور دونوں ہوتے ہیں لیکن لیڈر کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو کمزور پارٹی بنانا چاہتا ہے یا مضبوط لڑاکا پارٹی۔ ان میں سے کچھ واپس آرہے ہیں اور انہیں شک ہے کہ شاید اگلے سیٹ اپ میں جب عمران خان زیادہ مقبولیت کے ساتھ بڑی تعداد میں پنجاب آئیں گے اور وہ نئی کابینہ تشکیل دیں گے تو یہاں ایک مختلف وزیراعلیٰ ہوگا۔ اور شاید اس وقت ان کے پاس وزارت بھی نہ ہو۔ بہت سے وزراء کو ایسا لگتا ہے۔

 لہذا وہ ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر وزارت بھی نہ رہی اگلی مرتبہ تو یہی وزارت جو ہے اس کو پرویز الہی صاحب والی سوچ ہے کہ اسی کو لمبا کرتے ہیں۔ تو اس لیے پرویز الہی صاحب کو پارٹی کے اندر سے کچھ وزیر بھی ڈرے ہوئے وہ یہ کہہ رہے ہیں تو عمران خان صاحب نے بڑا صاف کہہ دیا جی ٹھیک ہے اگر اس میں رکاوٹ ڈالی جائے گی اسمبلیوں کی تحلیل کے اندر کیوں کہ نو تاریخ کو اجلاس بلوایا پاکستان تحریک انصاف نے اور میں آپ کو یہ پہلے خبر دے دیتا ہوں کہ اگر نو تاریخ کو پاکستان تحریک انصاف کے اجلاس کے اندر ان کے ایم پی ایز پورے ہو جاتے ہیں تو وہ دس تاریخ کو پوری کوشش کریں گے کہ اعتماد کا ووٹ لیں وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی چونکہ اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وہاں پہ جو کاروائی کرنی ہے وہ سبطین خان صاحب نے کرنی ہے

 

 اور وہ عمران خان صاحب کے حکم کے پابند ہیں۔ ان کی پارٹی کے تو جیسے ہی عمران خان صاحب نے کہنا ہے سبطین خان صاحب کو کہ جائیں جا کر آپ ووٹنگ کروائیں تو وہ کہہ دیں کہ آئیں جی پرویز الہی صاحب قائد ایوان صاحب آپ کو اعتماد کا ووٹ لینا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کے اگر ون سیونٹی سیون یا ون سیونٹی ایٹ آزاد کو ملا کر اپنے بندے یا ون سیونٹی نائن بھی ہو سکتے ہیں اگر مومنہ بھی ان کے ساتھ آ کر مل جائیں تو اگر اور ایک یا دو آزاد اراکین مزید ابھی رابطے میں ہیں تو اگر پاکستان تحریک انصاف اپنے نمبر ون سیونٹی سیون، ون سیونٹی ایٹ، یا ون ایٹی تک کہیں پہ لے جاتی ہے تو وہ پھر ق لیگ کے وزیر اعلی کو کہے گی کہ جی اپنے دس بندے آپ لے کر آئیں اور آ کر آپ اعتماد کا ووٹ لیں اب یہ معاملہ یہاں پہ آکر رکا ہے

 

 اور اگر یہ نہیں ہوتا تو پھر عمران خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ پھر ہم استعفے دے دیں گے پنجاب سے بھی پھر وہ جو وزراء ہیں جو لوکل کے چھپ چھپ کے جا کر ملتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جناب استعفے نہ دیں اسمبلیاں تحلیل نہ کریں باری لگی ہوئی ہے اس کو لگا رہنے دیں تو وہ جو وزراء ہیں ان کے لیے پھر برا وقت شروع ہو جائے گا اس لیے کہ عمران خان صاحب سب سے پہلے ان کو کہیں گے کہ جاؤ جا کر کابینہ سے استعفی دو وہ جائیں گے اور جا کر کابینہ سے استعفیٰ دیں گے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی ساری کی ساری سیاست اس وقت ایک احتجاجی سیاست ہے اور وہ نظام کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ نظام کا حصہ بنیں گے تو ان کی مقبولیت کم ہوگی۔ وہ بڑی ہائی پچ کے اوپر انہوں نے اپنی سیاست کو اٹھایا ہوا ہے یہ بات عمران خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ یہاں سے اگر وہ نیچے لے کر جائیں گے یا کمپرومائزاز کریں گے تو عوام کے اندر ان کی مقبولیت متاثر ہو گی اگر وہ کابینہ سے استعفے دے دیتے ہیں تو یہ ان کا جو فیصلہ ہے

 

 اس کو ایک دم پذیرائی ملے گی اس کے بعد وہ سبطین خان سپیکر ہیں اور وہ جا کر کہتے ہیں کہ جی ہم سارے کے سارے استعفے دے رہے ہیں اور سبطین خان منظور کر لیتے ہیں تو اس سے ان کو مزید پزیرائی ملے گی. اور ق لیگ کے لیے یہاں پہ پرابلمز پیدا ہو جائیں گے. یعنی ق لیگ کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی. پرویز الہی صاحب کو شاید شک ہے. کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکتے لیکن عمران خان صاحب کو اور ان کی پارٹی کے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ بندے پورے کر دیں گے۔ تو یہ ہے جناب اب تک کی صورتحال کہ چوہدری یہ چاہتے ہیں کہ ووٹ ہم لے لیں پاکستان تحریک انصاف کو اور وہ بھی بہت زیادہ پورے کے پورے ضلعے مانگ رہے ہیں کولیشن کے اندر یعنی ان کے پاس آٹھ ایم پی ایز ہیں اپنے اور آٹھ صوبائی اسمبلی کی نشستیں ان کے پاس ہیں۔ دو ان کے پاس مخصوص نشستیں ہیں۔ تو اس طرح سے ان کی یہ طاقت ہے اور وہ بھی کچھ آزاد ان کے ساتھ ملیں۔

 

 تو ٹھیک ہے آٹھ سیٹیں دس سیٹیں پندرہ سیٹیں بیس سیٹیں لے سکتے تھے لیکن اگر یہ ضلعوں کے ضلعے مانگ رہے ہیں کہ جی سات ضلع یا چھ ضلع ہمیں دے دیے جائیں پورے کے پورے یا کوشش کریں کہ چالیس یا پچاس سیٹیں دے دی جائیں تو پاکستان تحریک انصاف ایسا گھاٹے کا سودا تو کبھی نہیں کرے گی تو چوہدریز کو بھی جو ہے وہ حقیقت پسند ہونا پڑے گا. بہرحال پی ٹی آئی نے صاف کہا جی کہ ہم تو پھر ریزاین کر دیں گے. اور ریزاین کرنے کے بعد پھر احتجاجی سیاست کریں گے. پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا. دوسری جانب شہباز شریف صاحب نے کچھ اناوینسمینٹ کی ہیں شہباز شریف صاحب نے جو باتیں کیں وہ بہت عجیب ہیں یعنی وہ بتا رہے تھے کہ چائنہ کے وزیراعظم سے ان کی بات ہوئی ہے چائنہ کے وزیراعظم کو کہہ رہے تھے جی بڑی اچھی بات ہوئی ہے اور میں آپ کو بتاؤں عمران نیازی نے بڑا کام خراب کیا ہے وہ تاثر یہ دے رہے تھے یعنی ایک مرتبہ بھی شہباز شریف نے اپنی بات چیت میں یہ نہیں کہا کہ چائنہ کے وزیراعظم نے ان کو کہا کہ عمران خان بہت برا آدمی ہے

 

 لیکن تاثر وہ یہی دینا چاہ رہے تھے کہ لوگوں کو سننے والوں کو یہ لگے کہ چائنہ کا وزیراعظم کہہ رہا ہے کہ عمران خان بہت برا آدمی ہے اب اس کو کرتے کیسے ہیں وہ? وہ کہتے ہیں چائنہ بہت اچھا ہے. اپنے گھر والوں کی طرح ہے. وہ بہت پیار کرتے ہیں. ہماری دوستی بہت زبردست ہے. لیکن آپ دیکھیں ایک طرف عمران نیازی نے کیا کر کے رکھ دیا. ہر چیز ملک کی ایسی کر دی خراب کر دی. یہ کر دیا وہ کر دیا. اور سی پیک کے اوپر کام نہیں کیا۔ اور الزامات لگاتے رہے۔ تو چائنہ تو ہمارا بڑا پیارا بھائی ہے میری ان کے وزیراعظم سے بات ہوئی ہے اور ان کے جذبات سن کر میں حیران ہو گیا ہوں۔ اور میں آپ کو بتاؤں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ عمران نیازی نے یعنی وہ دو الگ الگ چیزوں کو ایک وقت میں بول کر لوگوں کو بیوقوف بنانا چاہ رہے تھے کہ چائینہ کے ساتھ عمران خان نے تعلقات خراب کیے ہیں حالانکہ چائنیز خود کہتے ہیں کہ سی پیک کے اوپر جو حقیقتا کام ہوا ہے

 

 شہباز شریف کے دور کے اندر تو یہ کک پیکس والے منصوبے لگے نا سارے بجلی کے لگا دیے فلاں لگا دیے کک پیکس والے یہ یہ چلا دی کیا نام ہے اورنج ٹرین چلا دی او میٹرو چلا دی سارا پیسہ اللے تللوں کے اندر خرچ کر دیا شہباز شریف کے دور میں جو رہیل کام ہوا ہے گراؤنڈ کے اوپر سی پیک کا وہ عمران خان صاحب کے دور حکومت میں ہوا ہے جس میں انڈسٹریل زون بن رہے جس کے اندر گوادر کے اندر بے شمار پروجیکٹس شروع ہوگئے. جس کے اندر گوادر سے لے کر آپ کے خنجراب تک بہترین پروجیکٹس جو ہیں وہ چل رہے ہیں. تو یہ عمران خان صاحب کے دور حکومت میں ہوا اور چائنیز اس بات کو مانتے ہیں لیکن شہباز شریف صاحب جو ہیں وہ اس بات کو نہیں مانتے اور وہ یہ کہتے ہیں پاکستان کی اکنامی ٹھیک ہے اور پاکستان کی اکنامی بہتر ہو رہی ہے اور ہم پاکستان کی اکنامی کو آگے لے کر جائیں گے۔ اور آئی ایم ایف کو ہم نے بتا دیا ہے کہ ہم نے امیر لوگوں کے اوپر ٹیکس لگا دیا ہے

 

 لیکن میری انفارمیشن کے مطابق آئی ایم ایف ان چیزوں کے اوپر نہیں مان رہا بہت سارے ملکوں کو بیچ میں ڈالا گیا ہے سعودی عرب کو بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے چائنہ کو بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوست ملکوں سے کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کو منائیں اور ہمیں کسی طرح سے اس situation میں سے نکالیں کیونکہ خود ڈار صاحب کے نکلنے کا تو معاملہ ہے ہی نہیں۔ اور ڈار صاحب تو کبھی اس میں سے نہ نکلیں گے۔ نہ ملک کو نکلنے دیں گے۔ ہر دور میں جب ڈار صاحب آتے ہیں تو پاکستان نیگیٹو ہوتا ہے ہمیشہ۔ سپیشلی اکسپورٹس کے معاملے کے اندر پاکستان نیگیٹو سے نیگیٹو ہوتا چلا جاتا ہے کبھی بھی پاکستان کے حالات بہتر نہیں ہوتے ڈار صاحب کے دور حکومت میں مثال کے طور پہ اس صورتحال میں پاکستان کے بینکوں نے ایک بڑا اعلان کر دیا ہے اور یہ اعلان سب سے بڑی چپیڑ ہے ڈار صاحب کی پالیسیز کے منہ کے اوپر کیسے میں آپ کو بتاتا ہوں ڈار صاحب یہ کہتے ہیں نا کہ انٹر بینک ڈالر جو ہے وہ دو سو ستائیس دو سو اٹھائیس دو سو چھبیس یہاں پہ ہے. اور جو اوپن مارکیٹ کے اندر ڈالر ہے ہم آپ کو کہتے ہیں کہ اصل پرائس وہ ہے جو اوپن مارکیٹ کے اندر ہےوہ تیس روپے زیادہ ہے وہ دو سو پچپن سے دو سو ساٹھ کے بیچ میں ہے تو وہ ہے

 

 اصل پرایس ڈالر کی ڈالر کی اصل پرایس کون سی ہے جو اوپن مارکیٹ کے اندر ہے یہ جو پرایس رکھی ہوئی ہے ڈار نے یہ نقلی پرایس ہے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک کے اندر جو ڈالر کے ریٹ کا فرق ہوتا ہے وہ ایک آدھا روپیہ دو روپیہ آٹھ آنے اس طرح ہوتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ یہ تیس روپے پینتیس روپے ہو جاتا ہے تو ڈار صاحب نے جعلی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول کر کے نیچے رکھا ہوا ہے اوپن مارکیٹ کے اندر دوسری پرایس ہے اب پاکستان کے بینکوں نے ایک چیز کی اناوینسمینٹ کی ہے جو ڈار صاحب کا جھوٹ پکڑ رہی ہے اور ڈار صاحب کو بے نقاب کر رہی ہے بینکس کیا کہہ رہے ہیں بینک کہہ رہے ہیں کہ کریڈٹ کارڈ کے اوپر جو بیرون ملک لوگ جا کر شاپنگ کرتے ہیں یا ادائیگیاں کرتے ہیں وہ اوپن مارکیٹ ڈالر ریٹ پر ہوں گی یعنی سمجھیں اس کو اب آپ. جب میں پاکستان کے اندر, اپنے بینک کے اندر فرض کریں. میں نے ایک لاکھ روپیہ رکھا ہے. یا چلیں. میں نے دو لاکھ اور پچیس ہزار روپے رکھا ہے تو اس کا مطلب ہے

 

 یہ ایک ہزار ڈالر ہو گیا ہے انٹر بینک کے مطابق لیکن جب میں باہر ملک میں جاؤں گا اور جا کر ان پیسوں کو اپنے کارڈ کے ذریعے خرچ کروں گا تو مجھے کم پیسے ملیں گے شاید کوئی ساڑھے آٹھ سو, آٹھ سو, ڈالر کے قریب ملیں گے. میرا ڈیڑھ سو ڈالر اڑ جائے گا. وجہ کیا ہے? یہ وہی پینتیس روپے کا فرق ہے جو یہاں پہ کلیئر ہو رہا ہے. یعنی بینکس اب یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ اپنے کریڈٹ کارڈ سے شاپنگ کریں گے تو جتنے ڈالر کی شاپنگ کریں گے آپ کا ڈالر کا ریٹ وہ نہیں ہوگا جو ہمارے بینک کے اندر ہے دو سو پچیس دو سو ستائیس روپے یہ ڈار والا ریٹ نہیں ہوگا اوپن مارکیٹ والا ریٹ ہوگا دو سو پچپن سے دو سو ساٹھ کے بیچ میں جو بھی ہوگا اسی ریٹ کے اوپر فکس کریں گے

 

 ہم یہ پاکستان کے بینکوں نے اناوونس کردیا ہے اس کا مطلب کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈار صاحب جھوٹ بول رہے ہیں پاکستان عملی طور پہ تقریبا ڈیفالٹ ہو چکا ہے خواجہ آصف صاحب نے تو اس کا اناوینسمینٹ بھی کر دیا ہے خواجہ آصف صاحب نے فرمایا کہ ہمارے پاس امپورٹ کرنے کے پیسے نہیں ہیں ہو سکتا ہے کہ پورا ملک اندھیروں میں ڈوب جائے اور یہ پاکستان کا وزیر دفاع جو ہے وہ ٹیلی ویژن کے اوپر بیٹھ کر لائیو یہ کہہ رہا ہے کہ ہر چیز بند ہو سکتی ہے کاروبار ٹھپ ہو جائے گا ہر چیز بند ہو جائے گی پاکستان اندھیروں میں ڈوب جائے گا یہ آپ کا وزیر دفاع آپ کو ڈرا رہا ہے یہ حالات پاکستان کے ایک طرف یہ بتا رہے ہیں دوسری جانب جو بہت ساری اور چیزیں ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کے ساتھ یہ جو سال جس کا آغاز ہوا ہے اس کے پہلے ہفتے میں تیئیس چیزوں کی قیمتیں مزید مہنگی ہو گئی ہیں اور سالانہ بنیاد پر جو مہنگائی کے اندر اضافہ ہوا ہے وہ تیس اشاریہ چھ زیرو فیصد ریکارڈ ہو گیا ہے یہ جناب امپورٹڈ حکومت کی کارکردگی ایک اور کارکردگی آپ کو بتاؤں ایک منی بجٹ لایا جا رہا ہے میں نے آپ سے کہا تھا تھوڑا سا لیٹ ہو گیا میں نے آپ سے کہا تھا کہ دسمبر میں ایک نیا منی بجٹ آئے گا یہ حکومت اس بجٹ کے ساتھ پاکستان کو نہیں چلا پائے گی

 

حالانکہ بڑا سخت اور مشکل بجٹ اس حکومت نے دیا تھا وفاقی حکومت کا جلد منی بجٹ لانے کا فیصلہ تاجروں اور دکانداروں پر اضافی ٹیکس لاگو کیا جائے گا اور پٹرولیم مصنوعات اور گیس مصنوعات پر پٹرولیم لیوی ستر سے سو روپے فی لیٹر کرنے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے پہلے پچاس روپے کا مفتاح اسماعیل کر کے آیا تھا اور اب یہ ستر سے سو روپے کرنے جا رہے ہیں یعنی جتنے کا پیٹرول بیچنا تھا ستر روپے لیٹر کہتے تھے پٹرول بیچیں گے سو روپیہ اس کے اوپر لیوی رکھنے جا رہے ہیں یہ حالات رپورٹ ہو رہے ہیں اور کوئی اور رپورٹ نہیں کر رہا اس کو جیو رپورٹ کر رہا ہے دوسری جانب بہت ساری اشیاء پاکستان کے اندر ڈاؤن جا رہی ہیں بعد میں بات کرتے ہیں اگلی وی لاگ میں اب تک کے لیے اتنا خیال رکھیے گا اپنے اس چینل کا بھی اللہ حافظ ۔۔